• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بانی پی ٹی آئی عمران خان کا عالمی مالیاتی ادارے کو مداخلت کی دعوت دینا اور آئی ایم ایف کی امداد کو خط لکھ کر پاکستان کے حالیہ الیکشن کے آڈٹ سے مشروط کرنے کے بیان نے تشویش کی لہر دوڑا دی ہے اور ہر محب وطن کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کیا اُن کا یہ مطالبہ ملک دشمنی کے مترادف نہیں؟ انکے پاکستان مخالف بیان کے بعد عوامی ردعمل کے نتیجے میں توقع کی جارہی تھی کہ پی ٹی آئی قیادت اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائے گی لیکن بانی پی ٹی آئی یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال میں آئی ایم ایف کا پروگرام پاکستان کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اپنے موقف پر بضد رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آئی ایم ایف نے حکومت کو قرضہ دیا تو وہ واپس نہیں کرے گی اور آئی ایم ایف کو خط لکھنے کی صورت میں پاکستان کے مفادات کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ یہ ملکی مفاد میں ہوگا تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ آئی ایم ایف نے پی ٹی آئی قیادت کی تجویز کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اسے مسترد کرتے ہوئے نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں جب پی ٹی آئی نے آئی ایم ایف معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہو، اگست 2022 میں بھی پی ٹی آئی کے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی اس وقت کے پنجاب کے وزیر خزانہ محسن لغاری اور خیبرپختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور جھگڑا کو وفاقی حکومت کو خط لکھنے کا مشورہ دینے کی آڈیو لیک ہوئی تھی کہ وہ آئی ایم ایف کے معاہدے کی تکمیل نہیں کرسکتے۔ یہ اس وقت ہوا تھا جب پی ڈی ایم نےبانی پی ٹی آئی کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کردیا تھا اور پی ٹی آئی کی پنجاب اور کے پی دونوں میں حکومتیں تھیں۔اسی طرح اپنے 2014 کے دھرنے کے دوران بانی پی ٹی آئی نے سول نافرمانی کی کال دی تھی اور یوٹیلیٹی بلز کو جلاتے ہوئے لوگوں سے کہا تھا کہ وہ اپنے بل ادا نہ کریں اور بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنی رقوم بینکنگ چینل کے بجائے ہنڈی سے بھیجیں مگر محب وطن پاکستانیوں نےانکی اپیل کو مسترد کردیا۔

پاکستان کی سیاست میں پی ٹی آئی وہ واحد پارٹی ہے جو شروع دن سے ہی پاکستان کی معیشت سے کھیلنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں کی ملک کو ڈیفالٹ کرنے کی کوئی مذموم کوشش سامنے نہیں آئی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی 2018 کے الیکشن کو متنازع قرار دیا تھا اور مسلم لیگ (ن) کے علاوہ دیگر جماعتوں کی جانب سےبھی الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگائے گئے تھے۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز جیل میں تھیں، پانامہ کیس کا فیصلہ جس طرح دیا گیا، وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے جسے بعد ازاں عدالت نے ختم کردیا۔ اس کے باوجود کسی موقع پر مسلم لیگ (ن) نے پی ٹی آئی حکومت کے آئی ایم ایف معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اسی طرح ماضی میں جب بینظیر بھٹو صاحبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہی تھیں یا ان کی شہادت کے وقت ان کی پارٹی نے اس طرح کا کوئی خط آئی ایم ایف کو لکھنے کی سازش نہیں کی۔ایسے میں جب پاکستان اپنی معاشی تاریخ میں انتہائی کمزور مقام پر کھڑا ہے اور ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلا رہا ہے، بانی پی ٹی آئی کا بیان معاشی بلیک میلنگ کو سیاسی حربے کے طور پر پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی ایک کھلی سازش ہے جس کا مقصد پاکستان کی معیشت کو تباہی سے دوچار کرنا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی ایک ایسی جماعت ہے جو افراتفری میں پروان چڑھی ہے اور اقتدار میں نہ ہونے کی صورت میں ملک میں انتشار چاہتی ہے۔ اگر ماضی میں حکومت، شوکت ترین کے خلاف آئی ایم ایف کو خط لکھنے کا مشورہ دینے کی آڈیو لیک پر کارروائی کرتی تو آج پی ٹی آئی قیادت کو دوبارہ یہ بیان دینے اور پاکستان کی سلامتی سے کھیلنے کی جرات نہ ہوتی۔ پی ٹی آئی کی قیادت کی شروع دن سے یہ کوشش رہی ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے کی توثیق نہ ہونے پائے جسکے نتیجے میں اگر معیشت تباہ حالی کا شکار ہوتی ہے اور ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داری آئندہ حکومت پر ڈال کر سیاسی فائدہ حاصل کیا جائے۔پی ٹی آئی قیادت اقتدار کی ہوس میں اندھی ہوگئی ہے جو معاشی بلیک میلنگ کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کررہی ہے اور اس حد تک جارہی ہے کہ پاکستان سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ کرجائے۔ بانی پی ٹی آئی کا بیان ایک غیر ذمہ دارانہ اور وطن مخالف ہے اور آئی ایم ایف کو خط لکھنے والے محب وطن نہیںجو ملک کے ساتھ پارٹی اور بانی پی ٹی آئی کی سیاست کیلئے بھی نقصان دہ ہے۔ اگر ملک ڈیفالٹ کرتا ہے تو اس کا نقصان کسی سیاسی جماعت کو نہیں بلکہ پاکستانی عوام کو اٹھانا پڑے گا اور ان کے اس طرز سیاست سے پی ٹی آئی اور پاکستان دونوں کا نقصان ہوگا۔اب فیصلہ انہوں نے کرنا ہے کہ کیا وہ اقتدار کی خاطر پورے ملک کو ڈیفالٹ سے دوچار کردیں۔ یقیناً ان کی پارٹی میں کچھ محب وطن ایسے ضرور ہوں گے جو ان کے طرز سیاست سے اختلاف کریں گے اور وہ سیاست پر ملکی سلامتی اور مفادات کو ترجیح دیں گے۔

تازہ ترین