کراچی، پاکستان کا میٹرو پولیٹن شہر اور سب سے بڑا اقتصادی مرکز ہے۔ یہاں مُلک کے تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بستے ہیں، جس کی وجہ سے یہ ’’مِنی پاکستان‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ کراچی کے شہری اُن بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں، جو ایک میٹرو پولیٹن شہر کے لیے لازمی ٹھہرتی ہیں۔
متعدد دیگر مسائل کے علاوہ اہلِ کراچی کو پبلک ٹرانسپورٹ کی قلّت کا مسئلہ بھی درپیش ہے، جس کی وجہ سے عام شہری سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ ماضی میں مختلف حکومتوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں کیں، مگر متعلقہ محکموں میں موجود نا اہل اور بدعنوان عناصر کی وجہ سے ہنوز پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکیں۔
ماضی قریب میں وفاقی حکومت نے اہلِ کراچی کو سفری سہولتیں فراہم کرنے کے لیے بس ریپڈ ٹرانزٹ کے تحت گرین لائن بس سروس شروع کی۔ اس پراجیکٹ پر تقریباً 25ارب روپے لاگت آئی۔ یہ منصوبہ فروری 2016ء میں شروع ہوا اور جنوری 2022ء میں تکمیل کو پہنچا۔ یعنی 18کلومیٹر طویل منصوبہ 6سال کے عرصے میں مکمل ہوا، جب کہ اس کے مقابلے میں لاہور میٹرو بس پراجیکٹ، جس کا رُوٹ 27.1کلو میٹر طویل (کراچی کی گرین لائن بس سروس سے33فی صد کم) ہے، صرف11ماہ کی ریکارڈ مدّت میں مکمل ہوا۔ نیز، اس 6سال کی طویل مدّت میں عوام کو اذیّت الگ برداشت کرنا پڑی۔یہاں قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ اسی قسم کے دیگر پبلک ٹرانسپورٹ کے پراجیکٹس پنجاب کے دوسرے شہروں اور اسلام آباد میں عوام کی تکلیف کو مدِنظر رکھتے ہوئے انتہائی مختصر مدّت میں مکمل کیے گئے۔
ذیل میں پیش کیے جانے والے تقابلی جائزے سے پنجاب ، اسلام آباد اور کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ سروس پراجیکٹس کی تعمیر کے عرصے میں فرق کا باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
پنجاب میں پبلک ٹرانسپورٹ سروس کے منصوبے:
1۔لاہور میٹرو بس پراجیکٹ،روٹ کی طوالت 27.1 کلومیٹر، آغاز 27 مارچ2012ء، تکمیل فروری 2013ء، منصوبے کی مدتِ تکمیل11 ماہ (ریکارڈمدّت)
2۔ملتان میٹرو بس پراجیکٹ،روٹ کی طوالت،18.5کلومیٹر، آغاز مئی2015ء ،تکمیل جنوری2017ء، منصوبے کی مدّتِ تکمیل20ماہ
اسلام آباد میں پبلک ٹرانسپورٹ سروس کا منصوبہ:
1۔ اسلام آباد میٹرو بس پراجیکٹ، روٹ کی طوالت 48.1 کلومیٹر،آغاز فروری 2014ء، تکمیل جون 2015ء،مدتِ تکمیل 17ماہ
کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ سروس کے منصوبے:
1۔ گرین لائن بس پراجیکٹ،روٹ کی طوالت 18کلومیٹر،آغاز فروری 2016ء، تکمیل جنوری 2022ء،مدتِ تکمیل 6سال
2۔ ریڈ لائن بس پراجیکٹ (زیرِ تعمیر)، روٹ کی طوالت 26.6کلومیٹر،آغاز اگست 2022ء (فی الحال کام تقریباً بند ہے)
واضح رہے کہ میئر کراچی، مرتضیٰ وہاب نے آج سے تقریباً2ماہ قبل ایشیائی ترقیاتی بینک کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران بتایا تھا کہ ریڈ لائن بس پراجیکٹ 2026ء تک مکمل کرلیا جائے گا۔ اگر یہ منصوبہ 2026ء میں بھی مکمل ہوتا ہے، تو گویا اسے پایۂ تکمیل تک پہنچنے میں 4.5برس کا عرصہ لگے گا۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ گرین لائن بس پراجیکٹ کی تعمیر کے افتتاح کے موقعے پر اعلان کیا گیا تھا کہ یہ منصوبہ ایک سال میں مکمل ہوجائے گا، مگر مختلف وجوہ کی بنا پر یہ ایک سال کی بجائے 6برس میں مکمل ہوا۔ اگر گرین لائن بس پراجیکٹ کی مدتِ تکمیل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اندازہ لگایا جائے، تو ریڈ لائن بس پراجیکٹ کی تکمیل میں بھی 6سال سے زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے، کیوں کہ اس کے رُوٹ کی لمبائی گرین لائن بس کے روٹ سے8.6کلو میٹر زیادہ ہے۔
اس وقت ریڈ لائن بس پراجیکٹ زیرِ تعمیر ہے اور اس کی وجہ سے گلشنِ اقبال، گلستانِ جوہر اور اسکیم33وغیرہ کے مکین تقریباً ڈیڑھ سال سے سخت ذہنی و جسمانی اذیت میں مبتلا ہیں۔ تعمیراتی کام کے باعث بالخصوص یونی ورسٹی روڈ پر صبح اور شام کے اوقات میں ٹریفک بہت زیادہ جام رہتا ہے، جس سے نہ صرف عوام کو ذہنی کوفت ہوتی ہے، بلکہ اُن کا وقت بھی ضایع ہوتا ہے۔ نیز، ہوش رُبا منہگائی کے اِس دَور میں شہریوں کے ایندھن کے اخراجات اور حکومت پر زرِ مبادلہ کے ذخائر کا بوجھ بھی بڑھ جاتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ نارتھ ناظم آباد، نارتھ کراچی اور سرجانی سے گزرنے والے گرین لائن بس کے ٹریک کی چوڑائی300فٹ ہے، جب کہ یونی ورسٹی روڈ صرف 200فٹ چوڑا ہے، جس پر پہلے ہی دفتری اوقات میں ٹریفک جام رہتا تھا اور ریڈ لائن بس کی وجہ سے یہ سڑک مزید تنگ ہو جائے گی۔ نتیجتاً، اس روڈ پر ٹریفک کے مسائل مزید بڑھ جائیں گے۔ متعلقہ حُکّام کو ایسے پراجیکٹس ڈیزائن کرتے ہوئے تمام پہلوؤں پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
بہرکیف، ہماری دُعا ہے کہ شہرِ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ سروس کے تمام منصوبے کام یابی سے ہم کنار ہوں، کیوں کہ ماضی میں اس ضمن میں ہمیں کافی ناخوش گوار تجربات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مثال کے طور پر 1977ء میں سرکاری سطح پر کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے تحت سیکڑوں بسیں چلائی گئیں، مگر صرف 14برس بعد 1991ء میں ساری گاڑیاں ہی اسکریپ میں تبدیل ہو گئیں۔
بعد ازاں، 2005ء میں اُس وقت کے ناظمِ کراچی، نعمت اللہ خان نے ایک سو سی این جی بسیں چلائیں اور پھر سٹی ناظم، مصطفیٰ کمال کے دَور میں 2009ء میں سی این جی بسیں چلائی گئیں، مگر مذکورہ بالا تمام ہی منصوبے کرپشن کی نذر ہو گئے اور متعلقہ سرکاری حُکّام کی نا اہلی کے سبب بھاری مالی نقصان بھی اُٹھانا پڑا، جب کہ دوسری جانب شہر کے مختلف رُوٹس پر چلنے والی سیکڑوں قدیم اور خستہ حال بسوں سے مالکان ٹھیک ٹھاک منافع کما رہے ہیں۔
خدانخواستہ اگر گرین لائن بس پراجیکٹ کی طرح ریڈ لائن بس منصوبے کی تکمیل میں بھی مزید 4سے5برس تاخیر ہو گئی، تو اہلِ کراچی ایک طویل عرصے تک عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ لہٰذا، ہماری متعلقہ حُکّام سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ مذکورہ پراجیکٹ کو ہنگامی بنیادوں پر جلد از جلد تعمیر کیا جائے۔ وگرنہ یہ منصوبہ ’’سہولت‘‘ کی بجائے ’’اذیّت‘‘ ہی کا باعث بنا رہے گا۔ (مضمون نگار،سابق ڈائریکٹر، کے ڈی اے ہیں)