• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سمجھا تو یہی جاتا ہے کہ فیصل آباد اور لاہور والے بہت جملے باز ہیں بلکہ پورے پنجاب کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ اس صوبے کے لوگ سنجیدہ سے سنجیدہ پہلو میں بھی کوئی مضحکہ خیزنکتہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر فیس بک میں سیاسی اور غیر سیاسی معاملات کے حوالے سے یہ بات کچھ مشکوک سی ہوجاتی ہے۔ ادھر کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے اور اگلے ہی لمحے اس پر کوئی کرارا سا جملہ سامعین کی خدمت میں پیش کر دیا جاتا ہے اور ظاہر ہے اس سےیہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ اس ستم ظریف کا تعلق کس شہر یا کس صوبے سے ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ مشتاق احمد یوسفی کے بعد مزاح نگاروں میں کوئی بڑا نام اگر نظرنہیں آتا تو اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ مزاح کے یہ گمنام سپاہی تیغ و تفنگ کے ساتھ فیس بک کے محاذ پر اپنے جوہر دکھانے لگ گئے ہیں۔ ایسے ایسے خوبصورت جملے سننے کو ملتے ہیں کہ لکھنے والے کو بلاتمیز مذہب و ملت و جنس گلے لگا کر داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ مثلاً ابھی ابھی مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کی پی ٹی آئی کی باہمی گالی گلوچ نما بیان بازی باہمی محبت کی شکل اختیار کرنے جا رہی ہے اسکے فوراً بعد فیس بک کے طنز و مزاح نگار پوری طرح مسلح ہو کر میدان میں اتر آئے ہیں ۔آج ہی جو تبصرےپڑھنے کو ملے ہیں مثلاً ’’پی ٹی آئی والے ابھی ساجد عباس سے آگ پر ماتم کرنا سیکھ رہے تھے اور آج ہی ان کا لیڈر یزید پر ایمان لے آیا‘‘۔ایک کمزور سا جملہ یہ بھی ہے کہ’’ مولانا فضل الرحمان سے بہت زیادتی ہوئی ہے انہیں صدارت دکھا کر وزارت بھی لے لی گئی ہے۔ ‘‘ایک زہریلا جملہ یہ کہ’’ اختلاف اپنی جگہ لیکن صلاح الدین ایوبی کے بعد اگر کوئی انگریز کے سامنے ٹکا ہے تو وہ مولانا ہی ہیں۔‘‘

متذکرہ جملہ بازی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کی کارستانی ہے اور یہ پہلی دفعہ گالی گلوچ کی بجائے ہلکے پھلکے انداز کی چھیڑ چھاڑ ہے اور یہ چاقو کے ساتھ گدگدیاں کرنے کے مترادف ہے۔اس نوع کی گدگدیاں میاں نوازشریف کے ساتھ بھی کی جارہی ہیں۔ مثلاً یہ کہ ’’اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو لندن سے بلا کر انکے ہاتھ میں صرف کبوتر پکڑا دیا ہے‘‘۔ ایک اور جملہ ’’قوم کو نوازنے کا وعدہ تھا، نواز کو کبوتر اور قوم کو شہباز دے کر وعدہ پورا کردیا گیا‘‘۔یہ ستم ظریف کسی کو بھی معاف نہیں کر رہے۔ اندازہ لگائیں تو نوزائیدہ تحریک استحکام کی عزت بھی ان طنز نگاروں کےہاتھوں محفوظ نہیں رہی اور ارشاد فرمایا کہ’’تحریک استحکام چھ ماہ کی عمر میں وفات پا گئی، سوگواران میں بیوہ فردوس عاشق اعوان اور دو بچے علیم خان اور فیاض الحسن چوہان چھوڑ گئی‘‘۔ ابھی فیس بک پر نظر ڈالی تو ایک بار پھر مولانا فضل الرحمان اور عمران خان کی حالیہ دوستی کے حوالے نظر آئے۔ اس کیلئے الگ انداز اپنایا گیا تھا یعنی تصویروں کی زبانی کہانی بیان کی گئی تھی۔ مثلاً ایک بندر لیپ ٹاپ پر بیٹھا ہے اور نیچے کیپشن ہے ’’یوتھیے اپنے سوشل میڈیا سے مولانا کے خلاف کئی گئی پوسٹیں ڈیلیٹ کرتے ہوئے‘‘۔ایک بہت معنی خیز تصویری طنز یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ مولانا فضل الرحمان نے سر پر پی ٹی آئی کا پرچم پگڑی کی صورت باندھا ہوا ہے اور عمران خان نے مولانا کی مخصوص پگڑی اپنے سر پر باندھی ہوئی ہے۔ ایک پوسٹ جو میرے نزدیک بلودی بیلٹ ہے۔ اس اعلان پر مبنی ہے کہ’’ عوام ان دنوں نادرا آفس جانے سے گریز کریں کہ عمران خان کو والد کا مرتبہ دینے والے نوجوان اپنے والد محترم کے نام کی جگہ اب مولانا فضل الرحمان کا نام لکھوانے پہنچےہوئے ہیںجس کی وجہ سے وہاںبہت رش ہے۔‘‘ ایک اور طعنہ زنی ملاحظہ کریں ’’یوتھیے کل سے اپنی ٹینکیاں مولانا کے ڈیزل پمپ سے فل کروائیں‘‘۔

آخر میں صرف ایک جملہ نما پیرا۔ جس میں صنم کا پہلو بھی پایا جاتا ہے وہ بھی پڑھ لیں۔ ’’جونہی اسد قیصر مولانا کے حجرے میں داخل ہوئے تو سائیڈ ٹیبل سے ٹکرانے کی وجہ سے لڑکھڑائے اور گرتے ہوئے ہاتھ مولانا کے گھٹنے پر پڑے۔ جس پر مولانا نے ہنستے ہوئے کہا ، چھوڑ دیں بھائی یہ گھٹنا نہیں، اسد قیصر بولے حضرت یہ جو کچھ بھی ہے لیکن ہمیں فیض یہیں سے ملنا ہے۔‘‘ اب آخر میں اقتدار جاوید کی خوبصورت غزل

ہمارے کام رفتہ رفتہ سارے بن رہے تھے

کہ دریا چل پڑا تھا اور کنارے بن رہے تھے

کسی سے گفتگو آغاز ہونا چاہتی تھی

خدا نے بولنا تھا، تیس پارے بن رہے تھے

بچھایا جا چکا تھا اک بچھونا آسماں پر

ابھی مہتاب بننا تھا، ستارے بن رہے تھے

کہیں پر پنجہ ِ مریم میں آتش پھیلتی تھی

کہیں پر ذکریا تھا اور آرے بن رہے تھے

چھپائی جا رہی تھی آگ سی اس میں کوئی شے

ہوا معلوم کہ وہ دل ہمارے بن رہے تھے

مری نگران تھیں آنکھیں، جہاں پر تُو کھڑی تھی

جہاں پر تیری نظریں تھیں، نظارے بن رہے تھے

رکی تھی حلق میں آواز سے ملتی ہوئی چیز

تھی کوئی بات جو اتنے اشارے بن رہے تھے

جہاں پر تیز بارش تھی وہیں تھی بند ڈبیہ

وہیں سے ہوتے ہوتے سرخ دھارے بن رہے تھے

گلی میں شور سا برپا تھا اور بچّے گھروں سے

نکلنے والے تھے رنگیں غبارے بن رہے تھے!

تازہ ترین