• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں توقع یہی تھی کہ عام انتخابات کے انعقاد کے بعد ملکی حالات میں بہتری آجائے گی اور اس کے باعث معاشی مشکلات بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جائیں گی، اِس طرح پاکستان میں پُرامن باشعور جمہوریت پسند رحجان معاشرے میں فروغ پائے گا، جس کے باعث صنعتی و تجارتی شعبہ کی سرگرمیاں بھی مثبت سمت پر شروع ہو پائیں گی،مگر یہاں’’ اُلٹی ہو گئیں سب تد بریںکچھ نہ دوا نے کام کیا ‘‘اور ملکی تاریخ میں ایک بارپھر الیکشن تنازع ہوگئے، اس بار تو کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ ہارنے والے تو شور مچاتے ہی ہیں جتنے والے بھی اندر ہی اندر سے گھبرائے اور پریشان پریشان نظر آرہے ہیں،انتخابات کے بعد یہ سب کچھ نہ ہوتا تو پاکستان اور عوام کیلئے اچھا ہوتا، اس سے اندرون ملک تو ہمارے 25کڑور سے زائد عوام پر یشان ہیں اور انہیں روز مرہ مہنگائی اور بے روزگاری نے کئی مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے ، اصل پریشانی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور اُن کے خاندانوں کو ہے ، میں ابھی آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں آٹھ دس ہفتے گزار کر آیا ہوں ، وہاں جمہوریت سے زیادہ ریاست کو عوام کو معاشی ریلیف اور Peace of Mindکی فکر ہے، وہاں ہر شخص روزگار کمانے میں مصروف ہے، وہاں ٹریفک اور روزمرہ زندگی میں مثالی ڈسپلن نظر آتا ہے ، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آسٹریلیا ہو یا نیوزی لینڈ یا دیگر کئی ترقی یافتہ مغر بی ممالک وہاں پاکستان اور پاکستانیوں کے حوالے سے کوئی اچھی رائے نہیں رکھی جاتی بلکہ اس سے پاکستان کا امیج سنورنے کی بجائے بگڑتا جا رہا ہے ، یہ بات ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے جس پر قومی اداروں کو ایک سوچ کے تحت کوئی کام کرنا ہو گا ، ہمارے سیاسی نظام میں بڑھتی ہوئی ناہمواری ایک قومی مسئلہ بنتا جا رہا ہے ، قومی معاشی مسائل حل ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں ،اندرون ملک تو عوام کی ایک بڑھتی تعداد جمہوریت ہی سے بیزار نظر آرہی ہے ، جبکہ عالمی مالیاتی ادارے بھی پاکستان کے معاشی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں ، اب وہ بھی پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کو قومی وسائل کا ضیاع سمجھ رہے ہیں ، اس سارے پس منظر میں پاکستان کے جمہوری نظام کو برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کے حوالے سے کئی خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے جو ایک مثبت سوچ نہیں ہے اس سوچ کو دور کرنے کیلئے ہمارے سیاسی قائدین کو مل بیٹھ کر سیاسی کشیدگی اور مختلف اداروں پر نام لئے بغیر عدم اعتمادکےاظہار کے رحجان کو دور کرنا ہو گا، دنیا بھر میں جمہوری نظام میں کئی جماعتیں ہوتی ہیں لیکن وہاں کی جمہوری سیاسی جماعتیں خوداپنے آپ کو ٹھیک کرنے پر فوکس کرتی ہیں ، اگر دنیا بھر میں ایسا ہو سکتا ہے تو پھر پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا، ، اس وقت خدشہ یہ ہے کہ اگر وفاق اور صوبوں میں کوئی مستحکم حکومت نہ ہوئی تو سیاسی عدم استحکام بڑھے گا اور پاکستان کے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ نئے قرضوں کے حصول اور پرانے قرضوں کی ری شیڈولنگ کے پلان متاثر ہو سکتے ہیں اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے ریاست اور عوام سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اور پھر سرکاری اداروں کے دعوئوں کے برعکس خوفناک قسم کی مہنگائی کا سیلاب آئے گا،جس سے سب سے زیادہ جمہوریت متاثر ہو گی،اس لئے پاکستان کو بچانا ہے تو جمہوریت کو بچاناپڑے گا،چاہے اس کیلئے شراکت اقتدار کا فارمولا ہو یا مشاورت کا سلسلہ ہو، سب چیزوں پر اتفاق رائے ضروری ہے، اس سلسلے میں قومی سطح پر قومی اداروں اور سیاسی قائدین کو مل بیٹھ کر ایک متوازن اصلاحاتی نظام وضع کرنا ہو گا، اس سے پاکستان میں زوال پذیر حالات شاید بہتری کی طرف چلے جائیں ، اس وقت ہم سب کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے کہ پاکستان کو ناکام ریاست بننے سے کیسے بچایا جائے۔ پاکستان الحمد للہ قدرتی وسائل سے مالا مال مثالی ملک ہے اس کے پاس 60فیصد سے زائد یوتھ ہے، یہ اثاثہ ترقی یافتہ ممالک کے پاس بھی نہیں ہے ، لیکن وہاں اس کے باوجود قومی ترقی کو ذاتی مفادات اور کاروبار پر ترجیح دی جاتی ہے کاش یہ سب کچھ پاکستان میں بھی ہوجائے، اور قومی وسائل قوم پر ہی استعمال کرنے کے قوانین اور نظام بن جائے، پھر عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوگی کہ جمہوریت ہے یا نہیں ، عوام کو روٹی ، سیکورٹی اور ذہنی سکون چاہئے اور یہ سب کچھ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست کو یہ سمجھنا ہو گا۔

تازہ ترین