• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت شور سنتے تھے کہ الیکشن میں سیاسی پارٹیاں اور خاص طور پر تحریک والے نئے اور نوجوانوں کو کھڑا کریں گے اور پاکستان ایک نئے روپ کے ساتھ سامنے آئے گا ہر چند سوشل میڈیا جس کو ہم جیسے بوڑھے فالتو اور بے کار سمجھتے رہے ہیں۔ سامنے یہ آیا کہ گھر سے دفتر تک ویلی بیٹھی خواتین اور گلیوں، بازاروں میں گھومتے سارے نوجوان، تحریک کے لیے خوب سوشل میڈیا استعمال کرتے رہے۔ نتیجے میں55فیصد ووٹ پڑے مگر جب کل ووٹوں کا تناسب نکالا، تو پتہ چلا کہ نوجوانوں میں صرف4 فیصد ہیں۔ ہر چند پڑھے لکھے نئے لوگ آئے ہیں وہ بھی112لوگ زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ 83منتخب لوگ بزنس پیشہ ہیں۔ 42فیصد گریجویٹ اور24فیصد ماسٹر ڈگری یافتہ ہیں۔ ان کی عمروں کا تناسب ساتھ ہی پڑھ لیں۔ 47فیصد ممبران کی عمریں66اور75برس کے درمیان ہیں اور صرف4فیصد ہی26سے 35برس کی عمر کے ہیں۔ موروثی بنیاد پر آنے والوں میں کم از کم50فیصد اپنے خاندان یا میاں فیملی سے تعلق یا زرداری تعلق کی بنا پر آئے ہیں۔ اب چونکہ پڑھے لکھوں کو بھی یہ نہیں معلوم کہ مشرقی پاکستان پہلے پاکستان تھا اور50 برس سے یہ بنگلہ دیش ہے۔ اس لیے شاید سوشل میڈیا پر کام کرنے والے نوجوان، ان نئے منتخبہ لوگوں کی شعوری پرورش کریں۔ یہ خواہش یا خواب اس لیے کہ سوائے پنجاب کے محسن نقوی کے، نگراں کوئی ہنر، کوئی مثبت قدم اٹھاکر نہیں روانہ ہورہے ۔ البتہ ایک ہماری طرح کا غریب تعلیم کا وزیر، مدد علی سندھی نے تمام صوبوں کے تعلیمی اداروں کا سروے کیا ہے۔ انجام کیا کہ پیسے نہیں ہیں۔ البتہ آنے سے پہلے مریم بی بی، ہر محکمے کی ضروریات کا سروے کررہی ہیں اور افسروں کا جواب وہی کہ پیسے نہیں ہیں اور بی بی کا کہنا ہے کہ فکر مت کریں۔ عمران خان بھی ایسے ہی اپنی پارٹی کے لوگوں کو کہتا تھا فکر مت کریں۔

تاریخ کے بہائو کو روکنے کی کوشش8فروری کی رات کو کی گئی، ورنہ1985سے وہی اقتدار کا کھیل چل رہا ہے۔ اگر تیل والے مسلم ممالک ہماری مسلسل مدد نہ کرتے تو اس وقت25کروڑ میں سے19کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے ہوتے، ورنہ سیلابوں اور زلزلوں کی ماری یہ قوم، مہنگائی کی چکی میں مانگنے والی قوم ہونے کے باعث ممکن ہے، کچھ سادگی اور کم خرچ پالیسی دیکھ لیتی، اس وقت صرف پنجاب ہی میں سارے ممبران کو جمع کرکے اور پھر منتخب ہونے والے دنوں میں جو پندرہ پندرہ ڈشز پیش کی گئی ہیں وہ مستقبل کا مثبت نقشہ نہیںپیش کررہیں۔

وراثتی خاندان کیسے بیٹھ جاتے ہیں، صرف پاکستان ہی میں دولتانے،ممدوٹ چوہدری، وڈیرے اور ساری مذہبی جماعتیں، تازہ الیکشن میں زمین دوز ہوگئیں۔کہاں گئے جہانگیر ترین، چوہدری نثار اور تحریک لبیک والے۔ فی الوقت اندرا گاندھی اور مریم بی بی کا تقابل مت کریں کہ اس کی پرورش پنڈت نہرو نے کی تھی جو ادیبوں اور فنکاروں کی قدر کرتا تھا۔ جوش صاحب سے دو مرتبہ ذاتی طور پر نہرو صاحب نے ہندوستان میں رہ جانے کی درخواست کی۔ ان کو اپنا بڑھاپا کوثر نیازی کے ہاتھوں خراب کرنے کی تمنا تھی کہ وہ پاکستان آگئے۔ پنڈت نہرو نے اپنے ملک کے فنکاروں، ادیبوں اور فلم کے اہم ناموں کو سینیٹ میں عزت دی۔ ہمارے ملک میں ریشماں شوکت اسپتال جاتی رہی اور یہ کہہ کر پلٹا دی گئی کہ تمہارا کینسر لاعلاج ہوچکا ہے۔ ہمارے آئین میں 5فیصد سیٹیں عورتوں کے لیے ہیں کہ وہ بھی حنا کھر اور نفیسہ شاہ کی طرح مساوی سیٹوں پر الیکشن میں کھڑی ہوں مگر وراثتی خاندان کے ہاتھوں جب تک حکومتیں رہیں گی یہی نفسیہ شاہ بھی آئیں گی کہ وہ بھی بڑے باپ کی مریم بی بی کی طرح بیٹی ہے۔ اندرا گاندھی بھی اپنے بیٹوں کی موت اور خود سکھوں کے غصے کی آگ میں جل گئی تھیں۔ مریم نے اپنے والد سے نہیں تو اپنے چاچو سے کیا سیکھا ہے، اس کو عمل اور گفتار میں دیکھنے کی تمناہے۔انڈیا میں عام پارٹی آئی تو سب لوگ کہتے تھے، یہ نہیں چلےگی مگر جب تک مذہبی دیوانگی مودی کی نہیں تھی۔ عام پارٹی نے عزت کمائی۔ آپ کے سامنے حسینہ واجد کی بھی مثال ہے۔ انہوں نے ساری مخالف پارٹیوں کو اندر کرکے تیسری مرتبہ الیکشن جیت لیے۔ یوں نیک نامی تو نہیں ملتی۔ البتہ بنگلہ دیش میں فیملی پلاننگ اور عورتوں کو مساوی تنخواہوں کے باعث آبادی بھی قابو میں ہے اور معاشی ڈھانچہ ہم سے بہت بہتر ہے۔ مثالیں دے کر یہ سمجھانا چاہ رہی ہوں کہ مریم بی بی آپ بھی خوشامدیوں میں مت چھپ جائیں۔ آپ اپنے والد سے بہتر کام کرنا چاہتی ہیں تو پڑھے لکھے ممبران اور خاص کر مخالف پارٹیوں میں ذہین لوگوں پر مشتمل شعبے بنائیں ،بار بارلیپ ٹاپ دینے کے علاوہ بھی نصاب میں تبدیلیوں اور مقامی حکومتوں کے ذریعہ بنیادی سطح پر دیہات کو آباد رکھنے کے لیے صحت و صفائی، تعلیم اور بجلی کے ساتھ ساتھ سادگی خود بھی اختیار کریں اور خواتین ممبران کو بھی شائستگی اور بے غرض ہوکر کام کرنے کی تاکید کریں۔

برطانیہ جیسے ملک نے اسکولوں میں موبائل بند کردیے ہیں۔ ہمیں بھی اسکولوں میں بچوں کے لیے صحت مند کھانا دینے اور اپنے علاقے کی سیاسی، معاشرتی اور تاریخی اہمیت کا علم دینا چاہئے۔ ہمارے بچے ہرن مینار، دراوڑی قلعہ دیکھنے تو جاتے ہیں مگر نہ ان کے تاریخی حوالوں سے واقف ہیں اور نہ ان کے والدین ۔وطن سے محبت صرف لڈی ڈالنے سے نہیں پرورش پاتی۔ دیہات میں مقامی فنکاروں کے ذریعہ موسیقی،تھیٹر اور ہمارے پرانے کھیلوں کے ساتھ نئی ایجادات اور سائنسی معلومات کو بھی نصاب کا حصہ بنانا ہوگا۔ عورتیں دیہات میں کاشت کاری میں برابر کا کام کرتی ہیں۔ ہم نے کبھی ان کی محنت کو مالی طور پر مستحکم نہ کیا ، انہیں بھی اپنے علاقے کی مقامی حکومتوں میں شامل کرکے دیکھو تو۔ کوشش کریں کہ گھرانے مالی طور پر مستحکم ہوں، صرف چھابے بنانے سے عورت آمدنی میں اضافہ نہیں کرسکتی۔ بہرحال مریم بی بی تمہاری کامیابی8 مارچ کو ظاہر ہونی چاہئے۔

تازہ ترین