پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائدمحمد نواز شریف کم و بیش پونے سات سال بعد پارلیمانی سیاست میں واپس آئے ہیں، انہیں ایک سازش کے تحت نہ صرف پاکستان کی پارلیمانی سیاست سے باہر نکا لا گیا بلکہ ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان کی صحت جس تیزی سے گر رہی تھی اس کا تقاضا تھا کہ ان کا بیرون ملک علاج کرایا جائے انکے بیرون علاج کا اس وقت کے وزیر اعظم تک نے مذاق اڑایا۔ اللہ تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا 2028ء تک اقتدار انجوائے کرنے کے خواب دیکھنے والوں کیلئے اڈیالہ جیل مقدر بن گئی اور نواز شریف دو بارہ پارلیمنٹ میں واپس آ گئے بلکہ مسلم لیگ (ن) کی وفاق اور پنجاب میں حکومت بن گئی۔ 11اپریل 2022ء کو نواز شریف نے اپنے بھائی شہباز شریف کے گلے میں 16ماہ کی حکومت کا ’’طوق‘‘ ڈال کر اپنا ’’سیاسی سرمایہ‘‘ تباہ وبرباد تو کر لیا لیکن ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا 8فروری 2024ء کے انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف خود تو چوتھی بار وزیر اعظم نہ بن سکے لیکن ایک بار پھر شہباز شریف کو ’’تخت اسلام آباد‘‘ اور اپنی ہونہار صاحبزادی مریم نواز کو ’’تخت لہور‘‘‘ پر بٹھا دیا البتہ مسلم لیگ ن قومی اسمبلی میں واحد اکثریتی جماعت نہ بن سکی، پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کی مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جمعیت علما اسلام میں بندر بانٹ کے بعد حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی لیکن ابھی تک یہ عقدہ حل نہیں ہوا کہ نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا بھاری پتھر چوم کر کیوں چھوڑ دیا ہے، کیا طاقت ور قوتوں نے ان پر ان کے بھائی کو ترجیح دی ہے؟ میں اس بات کا کھوج لگا رہا ہوں کہ ’’پاکستان کو نواز دو‘‘ کے نعرے کو کیوں پذیرائی حاصل نہ ہوئی؟ نواز شریف نےپونے سات سال بعد پارلیمنٹ کی دہلیز پر قدم رکھا تو کمیٹی روم نمبر 2میں منتظر مسلم لیگی ارکان پارلیمنٹ نے ان کا پر جوش خیر مقدم کیا پارلیمنٹ کی تاریخ کوئی اچھی نہیں ہے، ماضی قریب میںمسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی باہم دست و گریبان رہے، 2013ء کی قومی اسمبلی میں ہیئت ترکیبی کچھ ایسی بنی کہ پی ٹی آئی بمقابلہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ہو گئی پچھلے 10سال سے یہی صورت حال برقرار ہے، پارلیمنٹ ہنگامہ آرائی اور نعرے بازی کا گڑھ بن گئی ہے بعض اوقات نوبت ہاتھا پائی اور گالم گلوچ تک جا پہنچتی ہے پونے سات سال بعد نواز شریف نے پارلیمنٹ کے ایوان میں قدم رکھا تو ان کا سب سے بڑا سیاسی حریف اڈیالہ جیل میں ’’سرکاری مہمان‘‘ ہے لیکن بانی پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ’’کھمبوں‘‘ نے پارلیمنٹ میں اودھم مچا رکھا ہے ان کے نعروں کی گونج اڈیالہ جیل تک سنائی دے رہی شاید ان کا ایک ہی ایجنڈا ہے ’’کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیواں گے‘‘ وزیر اعظم شہباز شریف کو اسی طرح سنی اتحاد کونسل کے لبادے میں موجود پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان نے پر سکون تقریر نہیں کرنے دی جس طرح بانی پی ٹی آئی کو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے خطاب کا موقع نہیں دیا تھا چونکہ اب سنی اتحاد کونسل کے ارکان کو پہلی بار پارلیمنٹ کے در و دیوار دیکھنے کا موقع ملا ہے لہٰذا وہ پارلیمنٹ کے آداب سے ہی آگاہ نہیں بات شور شرابہ تک ہو تو شاید برداشت ہوجائے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کچھ عناصر پارلیمان میں مشرقی پاکستان کی اسمبلی کی تاریخ دہرانے پرتلے ہوئے ہیں پارلیمنٹ میں کوئی نوابزادہ نصر اللہ تو ہے نہیں جو ’’سیز فائر‘‘ کر وا سکے میں نصف صدی سے زائد پارلیمنٹ کور کر رہا ہوں میں نے پارلیمان میں شدید ہنگامہ آرائی دیکھی ہے لیکن اب مجھے خدشہ ہے کہ پارلیمنٹ میں شدید ترین ہنگامہ آرائی حدود عبور کر رہی ہے جو پارلیمنٹ کی بساط لپیٹنے کا باعث بن سکتی ہے سر دست نواز شریف کی پارلیمان میں حاضری علامتی نظر آتی ہے وہ ایوان میں ہنگامہ آرائی کے پیش نظر زیادہ وقت پارلیمنٹ کو نہیں دے سکیں گے انہوں نے حلف اٹھانے کے بعد وزیر اعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب اور وزیر اعظم کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی ہے البتہ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ کچھ وقت گزارا ہے جو کل تک ان کے اتحادی تھے لیکن 8فروری2018کے انتخابات نے دونوں رہنمائوں کے سیاسی راستے جدا کر دئیے ہیں مولانا فضل الرحمن باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں سیاسی بحران ہو یا کوئی مشکل سر پر آن پڑے مولانا فضل الرحمن کے قہقہوں کی گونج سنائی دیتی ہے کچھ ایسی ہی کیفیت نواز شریف کی ہے وہ بھی ’’بذلہ سنجی‘‘ میں مولانا سے کم نہیں۔ انہوں نےدوبار جلا وطنی کا مشکل دور لطائف سے لطف اندوز ہونے میں گزار دیا ہے وہ چوتھی بار وزیر اعظم نہ بن سکے اور مولانا فضل الرحمن اپنی پارٹی کا حجم کم کرنے سے صدر مملکت کے منصب کے حصول کی دوڑ سے آئوٹ ہو گئے نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان ’’ون آن ون‘‘ ملاقات میں نواز شریف کی زبان پر سید محمد خان رند کا درج ذیل شعر آ گیا
؎ آ عندلیب مل کے کریں آہ زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلائوں ہائے دل
عام انتخابات کے انعقاد کے بعد نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان ہونے والی ملاقات کی تفصیلات تو منظر عام پر نہیں آئیں تاہم مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا اپنا فیصلہ سنا دیا ہے جہاں پہلے ہی بلوچستان سے دو بڑے لیڈر محمود خان اچکزئی اور سردار اختر مینگل موجود ہیں جن کی شعلہ بیانی کی تپش دور دور تک پہنچ رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے اپوزیشن بنچوں پر سنی اتحاد کونسل کے ارکان کے ساتھ بیٹھنے سے خوب رونق لگے گی، فی الحال سنی اتحاد کونسل کے ارکان فارم 45 اور 47کے چکر سے نہیں نکل پائے۔ ان پر قومی اسمبلی کی مخصو ص نشستیں چھن جانے کی افتاد پڑی ہے اس نے اسے عدالتوں میں داد رسی پر مجبور کر دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عدلیہ میں یہ لڑائی کہاں جا کر ختم ہوتی ہے،اس بارے میں حتمی طور کوئی بات نہیں کہی جا سکتی۔