• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مملکت خداداد بارہویں عام انتخابات سے فیض یاب ہو چکی۔ واہمہ! کیا الیکشن نمبر 12، ہمارا آخری الیکشن ہو سکتا ہے؟ وطن عزیز کا بڑا المیہ، ہماری اسٹیبلشمنٹ صدقِ دل سے سمجھتی ہے کہ مروجہ آئین اور قانون ان کو انصاف فراہم کرنے سے یکسر قاصر ہیں۔ چند دن پہلے کور کمانڈرز کانفرنس کا لمبا چوڑا اہم اعلامیہ آیا۔ سانحہ 9 مئی پردو ٹوک موقف حاصل کلام تھا، ’’سانحہ 9مئی کے منصوبہ سازوں، اشتعال دلانے والوں، حوصلہ افزائی کرنیوالوں اور شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنیوالوں اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنیوالوں کو یقینی طور پر قانون اور آئین کی متعلقہ دفعات کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لایا جائیگا‘‘۔

8فروری الیکشن کے بعدتاثر عام تھا، ’’عمران خان رہا ہونے کو ہیں‘‘۔ اعلامیہ بالخصوص عمران اور معتقدین کیلئے کہ اسٹیبلشمنٹ سانحہ 9مئی کسی صورت بھولنے پر تیار نہیں۔ ممکنہ طور پر بیان PTI کے پروپیگنڈا کا جواب تھا۔ کاش ماضی میں بھی ایسے سانحات پر ایسی گرفت ہوتی، بے شمار سانحات بشمول سانحہ مشرقی پاکستان سے بچ جاتے۔ کانفرنس اعلامیہ نے یقین دلایا کیا کہ 8فروری کے الیکشن نتائج، عسکری قیادت کی جاری پالیسیاں کو متاثر نہیں کرینگے۔ خوگر حمد سے گلہ بنتا ہے، اکابرین کی بیٹھک نے آئین اور قانون کے مطابق سزا دلانے کا عزم جتلایا ہے۔ بد قسمتی سے پچھلے 10ماہ کے زمینی حقائق اس کی نفی کرتے ہیں، ماورائے آئین وقانون اقدامات کا ہی تو راج رہا ہے۔ قومی بد نصیبی! 70 سال سے مقتدرہ اپنے آپکو انصاف دلانے کیلئے آئین اور قانون کو ہمیشہ روندتی رہی ہے۔

8 فروری 2024ءکے الیکشن کی شفافیت یا غیر شفافیت سے غرض نہیں کہ کھیل پرانا، عرصہ دراز سے جاری ہے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ عمران خان کیلئے دھاندلی پسند فرمائی جاتی اور امابعد ان کی خاطر مدارت میں شفاف الیکشن پیش ہوتے۔ میرے نزدیک، الیکشن کی غیر شفافیت پر شور مچانے اور انگلی اٹھانے والے ہر قسم کے اخلاقی جواز سے بانجھ ہیں۔ دھاندلی کی کوکھ سے جنم لینے والے تب تک ایسے استحقاق سے محروم رہیں گے، جب تک 2018ءکے الیکشن کی حقیقت حال پر اپنا اعترافی بیان رقم نہیں کرواتے۔ وزن تب ہی بہ یک زبان تحقیقاتی جوڈیشل کمیشن کے مطالبہ میں، 2018ءاور 2024ءدونوں انتخابات کو نتھی رکھیں۔ لمحہ فکریہ، نئے انتخابات نے سیاسی بحران کو مزید گہرا کرنا ہے۔ الیکشن 2018ءمملکت کو جس دلدل میں دھکیل گیا ہے۔ اس میں اضافہ تو ہو سکتا ہے، کمی نہیں۔ بد نصیبی، آج تک ہونیوالے 12 انتخابات کا پیغام ایک ہی، تمام عام انتخابات پاکستان کیلئے آسودگی اور استحکام کی بجائے انتشار اور تقسیم در تقسیم کا باعث بنے۔ ملکی انتخابات سے جڑی ایسی حقیقت صاحبِ فکر و نظر کا دل دہلانے اور اعصاب شل رکھنے کیلئے کافی ہے۔ 2018ءاور 2024ءکے انتخابات مسائل بڑھا گئے ہیں، ایک نیا اصول وضع کر گئے ہیں۔ حکومتوں کے قیام، استحکام یا دورانیہ کا ملکی سیاسی استحکام کے بناؤ بگاڑ سے کوئی تعلق نہیں رہا۔

خوش آئند کہانی دہرائی جا رہی ہے، ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اقتدار میں بخیر خوبی موجود ہیں۔ تحریک انصاف نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ گو ’’بہت دیر کی مہربان آتے آتے‘‘، کہ جہاں جہاں جس حیثیت میں جگہ پائی، برضا و رغبت نظام کا حصہ بن چکی ہے۔ اس وقت تینوں بڑی جماعتیں نظام میں موجود، باہمی پیوست ہیں۔ جب تک ہے جاں، سب نے بھرپور رول ادا کرنا ہے۔ اس سے پہلے عمران خان کا پارٹی قیادت کی زمینی حقائق کے مطابق تشکیل، اسٹیبلشمنٹ کیلئے ایک مثبت اشارہ تھا۔ قطع نظر کہ عمران مقبولیت کے کس درجہ پر اور نواز شریف کی مقبولیت کے خانہ میں کتنی گنجائش موجود، وطنی سیاست کایک دم 2 مضبوط سیاستدانوں سے محروم ہونا ایک بڑا سیاسی خلا جو ملک کیلئے نقصان دہ ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کو کریڈٹ، اپنی خواہش کے مطابق ایک نئی پیکنگ میں پرانا ’’سیاسی سرکس‘‘ متعارف کروانے اور ترتیب دینے میں کامیاب ہو چکی۔ 2018ءمیں جب عمران کو دھونس دھاندلی سے اقتدار سونپا تو اپنے 22مارچ 2018ءکے کالم میں ’’کوئی تو ہے جو نظام وطن چلا رہا ہے‘‘، کم وبیش یہی اندازہ لگایا تھاکہ پروجیکٹ عمران مملکت پر بھاری رہنا ہے۔ کالم کا اختتام کچھ یوں تھا، ’’نواز شریف کو گارنٹی دیتا ہوں کہ 2023ءیا اس سے بھی ایک آدھ سال پہلے اقتدار خود بخود انکے قدموں میں آنا ہے کہ قومی افق پر ایک ہی سیاسی رہنما، جناب ہی نے تو بچنا ہے۔ جبکہ 1971ءمیں عبرتناک شکست کے بعد صدر یحییٰ نے نور الامین اور ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار گھر جا کر ہی تو تفویض کیا تھا۔ ن لیگ کو جب دوبارہ 2023ءمیں اقتدار ملے گا، تو سول ملٹری تنازع کی وجہ نزاع کا تدارک ہو چکا ہو گا۔ حالات کا تقاضا بھی یہی رہنا ہے۔ شرط کڑی، اس کھینچا تانی میں، پاکستان کا سلامت رہنا ضروری ہے کہ آنے والے دن وطن عزیز پر بہت کڑے ہیں‘‘۔

کیا موجودہ مقتدرہ نئے نظام کو چلا، سہار پائے گی۔ الیکشن 2018ءسے وجود میں آنیوالا نظام 2022 ءمیں منطقی انجام پر پہنچنے کو تھا۔ بھیانک اثرات مرتب ہوا چاہتے تھے کہ باجوہ عمران لڑائی نے ماحول یکسر تبدیل کر دیا۔ مملکت کو ایسی گہری کھائی میں دھکیلا کہ اب نکلنا ناممکن ہے۔ مقتدرہ نے کمال مہارت سے الیکشن نمبر 12تو کروا دیا۔ ایک نظام بھی وجود میں آچکا۔ نئی حکومت عنان اقتدار سنبھال چکی۔ کیا یہ ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے کافی ہے؟ دہراتا ہوں، 2018 ءکے الیکشن نے ایک نیا پہلو آشکار کیا، مستحکم حکومت اور ملکی سیاسی استحکام دو مختلف چیزیں ہیں۔ 2018ءاور 2024ءکے الیکشن سے وجود میں آنیوالی حکومت کا پائیدار ہونا یا مدت ملازمت پوری کرنے کا ملکی سیاسی استحکام سے کوئی تعلق نہیں۔ حیف! کیا ایسے حالات بھی دیکھنے تھے جہاں پائیدار اور مستحکم حکومت بھی استحکام کی ضامن نہ بن پائے۔ الیکشن 2024ءمن و عن الیکشن 2018ءکا اعادہ ہے، سیاسی استحکام کیونکر ممکن ہوتا؟ حالیہ الیکشن نمبر 12مملکت میں موجود گھمبیر سیاسی عدم استحکام کو مزید کتنے چار چاند لگائے گا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ دھڑکا اتنا کہ الیکشن نمبر 12کے بعد، اگلے الیکشن نمبر 13کا انعقاد مجھے اپنی زندگی میں ہوتا بمشکل نظر آتا ہے۔ اللہ کرے کہ میں ہمیشہ کی طرح غلط ثابت ہوں۔

تازہ ترین