دو دوست تھے، دونوں بہت کالے تھے اور لوگوں کے طنز کا نشانہ بنتے رہتے تھے۔ ایک روز دونوں دریا کے کنارے جارہے تھے کہ کنارے پڑی ایک بند بوتل پر نظر پڑی۔ انہوںنے بوتل اٹھا کر ڈھکن کھولا تو اندر سے ایک جن نکل آیا اور بولا’میں چار سو سال سے اس بوتل میں قید تھا، آپ نے مجھے رہائی دلائی ، اس کے عوض میں آپ دونوں کی ایک ایک خواہش پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں، بولیں کیا مانگتے ہیں‘۔ پہلے دوست نے جلدی سے کہا’مجھے گورا چٹا کردو‘۔ جن نے پھونک ماری اور وہ گورا چٹا ہوگیا۔ جن نے دوسرے دوست سے پوچھا’حکم میرے آقا‘۔ دوست نے کچھ دیر سوچا ، پھر پہلے دوست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا’اینوں فیر کالا کردے‘۔
یہ لطیفہ ہماری اجتماعی سوچ کا مظہر ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے فائدے پر اتنی خوشی نہیں ہوتی جتنی دوسرے کے نقصان پر ہوتی ہے۔ہم خود اتنے کالے ہوچکے ہیں کہ ہمیں کوئی اُجلا بندہ برداشت ہی نہیں ہوتا لہٰذا اپنی کالک دور کرنے کی بجائے اُسے اپنے جیسا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ ڈاکٹر عفان قیصر معدہ جگر کے ڈاکٹر ہیں ان کے موٹیویشنل لیکچر بھی بہت مشہور ہیں۔ ان کا ایک سموسے والا کلپ بڑا وائرل ہوا تھا جس میں انہوں نے معدے کیلئے سموسے کے نقصانات گنوائے تھے۔ اس کے بعد احباب نے پیار محبت میں ان کا نام ہی ڈاکٹر سموسے والا رکھ دیا۔یہ انتہائی محنتی انسان ہیں۔ تعلق پڑھی لکھی فیملی سے ہے۔ اپنی محنت اور لگن سے ڈاکٹر بنے۔ا سپیشلائز کیا ، پھر اپنے ہی شعبے کی ڈاکٹر نازش سے اِن کی شادی ہوئی اور اب ان کی ایک پیاری سی بیٹی بھی ہے۔دونوں میاں بیوی نے دن رات کی انتھک محنت اور اپنی جمع پونجی خرچ کرکے ایک معدہ وجگر کا ہسپتال بنایا ۔ اس ہسپتال میں جو چیز آنے والے مریضوں کی توجہ کھینچتی ہے وہ ایک تختی ہے جس پر لکھا ہے’’مریض اور لواحقین کو مکمل آزادی ہے کہ وہ جہاں سے مرضی نجی ، سرکاری و نیم سرکاری جگہ سے ٹیسٹ کروا سکتے ہیں، مریض مرضی سے سٹینڈرڈ برینڈ کی دوا کھا سکتے ہیں۔ٹیسٹ کروانے، نہ کروانے اوردوائی کے برینڈ میں آپ کو مکمل آزادی حاصل ہے‘‘۔ اس سے آگے قدم بڑھائیں تو ایک اور تختی پر نظر پڑتی ہے جہاں لکھا ہے’’اگر آپ زکوۃ، فطرانہ، خیرات کے حق دار ہیں یا کسی مالی مشکل کی وجہ سے فیس میں معاونت درکار ہے توآپ اندر ڈاکٹر صاحب کو بتا کر مکمل مدد حاصل کر سکتے ہیں اور اگر آپ دیگر مریضوں کی مدد کی خاطر کچھ عطیہ کرنا چاہتے ہوں تومریض ڈونیشن فنڈ میں اپنا عطیہ جمع کروا سکتے ہیں‘‘۔ یہ دونوں تحاریر ہر آنے جانے والوں کی نظروں میں رہتی ہیں ۔لیکن چونکہ کسی کا اجلا پن نمایاں ہورہا تھا لہٰذا کسی سے برداشت نہیں ہوا اور ایک ڈرامائی سیچویشن بنا کراس مسیحا پر کیچڑ اچھالنے کی ناکام کوشش کی گئی۔سی سی ٹی وی میں نظر آتا ہے کہ ایک صاحب 35 لاکھ کی گاڑی میں آتے ہیں ، انہیں کچھ ٹیسٹ لکھ کر دیے جاتے ہیں۔وہ اپنی مرضی سے ٹیسٹ کرواتے ہیں اور واپسی پر اپنی مرضی سے اسی ہسپتال کی فارمیسی سے دوائیاں خریدتے ہیں ، موبائل نکال کر باہر فٹ پاتھ پرایک وڈیو بناتے ہیں جس میں وہ دُہائیاں دیتے نظر آتے ہیں کہ وہ ایک غریب آدمی ہیں جنہیں ڈاکٹر عفان قیصر نے لوٹ لیا ہے۔ اسی وڈیو میں وہ بتاتے ہیںکہ ڈاکٹرنے اُن سے کہا کہ ابھی وہ ان سے بات نہیں کر پائیں گے کیونکہ وہ ایک مریض کا آپریشن کررہے ہیں اور مریض بیہوش پڑا ہے۔ وڈیوبنانے والے صاحب کہتے ہیں اس کے بعد گارڈز نے اُنہیں دھکے مارکر باہر نکال دیا ۔وڈیو جنگل کی آگ کی طرح سوشل میڈیاپر پھیل جاتی ہے۔تماش بینوں کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی کہ اچھا مصالحہ مل گیا ہے۔ اس کے بعد بلا تحقیق جس کے جو جی میں آیا وہ بولتا چلا گیا۔ الیکٹرانک میڈیا بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیںرہا اور عفان قیصر کی آڑ میں سارے ڈاکٹروں کے جی بھر کے لتے لیے۔میرے لیے یہ صورتحال بہت حیران کن تھی کیونکہ میں ڈاکٹر صاحب کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔اُنہیں تو ہمیشہ سے غریبوں کا ہمدرد پایا، وہ تو ہر لمحہ دعائوں کے طالب رہتے ہیں تو پھر یہ سب کیا ہے۔جونہی یہ وڈیو میں نے دیکھی تو اُنہیں میسج کیا۔ اُنہوں نے کال کی تو میں نے تفصیل پوچھی۔ انتہائی کرب کے عالم میں بولے کہ پہلے اُنہیں اور اُن کی فیملی کو مختلف طرح سے تنگ کرنے کی کوشش کی گئی اور اب یہ حرکت کرکے ریٹنگ حاصل کرنے کی بھونڈی کوشش کی گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا کہ چونکہ وہ اکثر ایک سیاسی پارٹی کے حق میں بات کرتے رہتے ہیں تو شاید یہ کسی مخالف سیاسی خیالات رکھنے والے کا کام ہے۔ انہوں نے مذکورہ شخص کی تمام تر سی سی ٹی وی وڈیوز دکھائیں جس میںنہ کسی نے اُن سے بدتمیزی کی ، نہ دھکے مارے ، نہ باہر نکالا بلکہ وہ کائونٹر پر خود ایسا ماحول بنانے کی کوشش کرتے رہے کہ کوئی دنگا فساد ہوجائے لیکن انتظامیہ نے اُن سے کسی قسم کی کوئی ہاتھا پائی نہیں کی۔ میں سوچ رہا ہوں کہ وڈیو بنانے والے صاحب کو ہوسکتا ہے کہ کچھ لاکھ ویوز مل گئے ہوں لیکن کیا اب ویوز کے چکر میں یہی ہوا کرے گا۔موبائل پکڑیں، کسی کی عزت اچھالیں اور ویوز کے ساتھ ساتھ ہمدردی بھی حاصل کرلیں۔ ڈاکٹرز ویسے ہی ہمارے نشانے پر ہیں۔تسلیم کہ تمام ڈاکٹرز اچھے نہیں، لیکن معذرت، تمام ڈاکٹرز برے بھی نہیں۔خدا کے لیے جو اچھے ہیں اُنہیں برا بنا کر پیش کرنے سے گریز کریں۔کہیں تو اچھائی کی تعریف کردیں ،کہیں تو انسانیت کوزندہ رہنے دیں۔نیوز اور ویوز نے ہمارے دماغ کیوں فیوز کردیے ہیں۔