• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی سیاست میں آصف علی زرداری کی مسلسل ’’سیاسی فتوحات ‘‘ پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے ’’اک زرداری سب پہ بھاری‘‘ کا نعرہ لگایا۔ اس نعرے کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے کارکن اپنے سیاسی مخالفین کو چڑانے کیلئےبھی اس نعرہ کا ورد کرتے ہیں۔ہاں پیپلز پارٹی کے اجتماعات میں اب بھی ’’جئے بھٹو‘‘ کا نعرہ لگا کر کارکنوں کا خون گرم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حال ہی میں بلاول بھٹو زرداری کیلئےنعرہ متعارف کرایاگیا ’’بلاول زرداری شیروں کا شکاری‘‘۔آصف زرداری پاکستانی سیاست میں انتہائی متنازع حیثیت رکھتے ہیں بے نظیر بھٹو زندہ تھیں تو اس وقت بھی آصف علی زرداری کو انکے سیاسی مخالفین مختلف ناموں سے پکارا کرتے لیکن شدید ترین مخالفت کے باوجود آصف علی زرداری نے ’’پولیٹکل سروائیو‘‘ کیا۔ 27دسمبر2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں شہادت کے بعد انہوں نے اپنے صاحبزادے بلاول زرداری کوجہاں پارٹی کا چیئرمین بنا دیا وہاں خود شریک چیئرمین بن بیٹھے اگرچہ آصف علی زرداری پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے لیکن بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہی انہیں براہ راست پارٹی کی کمان سنبھالنے کا موقع ملا۔ انہوں نے بلاول زرداری کے نام میں اسکے نانا ذوالفقار علی بھٹو سے نسبت کے حوالے سےبھٹو کا اضافہ کر دیا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کر لی پارٹی میں مخالفین کو نکال باہر کیا یا انہیں اپنی تابعداری پر مجبور کر دیا آصف علی زرداری کی شخصیت کی کردار کشی کی جاتی رہی لیکن وہ اپنے راستے کے کانٹے چنتے ہوئے صدر مملکت کے منصب تک پہنچ گئے کسی کے وہم و گماں میں بھی نہ تھاکہ آصف علی زردار ی 2008ء میں پاکستان کے ایک طاقت ور صدر بن جائیں گے۔ آصف علی زرداری کو سیاسی جوڑ توڑ اور مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا ہے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے جلاوطنی کے دوران مئی 2006کو لندن میں ’’میثاق جمہوریت‘‘ پر دستخط کئے، بے نظیر بھٹو کی شہادت کے آصف علی زرداری نے اس معاہدے کے تحت مفاہمت کی سیاست کو آگے بڑھایا 9مارچ 2008کو نواز شریف اور آصف علی زرداری نے شراکت اقتدار کے معاہدے ’’اعلان مری‘‘ پر دستخط کئے 24رکنی وفاقی کابینہ میں مسلم لیگ (ن) کے 9وزراء نے پرویز مشرف سے سیاہ پٹیاں باندھ کر حلف اٹھایا، جاوید ہاشمی نے حلف لینے سے نکار کر دیا۔ وفاقی کابینہ میں چوہدری نثار علی خان کو سینئر وزیر کا درجہ دیا گیا اعلان مری کے تحت 29اپریل 2008تک ججوں کو ایگزیکٹو آرڈر کے تحت بحال کیا جانا تھا لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت نے ججوں کو بحال کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا تو ڈیڑھ ماہ بعد مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کی حکومت سے الگ ہو گئی لیکن اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کی بجائے حکومت کی حمایت جاری رکھی۔ آصف زرداری نے وعدے پورے نہ کرنے کے باوجود نواز شریف سے مراسم ختم نہ کئے ان کی نظریں ایوان صدر پر لگی تھیں 7اگست 2008ء کو اسلام آباد میں زرداری ہائوس میں مسلم لیگ (ق) کے سوا ملک کی کم وبیش تمام سیاسی جماعتوں نے پرویز مشرف کو صدر مملکت کے منصب سے مستعفی ہونے کا الٹی میٹم دے دیا بصورت دیگر ان کے خلاف تحریک مواخذہ پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ 18اگست 2008ء کو پرویز مشرف نے دبائو میں آ کر استعفیٰ دے دیا۔ وکلاء تحریک نے ججوں کی بحالی کیلئے 9مارچ 2009کو لانگ مارچ کا اعلان کیا تو مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی اس تحریک کا حصہ بن گئیں پیپلز پارٹی کی حکومت نے پنجاب میں گورنر راج نافذ کر کے شہباز شریف کی حکومت ختم کر دی لیکن تحریک کے نتیجے میں 16مارچ2009 ء کو اسے ججوں کو بحال کرنا پڑا پھر اسی چیف جسٹس افتخار چوہدری نے پیپلز پارٹی کو تگنی کا وہ ناچ نچایا کہ اسے دن میں تارے نظر ا گئے۔ یوسف رضا گیلانی خط نہ لکھنے کے جرم میں اسی چیف جسٹس کے ہاتھوں نا اہل قرار دئیے گئے بہر حال 2013ء میں اپنی آئینی مدت مکمل ہونے پرآصف علی زرداری کو باوقار طریقے سے ایوان صدر سے رخصت کیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دو متحارب سیاسی قوتیں ہونے کے باوجود متحد ہونے پر مجبور ہوتی رہیں 2014کے عمران خان کے 126روزہ دھرنے میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کی پشت پر کھڑی ہو گئی اور نواز شریف کی حکومت گرنے نہ دی، عمران خان کی حکومت نے ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونے پر مجبور کر دیا 2019میں قائم ہونے والا یہ اتحاد 10اپریل 2022کو عمران خان کی حکومت کو نہ صرف گرانے میں کا میاب ہوا بلکہ انہیں اڈیالہ جیل تک پہنچا کر دم لیا۔ 16ماہ تک بلاول بھٹو زرداری شہباز شریف کی حکومت میں وزیر خارجہ کا منصب انجوائے کرتے رہے لیکن 8فروری 2024ء کے انتخابات میں بلاول بھٹو زرداری کی وزیر اعظم بننے کی خواہش نے ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان فاصلے پیدا کر دئیے۔آصف علی زرداری کی ’’خاموشی‘‘ اور نواز شریف کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کی ’’بے جا تنقید‘‘ کو نظر انداز کرنے کی پالیسی اور انتخابی نتائج نے ایک بار پھردونوں جماعتوں کو مل بیٹھنے کا موقع فراہم کر دیا ہے، نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم نہ بن سکے شہباز شریف دوسری بار وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی طرح آصف علی زرداری کا دوسری بار سویلین صدر بننا غیر معمولی سیاسی واقعہ ہے، عمران کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے دونوں جماعتوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان کی ایک بڑی تعداد پارلیمنٹ میں داخل ہو گئی ہے جو شہباز شریف کو پارلیمنٹ میں کام کرنے دے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان پارٹنر شپ کتنے دن چلے گی پیپلز پارٹی زیادہ دن تک حکومت سے باہر نہیں رہ سکتی۔

تازہ ترین