• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں تو نئے وزیر خزانہ کا یہ بیان سن کر بہت خوش ہوا کہ’’ ہمیں پہلے اپنے سرکاری اخراجات کم کرکے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہوگا۔‘‘

لیکن فیس بک پر میرے احباب نے اکثر حلف اٹھانے کے بعد غیر منتخب وزرائے خزانہ کے ایسے بیانات بھیج دیے۔اور کہا کہ یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے۔پھر جب آٹھ سیاسی پارٹیوں کے اشتراک اور مقتدرہ کے انہماک سے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے والے وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے سرکاری اخرابات محدود کرنے کیلئے ایک باقاعدہ کمیٹی کی تشکیل کا حکم سامنے آیا۔ میری مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔

مگر میری سرخوشی اور ساری امیدوں پر انصار عباسی صاحب کی ایک مفصل رپورٹ نے پانی پھیر دیا۔اعداد و شُمار کے ساتھ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی اپنی گزشتہ حکومت کے دوران تشکیل دی گئی اعلیٰ سطحی کمیٹی نے سالانہ ایک ہزار ارب روپے کی بچت کیلئے جامع اقدامات تجویز کیے تھے۔ لیکن اس کمیٹی کی بیشتر تجاویز کو نظر انداز کردیا گیا تھا۔ غالب یاد آتے ہیں:

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوںدامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر نہیں افطار کے وقت بیٹھنے پکوڑوں سموسوں، چاٹوں کی معیت میں حالات حاضرہ پر تبادلۂ خیال کا دن۔ رمضان کے مقدس دنوں میں دل کی گہرائیوں سے فلسطین کے مظلوموں کیلئے دعائیں مانگنے اور اللہ تعالیٰ سے امت مسلمہ کے حکمرانوں کے ضمیر جگانے کی التجائوں کا دن۔ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا کہ برکتوں رحمتوں مغفرتوں کے دنوں میں غزہ، رفح اور دوسری فلسطینی بستیوں پر کیا گزر رہی ہے۔ پہلے ایک مسلمان بیٹی کی فریاد پر محمد بن قاسم اپنا لشکر لے کر نکل پڑتے تھے۔ اب ہزاروں مسلمان بیٹیاں شہید کی جارہی ہیں۔ خون ناحق بہہ رہا ہے۔ تیس ہزار سے کہیں زیادہ فلسطینی مائیں، بہنیں،بیٹیاں، موت کی نیند سلادی گئی ہیں۔ باپ گود میں بچے نہیں لاشیں اٹھائے آنسو بہارہے ہیں۔ 50 سے زیادہ اسلامی ممالک میں بڑے سکون سے ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان سحر و افطار میں مصروف ہیں اور اس زعم میں ہیں کہ رحمتیں بھی ان کی ہیں، برکتیں بھی اور مغفرتیں بھی۔ دنیا بھر سے جمہوریت کیلئے فکر مند امریکی سامراج امیر مسلمان ملکوں میں شخصی حکومتوں کو مضبوط کرتا ہے۔ اکثریت کی رائے کو دبانے میں مدد کرتا ہے۔

1985 میں مسندوں پر لائے گئے غیر جماعتی غیر سیاسی انتخابیے اب ملک کو 1954میں لے گئے ہیں۔ جب اس وقت کے کمانڈر انچیف کو کابینہ میں شامل کرلیا گیا تھا۔ وزارتِ دفاع ان کے حوالے کی گئی پھر 1958 میں انہوں نے سارا ملک اپنی تحویل میں لے لیا۔ 18ویں، 19ویں، اور 20ویں صدیاں ہم نے اپنی حویلیوں، ڈیروں، مدرسوں، خانقاہوں، قلعوں، مربعوں میں سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں۔ جہاں چاہے انہیں اکیسویں صدی کے سامنے کھڑی کر دیتے ہیں۔ بے چاری نازک نئی نویلی صدی اپنی ایجادوں، آلات اور وائی فائی سمیت بے بس ہو جاتی ہے۔

یہ تو صرف معیشت کے اعداد و شُمار ہیں۔ جو کسی وڈیرے کا حکم مانتے ہیں نہ کسی سردار کا،کسی منتخب کا نہ جنرل کا کہ وہاں مارکیٹ راج کرتی ہے۔ افراطِ زر ایک بے لگام گھوڑا ہے۔ روپیہ بہت حساس ہے۔ ذرا سی توجہ کم ہو تو مرجھا جاتا ہے۔اپنے پہاڑوں کی نہ سننے والوں، اپنے کھیتوں کے زخم نہ دیکھنے والوں، اپنے دریائوں کی روانی سے پیار نہ کرنے والوں ،اپنے سمندروں کی تہوں میں نہ جھانکنے والوں، اپنے ریکوڈکوں کی سنہری چمک سے غفلت برتنے والوں کو قدرت معاف کرتی ہے نہ فطرت۔ معیشت ایک ایسی طاقت ہے جو تاریخ کے ہر دَور میں جغرافیے کے ہر علاقے میں صرف اور صرف دیانت، صداقت اور حقیقت پسندی پر اعتبار کرتی ہے۔ غریب عوام لاٹھی چارج، آنسو گیس، پکڑ دھکڑ، بے لباسی،حوالات میں تشدد سے قابو میں آجاتے ہیں۔ معیشت پر جبر و استبداد کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام بھی ناگزیر ہے۔ سیاسی مخالفین کو رہا کریں۔

وزیر خزانہ کا مشورہ بجا، وزیر اعظم کی طرف سے کفایت شعاری کمیٹی کا قیام وقت کی آواز، کفایت شعاری پر قوم کی اکثریت تو ویسے ہی عمل پیرا ہے کیونکہ اسکے پاس کوئی اور چارہ ہی نہیں ہے۔ بچے اسکولوں سے اٹھالیے ہیں، کسی نے ناشتہ چھوڑ دیا ہے، کسی نے دوپہر کا کھانا،گوشت کبھی کبھار،ایک یا دو جوڑے لباس میں سال گزر جاتا ہے۔ اب کفایت شعاری پر عمل صرف حکمران طبقوں کو کرنا ہے۔

پاکستان میں سرکاری اخراجات میں بہت زیادہ کمی کی ضرورت ہے۔ 1971 میں ملک چھوٹا ہوگیا لیکن سرکار بڑی ہوگئی۔ کابینہ وفاقی ہو یا صوبائی اس میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔انگریز دَور کی ایک ایک وزارت کے کئی ڈویژن بنادیے گئے ہیں۔ انتخابیوں کو جھنڈا دینا ہوتا ہے، اس لیے وزارتوں میں سے وزارتیں نکالی جاتی ہیں،پرائمری تعلیم کا الگ وزیر، کالجوں کا الگ یونیورسٹیوں کا کوئی اور۔

بین الاقوامی اقتصادی ماہرین 2024اور 2025 کو بھی مشکل سال قرار دے رہے ہیں۔ یہ اندازہ ان ملکوں کیلئے ہے جہاں اقتصادی حالات ہم سے کہیں بہتر ہیں۔ اس سے اندازہ کرلیں کہ ہم پر کیا گزرے گی۔ اس حکومت کی اخلاقی اور سیاسی بنیادیں بہت کمزور ہیں۔ اگر یہ خلوص نیت سے کفایت شعاری پر عملدرآمد کرتی ہے تو لوگوں کی قبولیت حاصل کرسکتی ہے۔ چالیس سال سے ملکی معیشت خراب کرنے کے داغ دھوسکتی ہے۔ قرضوں تلے دبا ہوا ملک فریاد کررہا ہے کہ حکمرانی کو اپنا پیدائشی حق سمجھنے والو اب بس کردو۔ ان مشکل دو سالوں کو ہم مثالی اقتصادی سال بنائیں۔ غیر ضروری محکمے کم کریں، نچلے درجے کے ملازمین کو فارغ کرنے سے نہیں بلکہ بھاری تنخواہیں اور مراعات حاصل کرنے والوں کا بوجھ کم کرنے سے فرق پڑے گا۔ دو سال کیلئے صدر، وزیر اعظم ، وفاقی وزراء کے غیر ملکی دوروں، خاص طور پر عمروں پر پابندی لگائی جائے۔ ہمارے سفیر بہت قابل اور با اختیار ہیں، معاملات کو صدر وزیر اعظم بہتر سمجھتے ہیں، ساری میٹنگوں ،کانفرنسوں میں وہ شرکت کرلیں۔ اسی طرح ملک میں بھی ہمارے کمشنر،ڈپٹی کمشنر سمجھدار ہیں۔ ان کے اختیارات انہیں دے دیں۔ یہاں بھی وزیر اعظم وزراء کو دوروں کی ضرورت نہیں ۔ جمہوریت کی علامتیں ایم این اے، ایم پی اے، سینیٹر بھی بہت خرچے کرواتے ہیں۔ ان کو معاوضہ، سفر خرچہ صرف اجلاس کے دوران ملے۔

بہتر تو یہ ہے کہ حکمران خود یہ اقدامات کریں۔ معیشت کے دبائو میں آکر جبراََ کچھ کرنا پڑا تو وہ ان کیلئے بہت خطرناک ہوگا۔

وزیرا عظم کہہ چکے ہیں۔ ’’اب یا کبھی نہیں‘‘

ناصر کاظمی کہہ گئے ہیں۔

کچھ ہوتا ہے جب خلق خدا کچھ کہتی ہے

تازہ ترین