• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی تاریخ میںآج تک شاید ہی ایسے انتخابات ہوئے ہوں جنہیں شفاف کہا جا سکے یا جن کا انعقاد پرامن یا غیر متنازع رہا ہو۔ غیر شفاف انتخابی عمل، غیر واضح طریقہ انتخاب اورمقتدرہ کی پسند نا پسند نے ہمیشہ انتخابات کے عمل کو شکوک و شبہات میں مبتلا رکھا ہے۔ واضح برتری سے بننے والی حکومتوں کو بھی شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ۔ پاکستان کے انتخابی عمل میں ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کا دخل واضح طور پر دیکھا گیا ہے، یہی دخل انتخابی نظام کو مشکوک اور متنازع بنانے کا سبب رہا ہے۔آج تک ہونے والے انتخابات انعقاد کے بعد متنازع قرار پاتے تھے لیکن موجودہ الیکشن اپنے انعقاد سے قبل ہی متنازع ہو چکا تھا۔ 2022سے عام انتخابات کے انعقاد کی بات کی جارہی تھی پاکستان کے معاشی سیاسی اور معاشرتی مستقبل کوانہی انتخابات سے جوڑا جا رہا تھا ۔ سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف پر قائم مقدمات میں انہیںہنگامی ریلیف دے کر کھُل کھیلنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ جبکہ دوسری طرف 9مئی کے واقعات کے بعد سے تحریک انصاف اوراس کے بانی کے گرد گھیرا تنگ سے تنگ کیا جا تا رہا۔ مسلم لیگ نواز نے عمومی طور پر اسٹیبلشمنٹ سے راہ و رسم بڑھنے کا تاثر دیتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیا، آخری ہفتے میں الیکشن کمپین شروع کی ، جس سے ووٹرز کو واضح پیغام ملا کہ شاید واقعی ان کی ’’بات ہو چکی ہے‘‘۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے تمام سرکردہ لوگوں کو یا تو منظر نامے سے ہٹا دیا گیا یا وہ خود بوجوہ روپوش ہونے پر مجبور ہوگئے ۔ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو انتخابی نشان سے محروم کرکے انہیں آزادحیثیت میں الیکشن لڑنے پر مجبور کیا گیاتا کہ غیر متوقع نتائج کی صورت میں ان آزاد ارکان کو کسی طرح استعمال کیا جا سکے۔ بیشتر پی ٹی آئی اراکین کو الیکشن کمپین کی اجازت ہی نہ دی گئی جبکہ اس کے برعکس دیگر جماعتیں آزادانہ نا صرف الیکشن کمپین چلاتی رہیں بلکہ انہیں سرکاری اعانت بھی حاصل رہی۔ مسلم لیگ ن کے رہنما بڑی بے دلی سے انتخابی مہم چلاتے رہے اور غیر ضروری اطمینان کا شکار ہوکر قدرے ریلیکس نظر آئے ۔ انتخابی جلسوں میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی روایتی نورا کشتی عروج پر رہی ،شریک چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کھُل کر مسلم لیگ کی مخالفت کی اور آئندہ ان کے ساتھ کسی بھی طرح کے اتحاد کے امکانات کو وقت سے پہلے ہی رد کر دیا۔ لیکن پھر سب نے دیکھا کہ آٹھ فروری کو کیسے عوام نے بڑی تعداد میں باہر نکل کر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ آٹھ فروری کی رات تک ابتدائی موصول ہونے والے نتائج میں بیشتر حلقوں میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتگان سبقت حاصل کر رہے تھے۔ لیکن پھر رات کے پچھلے پہر نتائج کا سلسلہ رُک گیا ۔ اگلے دو دنوں میں یہ نتائج مکمل ہوپائے ۔ان حیران کن نتائج پر پورے ملک میں چہ میگوئیوں اور تبصروں کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ آٹھ فروری کی رات کو میاں نواز شریف کو کارکنوں سے فاتحانہ خطاب کرنا تھا لیکن ابتدائی نتائج کو دیکھتے ہوئے یہ خطاب ملتوی کرنا پڑا ،یہ خطاب پھر اگلے روز کیا گیا جس میں میاں صاحب نے اکثریتی فاتح جماعت کے طور پر پیپلز پارٹی ایم کیوایم اور دیگر چھوٹی جماعتوں سے مل کر حکومت بنانے کا عندیہ دیا ۔ ان انتخابات کے نتائج پر تاحال سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کئی حلقوں کے انتخابی نتائج چیلنج کر دیے گئے ہیں۔انتخابی عذر داریوں کا سلسلہ چلتا رہے گا یہاں تک کہ پی ڈی ایم کے سرپرست مولانا فضل الرحمان تک نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، اس کے باوجود پی ڈی ایم ٹو گورنمنٹ بننے جا رہی ہے۔ جس میں وہی پرانی حلیف جماعتیں حکومت میں نظر آئیں گی مگر میاں نواز شریف کی چوتھی بار وزیرِ اعظم بننے کی خواہش پوری نہ ہوسکی ۔ انتخابی اعداد و شمار بھی حیران کن رہے، صرف لاہور کے نتائج کو دیکھا جائے تو لاہور کے 14انتخابی حلقوں میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مہیا کردہ اعداد و شمار کے مطابق 52500کے قریب ایسے ناقص ووٹ ڈالے گئے جنہیں مجبوراً مسترد کرنا پڑا ۔یعنی ہم آج تک اپنے ووٹرز کو ووٹ کاسٹ کرنے کا صحیح طریقہ تک نہیں سمجھا پائے۔ پاکستان کے کئی حلقوں میں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد جیتنے والے امیدواروں کی سبقت سے کہیں زیادہ ہے انہی مسترد ووٹوں نے نتائج کا نقشہ بدل کے رکھ دیا ۔ اس بار سابقہ انتخابات سے ماحول قدرے مختلف ہے لاکھوں نئے ووٹرز نے زندگی میں پہلی بار اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا ہے ،نتائج پر ان میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ انتخابات جن کے بعد معیشت اور سیاست کے بحران کے خاتمے کی امیدیں وابستہ کی گئی تھیں ،یہ امیدیںتعبیر سے محروم ر ہیں۔ مخلوط صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے مابین کشمکش کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آ رہا ۔ دنیا ترقی کے زینے عبور کرتے ہوئے کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے لیکن ہم آج تک شفاف اور غیر متنازع انتخابی عمل متعارف کروانے میں ناکام ہیں، جو رائے دہندگان کی رائے کی حقیقی عکاسی کر سکے۔ آنے والے دنوں میں نئی بننے والی حکومت کا حشر ماضی کی حکومتوں سے کتنا مختلف ہو گا یہ کہنا تو ابھی قبل از وقت ہو گا لیکن انتخابی پراسس میں شامل ہونے والی نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد کو ان کے ذہنوں میں جنم لینے والے شکوک کا جواب دینا ہو گا۔ ان کی تشفی کیلئے خاطر خواہ اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ اگلے انتخابات کے نتائج ان نتائج سے کہیں زیادہ حیران کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ عوامی رائے کو رد کرنے کے ادوار گزر چکے آج عوام میںپائے جانے والے سیاسی شعور کوکسی حربے یا کسی طریقے سے دبایا نہیں جا سکتا۔ یہ ملک مزید کسی تجربے کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لیے نوجوانوں کی پر جوش آرا کو اہمیت دینا ہو گی ۔ان کی پسند کو روند کر ان پر مسلط کیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ دیر پا ثابت نہیں ہو سکتا ۔ ووٹرز کے مینڈیٹ کا احترام کرنے میں ہی سب کی عافیت ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین