• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نجانے یہ کیسا گھن چکر ہے ،نہ ہمارے حالات و واقعات بدلتے ہیں اور نہ ہی ماضی ،مستقل اور حال کا فرق معلوم ہوتا ہے۔گاہے یوں محسوس ہوتا ہے ہم دائروں کے سفر پر گامزن ہیں۔یادش بخیر،18جولائی 1993ء کوکاکڑ فارمولے کے تحت صدر اور وزیراعظم دونوںکی چھٹی ہوگئی توعام انتخابات کے انعقاد کیلئے نگران وزیراعظم ڈھونڈنے کی ضرورت پیش آئی۔متوقع امیدواروں کی فہرست 80افراد پر مشتمل تھی لیکن یکے بعد دیگرے یہ سب نام کسی نہ کسی فریق کی جانب سے مستر دکر دیئے گئے تو جنرل عبدالوحید کاکڑ کی ہدایت پر ڈی جی آئی ایس آئی جنرل جاوید اشرف قاضی نے جادوگر کی طرح اپنے ہیٹ سے معین قریشی کا نام نکالا اور اس پر سب مان گئے۔آئی ایم ایف کے سابق نائب صدر معین قریشی جو امریکی گرین کارڈ ہولڈر تھے ،اس وقت سنگاپور میں تھے ،ان سے رابطہ کیاگیا مگر معین قریشی نے یہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کردیا۔معین قریشی کے انکار پرلیفٹیننٹ جنرل جاوید اشرف قاضی نے بیک اپ پلان کے مطابق جنرل ضیاالحق کے دور میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کا منصب سنبھالنے والے جسٹس محمد حلیم سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔جسٹس حلیم اس وقت اندرون سندھ سفر کررہے تھے ،کراچی میں چنداہلکاروں کا ٹاسک دیا گیا کہ انہیں ڈھونڈ کر رابطہ کروائیں ۔اس دوران آخری کوشش کے طورپر دوبارہ معین قریشی سے رابطہ کیا گیا تو وہ کچھ حیل و حجت کے بعد مان گئے اور یوں جسٹس محمد حلیم تک پیغام پہنچنے سے پہلے ہی نگران وزیراعظم کی پیشکش واپس لے لی گئی۔ معین قریشی پاکستان پہنچے تو نہ صرف ان کا قومی شناختی کارڈ تیار ہو چکا تھا بلکہ ان کے بھائی بلال قریشی کی معاونت سے شیروانی بھی سلوائی جا چکی تھی تاکہ وہ پاکستان کے قومی لباس میں نگران وزیراعظم کا حلف اُٹھا سکیں ۔شناختی کارڈ پر موجودہ پتہ وزیراعظم ہائوس لکھا گیا۔

نگران حکومت کا مینڈیٹ تو یہ تھا کہ وہ آزادانہ انتخابات کروائے اور رخصت ہو جائے مگر اسے معیشت کی بحالی اور سیاستدانوں کے احتساب کا ٹاسک بھی سونپ دیا گیا۔نگران وزیراعظم معین الدین قریشی جوورلڈ بینک کے نائب صدر رہے ،ان سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کرلی گئیںاور قوم کو بتایا گیا کہ معیشت بحال کرنے کیلئےہمیں جادو کی جس چھڑی کی تلاش تھی ،وہ انکے پاس موجود ہے۔اس چھڑی کو گھماتے ہی ،خوشحالی کا سفر شروع ہو جائے گا اور ملک کے حالات بدل جائیں گے۔معین قریشی کی نگراںحکومت نے ان تمام سیاستدانوں کی فہرستیں شائع کردیں جنہوں نےبینکوں سے قرضے لیکر واپس نہیں کئے تھے یا معاف کروائےتھے ۔بعض سیاستدانوں کو الیکشن لڑنے سے بھی روک دیا گیا۔ان اقدامات سے سب سے زیادہ مسلم لیگ نواز کے امیدوار متاثر ہوئے اس لئے نوازشریف نے یہ موقف اختیار کیا کہ معین قریشی کی اس مہم کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے اور اس کا مقصد انہیں الیکشن جیتنے سے روکنا ہے۔یہ مقصد پورا ہوگیا۔پیپلز پارٹی انتخابات جیت گئی ،بینظیر بھٹو دوسری بار وزیراعظم بن گئیں۔معین قریشی کپڑے جھاڑ کر واپس بیرون ملک چلے گئے اور پھر کبھی پاکستان نہیں آئے۔

یہ تو نگراں وزیراعظم تھے مگر معیشت ٹھیک کرنےکیلئے امپورٹڈ وزرائے خزانہ لانے کی روایت بہت پرانی ہے ۔جنرل ایوب خان کے دور میں لگائے گئے وزیر خزانہ محمد شعیب ہوں یا پھر جنرل پرویز مشرف کے عہد میں بلوائے گئے وزیر خزانہ شوکت عزیز،کوئی تجربہ کامیاب نہیں ہوا۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب مطلوبہ نتائج موصول نہ ہوئے تو کسی نے یہ عذرپیش کیا کہ معاشی اصلاحات کے دوررس ثمرات سمیٹنے ہیں تو پھر فنانس منسٹر کو پرائم منسٹر بنادیں،چنانچہ میر ظفر اللہ جمالی کی چھٹی کروادی گئی ،چوہدری شجاعت حسین عارضی وزیراعظم بن گئے اور جناب شوکت عزیز کو اٹک سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑوا کر وزیراعظم بنا دیا گیا۔ان کا دورِ اقتدار ختم ہوا تو پہلی فلائٹ لیکر بیرون ملک چلے گئے اور آج تک لوٹ کر نہیں آئے۔اگر ان کی معاشی پالیسیوں سے کسی قسم کی کوئی بہتری آئی ہوتی تو ہم ایک بار پھر کسی مسیحا کی راہ نہ تک رہے ہوتے۔

اب ایک اور نیا تجربہ کیا جارہا ہے۔اس بار نیدرلینڈ سے کامیاب بینکر اورنگ زیب وزیر خزانہ بنائے گئے ہیں۔جناب اورنگ زیب اس شان سے تشریف لائے کہ پاکستان آکر بطور وفاقی وزیر حلف لینے کے بعد انہوں نے پاکستانی شہریت کے حصول کی درخواست دی جو قبول کرلی گئی۔بتایا جارہا ہے کہ وہ ماہانہ تین کروڑ روپے تنخواہ وصول کررہے تھے ،بہت قابل اور تجربہ کار شخص ہیں،معیشت کی کایا پلٹ کر رکھ دیں گے۔میں وزیر خزانہ کی صلاحیتوں یا ان کی قابلیت پر شک کرنے کی جسارت نہیں کررہا۔یقیناً ان میں بہت خصوصیات ہوں گی۔مجھے تو آتش گل سے خوف ہے کیونکہ یہاں باغباں برق و شررسے ملے ہوئے ہیں۔محمد اورنگ زیب جیسے ماہرین کو اسلئے نہیں لایا جاتا کہ وہ آئیں اور معیشت ٹھیک کرکے دیں ،انہیں تو دراصل یہ تاثر دینے کیلئے بلایا جاتا ہے کہ اب ہم سُدھر گئے ہیں اور معاشی اصلاحات سے متعلق سنجیدہ ہیں۔یقین نہیں آتا تو سابق چیئرمین ایف بی آرشبر زیدی سے پوچھ لیںکہ انہوں نے جب ٹیکس کے نظام میں کچھ بہتری لانے کی کوشش کی تو کہاں کہاں سے دبائو آیا ۔مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاںبیشتر اسٹیک ہولڈرز یہ چاہتے ہی نہیں کہ ملکی معیشت ٹھیک ہو۔کبھی کوئی سنجیدہ نوعیت کی کوشش ہو تو تاجر سڑکوں پر نکل آتے ہیں ،اپوزیشن سیاست چمکانے کیلئےان کے ساتھ دھرنا دیکر بیٹھ جاتی ہے ،جس سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کریں ،وہ کارٹل بنا کر بلیک میلنگ پر اُتر آتا ہے اور مصنوعی بحران کی سی صورتحال پیدا کر دیتا ہے۔ جب تک ہمارے ہاں سیاسی و غیر سیاسی حلقے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر معیشت کی بحالی کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق نہیں ہوجاتے ،محمد اورنگ زیب تو کیا دنیا بھر کے ماہرین معیشت اور بینکار مل کر بھی پاکستانی معیشت کو ٹھیک نہیں کرسکتے۔

تازہ ترین