• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو کم و بیش گزشتہ دو دہائیوں سے موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث موسلادھار بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے ،جس کے نتیجے میں ہر سال بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ماہرینِ موسمیات کے مطابق ماضی کی طرح رواں برس بھی غیر معمولی بارشوں کا سامنا رہے گا، جب کہ اگلی دہائی میں طوفانی بارشوں اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کا خطرہ دُگنے سے بھی زائد ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

مُلک کے دیگرحصّوں کی طرح صوبۂ بلوچستان بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کی زد میں ہے۔ بلوچستان کے شہری اگست 2022ء میں صوبے کے مختلف اضلاع میں ہونے والی طوفانی بارشوں اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں کے اثرات سے ابھی مکمل طور پر نکل بھی نہ پائے تھے کہ رواں برس 27فروری کو ضلع گوادر، جسے سی پیک کا مرکز کہا جاتا ہے، غیر معمولی طوفانی بارشوں کے باعث مکمل طور پر زیرِ آب آگیا۔30گھنٹے تک مسلسل جاری رہنے والی بارش کے نتیجے میں سیلابی صورتِ حال پیدا ہو گئی اور پورا ضلع تالاب کا منظر پیش کرنے لگا۔ 

اس دوران سیکڑوں مکانات میں کئی کئی فِٹ پانی جمع ہو گیا اور اکثر رہائش کے قابل نہیں رہے۔ غیر معمولی بارش اور سیلاب کے باعث 5افراد جاں بحق ، جب کہ سیکڑوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ گوادر میں تین روز کے دوران مجموعی طور پر 245ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی اور سڑکوں کے زیرِ آب آنے کی وجہ سے شہریوں کو نقل و حرکت کے لیے کشتیوں کا سہارا لینا پڑا۔ پانی کے تیز بہائو کے سبب ساحلی شہر، جیونی میں 3برساتی بند ٹوٹ گئے، جس کی وجہ سے وہاں کا نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ اسی طرح گوادر ایئر پورٹ کے ایپرن اور دیگر حصّوں میں 6انچ تک پانی جمع ہونے کے سبب فلائٹ آپریشن معطّل کرنا پڑا۔ 

موسلادھار بارشوں سے 12مقامات پر مواصلاتی نظام منقطع ہو گیا، جب کہ 80سے زائد کشتیاں ڈُوبنے سے ماہی گیروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ پانی میں گِھرے سیلاب زدگان کی مشکلات میں اُس وقت مزید اضافہ ہو گیا کہ جب برساتی پانی جمع ہونے کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں نمونیا، ملیریا اور ہیضے جیسے امراض پھیلنے لگے۔ اس ضمن میں ایم ایس، سِول اسپتال، گوادر، ڈاکٹر حفیظ کا کہنا ہے کہ ’’غیر معمولی بارش کے بعد گوادر میں نمونیا اور ہیضے کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے، جس کا اہم سبب شہریوں کی جانب سے آلودہ پانی کا استعمال ہے۔ کوئٹہ سے محکمۂ صحت کی خصوصی ٹیمیں بھی گوادر پہنچ چُکی ہیں اور شہریوں کے علاج معالجے کے لیے 51ٹیسٹنگ سینٹرز قائم کیے گئے ہیں۔‘‘

یاد رہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے گوادر کو ایک خوش حال اور ترقّی یافتہ پورٹ سٹی بنانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں، لیکن حالیہ تیز ترین بارش نے ان تمام دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ درحقیقت، گوادر میں تاحال ایک بڑے شہر کی تعمیر کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے، ابھی صرف انفرااسٹرکچر کی تعمیر کا آغاز ہوا ہے اور یہ شہر ایک غیر معمولی بارش بھی برداشت نہیں کر سکا۔ لہٰذا، منصوبہ بندی میں غفلت کا نوٹس لیتے ہوئے نہ صرف ذمّے داروں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی بلکہ گوادر کی تعمیر کے لیے از سرِ نو پلان بھی مرتّب کرنا ہو گا، تا کہ مستقبل میں اس قسم کی قدرتی آفات کا مقابلہ کیا جا سکے۔ 

دوسری جانب اکثر متاثرین کا کہنا ہے کہ ’’بارش اور سیلابی پانی نے ہمارا سب کچھ برباد کر کے رکھ دیا۔ اس وقت ہمارے پاس نہ کچھ کھانے کو ہے اور نہ پینے کا صاف پانی دست یاب ہے۔ ابھی تک متعلقہ اداروں کا کوئی فرد ہماری مدد کو نہیں آیا، جس کی وجہ سے ہم شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔‘‘ شہریوں کا مزید کہنا تھا کہ ’’گرچہ گوادر کو آفت زدہ قرار دے کر امدادی سرگرمیاں شروع کر دی گئی ہیں، لیکن یہ صرف گوادر سٹی تک محدود ہیں اور دیہی علاقوں کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ اگر صوبے یا مُلک میں حکومت کا کوئی عمل دخل ہے، تو اُسے عوام کی مدد کے لیے ضرور آگے آنا چاہیے۔ اس وقت مقامی باشندوں کو صاف پانی اور خوراک کے علاوہ گھروں اور محلّوں سے جلد از جلد نکاسیٔ آب کی بھی ضرورت ہے۔‘‘

اس اَمر میں کوئی شک نہیں کہ اربن فلڈنگ (طویل دوانیے کی موسلادھار بارش یا طوفان کے نتیجے میں شہر کا زیرِ آب آنا) دُنیا بھر کے بڑے شہروں کی انتظامیہ کے لیے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے، جس سے بچائو کے لیے بہر حال شہروں کی تعمیر کے دوران نکاسیٔ آب کا بندوبست کرنا ضروری ہے۔ ابھی گوادر شہر پوری طرح آباد بھی نہیں ہوا کہ وہاں موسلادھار بارش کے ایک ہی سلسلے نے تباہی مچا دی، لیکن جب مستقبل میں گوادر باقاعدہ ایک پورٹ سٹی کی صُورت اختیار کر لے گا اور وہاں نکاسیٔ آب کا کوئی ٹھوس بندوبست نہ کیا گیا، تو پھر اربن فلڈنگ سے ہونے والے ممکنہ نقصانات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ 

واضح رہے کہ گودار میں تقریباً 15سال بعد اس قدر شدید بارش ہوئی ، لیکن سابق دَورِ حکومت میں پلاننگ کمیشن نے بھی یہاں نکاسیٔ آب کے نظام کی تعمیر پر کوئی خاص توجّہ نہیں دی۔ گرچہ کسی بھی قدرتی آفت سے بچنا مشکل ہوتا ہے، لیکن اس کے نقصانات کم کرنے کے لیے پیشگی اقدامات ضروری ہیں۔ واضح رہے کہ گوادر شہر دُنیا کی سب سے بڑی آبی تجارتی گزرگاہ پر واقع ہے اور پوری دُنیا میں ایک جدید ترین بندر گاہ کے طورپر مشہور ہے، جب کہ 60کلومیٹر طویل ساحلی پٹّی کے حامل گوادر شہر کی اہمیت روز بروز بڑھتی بھی جا رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں نہ صرف پاکستان بلکہ چین، افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک کی بحری تجارت کا بیش تر انحصار اسی بندر گاہ پر ہو گا۔ لہٰذا، نو منتخب وفاقی و صوبائی حکومتوں اور شہری انتظامیہ کو مل کر ضلع گواد رکو بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال سے نکالنا ہو گا اور ایسا انفرااسٹرکچر تعمیرکرنا ہو گا کہ آئندہ ایسی صورتِ حال پیدا نہ ہو۔ نیز، موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے بچائو کے لیے بھی سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

تاہم، یہاں خوش کُن اَمر یہ ہے کہ گوادر میں سیلابی صورتِ حال پیدا ہونے کے بعد وفاقی و صوبائی حکومت اور پاک فوج نے فوری طور پر امدادی کارروائیاں شروع کر دیں اور نو منتخب وزیرِ اعظم، شہباز شریف نے اپنے عُہدے کا حلف اُٹھانے کے فوراً گوادر کا دورہ کیا، جب کہ اس سے قبل سرفراز بگٹی، وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کا منصب سنبھالتے ہی گوادر کے ہنگامی دورے پر پہنچے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے متاثرین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ مَیں گوادر متاثرین کی مدد کے لیے آیا ہوں اور بارش سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا۔‘‘ 

اس موقعے پر وزیرِ اعظم نے متعلقہ حُکّام و انتظامیہ کو ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ ’’جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے قبل از وقت قدرتی آفات کا تعیّن کرنے کے لیے نظام وضع کیا جائے اور متاثرہ مواصلاتی ڈھانچے کی بحالی اور نجی املاک کے نقصانات سے متعلق تفصیلی جائزہ رپورٹ پیش کی جائے۔‘‘ وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ ’’متاثرین کی مدد اور بحالی کے لیے ایک جامع پلان مرتّب کر کے پیش کیا جائے۔ یہ امداد متاثرین کے لیے احسان نہیں۔ ہمیں مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ 

جن کے گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے، اُنہیں 7لاکھ 50ہزار روپے دیے جائیں گے اور جن کے گھروں کو جزوی نقصان پہنچا، اُنہیں ساڑھے 3لاکھ روپے دیے جائیں گے۔‘‘ اس موقعے پر وزیرِ اعظم نے یہ بھی کہا کہ ’’بارشوں سے جاں بحق افراد کے لواحقین کو 20لاکھ روپے فی کس اور زخمیوں کو 5لاکھ روپے فی کس دیے جائیں گے۔‘‘ جب کہ اس سے قبل وزیرِ اعلیٰ، میر سرفراز بگٹی نے اپنے دورۂ گوادر میں اعلیٰ سطح کے اجلاس سے خطاب میں یقین دہانی کروائی کہ گوادر کے ہر علاقے سے جلد از جلد بارش کا پانی نکال لیا جائے گا۔

انہوں نے ڈی جی، پی ڈی ایم اے اور چیف سیکریٹری کو مکمل نکاسیٔ آب تک گوادر میں رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’بارش اور سیلاب سے جن 700گھروں کو نقصان پہنچا ہے، 20روز میں اس نقصان کا تخمینہ لگا کے، امداد متاثرین کی دہلیز پر پہنچائی جائے ۔‘‘ نیز، ہر مشکل گھڑی کی طرح اس بار بھی پاک فوج نے گوادر میں امدادی کارروائیوں کے دوران بھرپور مدد کی تاکہ بلوچستان کے عوام کسی بھی مصیبت میں خود کو تنہا محسوس نہ کریں۔‘‘

دریں اثنا، کمانڈر 12کور، جنرل راحت نسیم نے بھی گوادر کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کر کے متاثرین سے ملاقات کی۔ اس موقعے پر جی او سی، گوادر ڈویژن نے متاثرہ علاقے میں لوگوں کو درپیش مسائل اور امدادی ٹیموں کی جانب سے کیے گئے فوری اقدامات سے متعلق اُنہیں بریفنگ دی۔ کور کمانڈر نے عمائدینِ علاقہ اور سماجی شخصیات سے بھی ملاقات کی۔ کور کمانڈر نے کہا کہ ’’پاک فوج اس قدرتی آفت میں سِول انتظامیہ اور دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر بلوچستان میں سیلاب متاثرین کی بروقت امداد و بحالی کو یقینی بنائے گی۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ’’سیلابی صورتِ حال کے پیشِ نظر پاک فوج نے کوئٹہ سے17بڑے اور چھوٹے واٹر پمپس گوادر پہنچائے ہیں اور صورتِ حال کی مکمل بہتری تک پاک فوج کی امدادی ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں موجود رہ کر متاثرین کو ریلیف فراہم کرتی رہیں گی۔‘‘

اس موقعے پر کمشنر مکران ڈویژن، سعید عُمرانی نے امدادی سرگرمیوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’پاک فوج اور بحریہ کی ٹیمیں بھی ضلعی انتظامیہ کی مدد کر رہی ہیں۔ گوادر میں 30گھنٹے تک مسلسل بارش ہوتی رہی۔ اور مجموعی طور پر 187ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، جس کے باعث نشیبی علاقے زیرِ آب آگئے، جب کہ پرانی آبادیاں زیادہ متاثر ہوئیں۔ پورے ضلعے سے 58مکانات اور چار دیواریوں کو نقصان پہنچنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ’’جیونی میں تیز ہواؤں اور سیلابی ریلوں کے باعث ساحل پر کھڑی 80کشتیاں ٹُوٹ پُھوٹ کی شکار ہوئیں یا پھر ڈُوب کر تباہ ہو گئیں۔ 

ضلع بھر میں ایمرجینسی نافذ ہے۔ امدادی سرگرمیوں میں پی ڈی ایم اے، پولیس، لیویز اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ سمیت تمام متعلقہ محکموں کی ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ سربندن میں 12ڈی واٹرنگ مشینز کے ذریعے نکاسیٔ آب کا سلسلہ جاری ہے، جب کہ قریبی اضلاع سے بھی مشینری طلب کی گئی ہے۔‘‘ کمشنر کے مطابق پرانی آبادی سے متاثرین کو سرکاری ریسٹ ہاؤس منتقل کردیا گیا ہے، جب کہ بڑی تعداد میں شہریوں کی اپنے رشتے داروں کے ہاں منتقلی کے لیے سرکاری ٹرانسپورٹ فراہم کی گئی ہے۔ نیز، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کو ٹینکرز کے ذریعے شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی کی ذمّے داری سونپی گئی ہے۔‘‘

’’حق دو گوادر تحریک‘‘ اور جماعتِ اسلامی کے مشترکہ پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والے رُکنِ بلوچستان اسمبلی، ہدایت الرحمٰن بلوچ نے، جو سیلاب زدگان کی بحالی کی سرگرمیوں پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں اور حکومتی عُہدے داروں کے ساتھ متاثرہ علاقوں کے دورے بھی کر رہے ہیں، کہا کہ ’’سی پیک کا مرکز اور مستقبل کا دُبئی کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے برساتی پانی میں ڈُوب گیا۔یعنی بارش نے گوادر کی تعمیر و ترقّی کی پول کھول کر رکھ دیا ہے، جب کہ کرپشن اور کمیشن خوری کی سزا گوادر کے عوام بُھگت رہے ہیں۔‘‘

دوسری جانب محکمۂ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ، زاہد رفیع نے گوادر میں غیر معمولی بارشوں سے متعلق بتایا کہ ’’بارش کا سسٹم مغرب میں پیدا ہوا اور خلیجی ممالک سے ہوتا ہوا پاکستان کے جنوب مغربی علاقوں میں پہنچا۔ یہ بات دُرست ہے کہ گوادر میں ہونے والی حالیہ بارش غیر معمولی تھی اور اس کا سبب موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والا رُحجان ہے۔ جیسا کہ گزشتہ دنوں خلیجی ممالک مثلاً سعودی عرب اور متّحدہ عرب امارات میں بھی کافی بارش ہوئی اور اس کی وجہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث وہاں سمندر میں بننے والا بارش کا سسٹم تھا۔ اسی وجہ سے بلوچستان کے بالائی علاقوں میں برف باری، جب کہ زیریں علاقوں میں طوفانی بارش کی پیش گوئی کی گئی تھی۔‘‘

گوادر میں غیر معمولی بارش اور سیلاب سے ہونے والی تباہی سے متعلق مقامی صحافی، بہرام بلوچ نے بتایا کہ ’’ گوادر کی قدیم آبادی ساحل پر واقع ہے اور یہاں نکاسیٔ آب کا کوئی نظام نہیں، لہٰذا نشیبی علاقہ ہونے کے سبب بہت پانی جمع ہو جاتا ہے، جب کہ فِش ہاربر کی دیوار اور نئی سڑک بننے کی وجہ سے پانی کا راستہ رُک گیا اور اس نے آبادیوں کا رُخ کرلیا۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ’’قدیم آبادی میں شاید ہی کوئی مکان ایسا ہو کہ جس کی چھت نہ ٹپکی ہو اور اس میں پانی داخل نہ ہوا ہو۔ گھروں میں بارش کا پانی داخل ہونے سے مکینوں کے کپڑے اور بستر تک بھیگ گئے ،یہاں تک کہ اس وقت کوئی مکان رہائش کے قابل نہیں۔اسی لیے بالائی اور نسبتاً محفو ظ علاقوں سے لوگ آکر متاثرہ آبادیوں سے اپنے رشتے داروں کو کشتیوں کے ذریعے محفوظ مقامات پر منتقل کررہے ہیں ،جب کہ امدادی سرگرمیاں بہت سُست روی کا شکار ہیں۔‘‘

گوادر میںمسلسل 30گھنٹے جاری رہنے والی موسلادھار بارش سے آنے والا سیلاب، تباہی و بربادی کے اَن مٹ نقوش چھوڑ گیا۔ اس وقت لاکھوں متاثرین کُھلے آسمان تلے عارضی پناہ گاہوں میں سرکاری و رفاہی تنظیموں کی امداد کے سہارے شب و روز گزار رہے ہیں۔ اب ان کی بحالی اور آباد کاری کا انتہائی مشکل مرحلہ درپیش ہے، جو بڑے پیمانے پر وسائل کا متقاضی ہے، جب کہ اس کے ساتھ ہی سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے اور آئندہ کے لیے پیشگی انتظامات کے حوالے سے جامع حکمت عملی بھی وضع کرنا ہو گی۔ اگر اہلِ بست و کشاد واقعتاً گوادر کو ایک جدید پورٹ سٹی کے رُوپ میں دیکھنا چاہتے ہیں، تو اُنہیں سب سے پہلے اس شہر کے باشندوں کو قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات سے بچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔