• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ادب کے مستقبل کے بارے میں اس سے پہلے بھی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں، اور صرف ہمارے یہاں نہیں، بلکہ دنیا کی مختلف تہذیبوں میں اس تشویش نے اہلِ ادب و دانش کو الجھن سے دوچار کیا ہے۔ مثال کے طور پر انقلاب کے بعد روس میں، دوسری عالمی جنگ کے بعد بالخصوص جرمنی، فرانس اور جاپان میں اور اسی طرح وہ جو اشپنگلر نے پورے مغرب کے تہذیبی انہدام کی بات کی، وہ جس سیاق میں تھی، اس میں ادب بھی شامل تھا۔ 

تاہم واقعہ یہ ہے کہ اکیس ویں صدی کے تناظر میں اس سوال کی نوعیت بہت گمبھیر اور شدت ماقبل ادوار سے بہت مختلف ہے۔ اس کا اندازہ محض اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آج ادب کے مستقبل کا سوال ایک درجے میں دراصل خود انسانیت کے مستقبل کا سوال بن جاتا ہے۔ جی ہاں، انسانیت کے مستقبل کا سوال۔

مغرب کے صنعتی انقلاب کے بعد ممکن ہے یہ بات کچھ ذہنوں میں پوری تو واضح نہ ہو کہ یہ سفر کن مراحل سے گزر کر منزل پر پہنچے گا، لیکن یہ ضرور ہے کہ سوچنے والوں نے اُس وقت بھی کسی نہ کسی حد تک یہ طے کر لیا تھا کہ ان کی کدوکاوش کی آخری منزل خطۂ ارضی کی انسانی آبادی کا مکمل طور پر ایک کنزیومر سوسائٹی میں تبدیل ہوجانا ہے۔ ابتدا میں یہ ایک بڑا، بہت بڑا خواب رہا ہوگا۔ آپ اسے شیطانی خواب بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن شیطان اور اس کے قوم قبیلے کو خواب دیکھنے سے تو باز نہیں رکھ سکتے۔

اکیس ویں صدی کے حالیہ روز و شب تک آتے ہوئے یہ خواب جس رفتار سے اپنا سفر طے کر رہا تھا، وہ کچھ اور تھی، لیکن آج یہ سفر ہوش رُبا رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے، اس رفتار سے کہ اب یہ خواب، خواب نہیں حقیقت الامر اور اس عہدِ جدید کے انسان کی ناگزیر تقدیر نظر آرہا ہے۔ پہلے جس طرح اس کی نفی کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں، ممکن ہے، انھوں نے اپنے اپنے انداز سے اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ہو، اور کسی وقت اس طوفان کو روکنے کی صورتِ حال امید افزا بھی ہوئی ہو، لیکن اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ وہ سب کوششیں کامگار نہیں رہیں۔

صنعتی انقلاب آج سائنس اور ٹیکنولوجی کے جلوئہ ہزار شیوہ کی رنگینیوں اور رعنائیوں کے ساتھ یوں منزل کی طرف بڑھ رہا ہے کہ اس کے آگے اب کوئی شے ٹھہرتی نظر نہیں آتی، بالکل اسی طرح جیسے سیلاب یا طوفان کے مقابل کوئی چیز نہیں ٹھہر پاتی۔ یہاں دو سوال غور طلب ہیں:

۱۔ اس سفریا انقلاب کی آخری منزل میں ایسا کیا ہے جس پر ہمیں تشویش ہے؟

۲۔ کیا سات آٹھ ارب افراد کا کنزیومر سوسائٹی بن جانا انسان کی ازلی و ابدی تقدیر ہے؟

یہ دونوں سوال گفتگو یا بحث کے الگ الگ دفتر کا تقاضا کرتے ہیں، جس کا سرِدست موقع نہیں۔ اختصار سے بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ تشویش بلکہ وحشت کا باعث یہ ہے کہ یہ سفر جس مقام پر تکمیل کو پہنچے گا اس منزل کو پانے والے لوگوں کا وجود تو بے شک خارجی اعتبار سے انسانی ہوگا، لیکن اس کی داخلی نوعیت اور کیفیت روح سے عاری ایک مشین جیسی ہو کر رہ جائے گی۔ 

اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک بے روح کل پرزہ ہوگا حسیات، تجربات اور سوالات کے شعور سے تہی محض ایک ایسا وجود جسے اپنی روح اور حیثیت کا کوئی ادراک نہ ہو۔ کیا یہ انسانی معنویت کی نفی کے مترادف نہیںہے، اگر ہے تو آپ خود غور کیجیے کہ اس انقلاب پر آپ کو تشویش ہونی چاہیے یا نہیں۔

رہا دوسرا سوال تو اس کا صاف جواب یہ ہے کہ انقلاب کی یہ منزل انسانی منزل نہیں ہے، یعنی اس کی ازلی و ابدی تقدیر نہیں ہے۔ یہ انسانیت کے درپیِ آزار کچھ دہشت گردوں، تہذیب کے قزاقوں اور انسانی روح کو مالِ مسروقہ بنانے والے لٹیروں کی ہوس پرستی کا نقشہ ہے۔ یہ نقشہ ایک بار بن کر راہِ سفر کا تعین اور منزل کے حصول کی جستجو کا مرحلہ طے نہیں ہو رہا، بلکہ اس کے بننے بگڑنے کی صورتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ 

وہ یوں کہ جس سماج میں کوئی اخلاقی نظام، جس معاشرے میں تہذیبی اقدار اور جس گروہ میں انسانی وجود سے برتر کسی حقیقت کا تصور کار فرما ہے، وہاں اس نقشے میں بگاڑ اور اس کے سفر کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ہوس کاروں اور شعبدہ بازوں کو راہ سیدھی کرنے کے لیے پھر جتن کرنے پڑتے ہیں۔ ٹکرائو کی یہ صورتِ حال ایک عرصے سے جاری ہے اور آگے بھی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک انسانی معاشرے میں اخلاقی نظام اور تہذیبی اقدار کے ضابطے کی کوئی نہ کوئی صورت مؤثر رہے گی۔

انسانی سماج نے ہزاروں برس کے تہذیبی سفر میں اپنے لیے جو اصول بنائے، قواعد طے کیے اور جن خوابوں کی تعبیر کا سامان کیا ہے، اُس سب کی نفی کرنا ایسا کچھ آسان تو نہیں ہوسکتا۔ اس سفر میں جو تہذیبی مظاہر اور ثقافتی ادارے وجود میں آئے ہیں اُن کی جڑیں انسان کے باطن میں اتنی گہری اور مضبوط ہیں کہ ان پر اب تک کوئی حربہ پوری طرح کارگر نہیں ہوا ہے۔ انھی مظاہر میں سے ایک اہم مظہر ادب ہے اور اداروں میں ایک وقیع اور مؤثر ادارہ ادیب شاعر ہے۔ 

یہ ادیب شاعر اور ان کا تخلیق کردہ شعر و افسانہ اس دنیا کو جدید بنانے، کنزیومر سوسائٹی میں ڈھالنے، انقلاب کے عمل سے گزارنے اور اس پورے کرئہ ارض کو صارفیت کا عالمی گائوں بنانے کا خواب دیکھنے والوں کی آنکھوں ہی نہیں دل میں بھی کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔ وہ ان کو ہر ممکن طریقے سے اور جلد از جلد ٹھکانے لگانے اور اپنی راہ سے ہٹانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جو حکمتِ عملی اس بار سامنے آئی، وہ یہ ہے کہ تہذیب، ثقافت، اقدار اور ادب کو لایعنی باور کرا دیا جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ پہلے ان سب چیزوں کی ضرورت، افادیت اور اہمیت کے سوال اٹھتے تھے جو مکمل طور پر کارآمد نہ ہوسکے۔ 

اب ان کی اضافیت باور کرانے کے حربے آزمائے جارہے ہیں۔ یہ کام جدیدیت کے اوزاروں سے آغاز ہوا تھا جو ساختیات، پس ساختیات، مابعد نوآبادیات سے ہوتا ہوا اب مابعد قومیت، مابعد ثقافت اور مابعد مابعد کے مرحلے تک آپہنچا ہے۔ پہلے اسے صرف جنگِ زرگری سمجھا گیا، وہ تو خیر یہ ہے ہی، لیکن اب ذرا غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگ دغل ہے، دھوکے، جھوٹ، التباس کا پردہ۔ اس پردے پر دل کش رنگوں کی پتلیاں دل فریب آوازوں اور نعروں میں اس عہد کے انسانوں کو خود رفتگی کا وہ سبق پڑھانے اور ان تصورات سے آشنا کرنے میں محو نظر آتی ہیں جو انھیں تہذیب، ثقافت، ادب، تاریخ اور اجتماعی حافظے کے بوجھ سے دست بردار ہونے اور ’’ہلکی پھلکی‘‘، ’’آزاد‘‘، ’’خودمختار‘‘ اور ’’پُرلطف‘‘ زندگی گزارنے پر مائل کرتے ہیں۔ 

مسئلہ مگر یہ ہے کہ تہذیب و ادب نے انسانی ذہن کا جو سانچا اس عرصے میں بنایا ہے اور اس کے مزاج کی جس طرح تشکیل کی ہے، وہ آڑے آجاتی ہے۔ کوئی شعر، کوئی مصرع، نظم کی کوئی لائن، کسی افسانے کا کوئی کردار اور کسی ناول کا کوئی ماجرا آج کے انسان کو یک بہ یک اس کی تہذیبی اقدار اور اجتماعی حافظے سے اس طرح جوڑ دیتا ہے کہ صدیوں کے شعور و احساس کا جوہر خون بن کر اس کی رگوں میں دوڑ جاتا ہے۔ یوں اس عہد کا انسان اپنے رُو بہ رُو نوع بہ نوع رنگوں میں ناچتی مابعد جدیدیت کی اصلیت کو بھانپ لیتا ہے اور اُس کے چنگل میں پھنسنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔

کون کہہ سکتا ہے کہ یہ کھیل کب تک جاری رہے گا— یقینا اُس وقت تک تو رہے گا جب تک انسانیت باقی ہے، انسان کو اپنے ہونے اور زندگی کی معنویت کا ادراک ہے، جب تک وہ سوچ رہا ہے اور شعر و ادب پڑھ رہا ہے۔fs

یہی اکیس ویں صدی میں ادب کا مستقبل ہے اور انسانیت کا بھی۔