• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بنی اسرائیل کی جہالت پر مبنی فرمائش: قوم ِفرعون تباہ ہوچکی تھی۔ اللہ نے بنی اسرائیل کو فتح و کام رانی نصیب فرمائی، لیکن اب اُن کی سرکشی، جہالت، کج روی اور منافقت کے واقعات کا سلسلہ شروع ہوا، جو قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کے باوجود اُن لوگوں سے سرزد ہوئے۔ بنی اسرائیل کو قومِ فرعون کے مقابلے میں جو معجزانہ کام یابی حاصل ہوئی اور اطمینان ملا، تو اس کا وہی اثر ہوا، جو عام طور پر قوموں کو عیش و عشرت اور عزّت و دولت ملنے کے بعد ہوتا ہے۔ بنی اسرائیل نے دریا پار کیا، فرعون اور اُس کی پوری قوم کے دریا میں غرق ہونے کا عبرت ناک واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آگے بڑھے تو ایک قبیلے سے گزر ہوا، جو مختلف بتوں کی پرستش میں مبتلا تھا۔ 

بنی اسرائیل کو اُن کا طریقہ ایسا پسند آیا کہ جھٹ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمائش کردی کہ ہمارے لیے بھی ایسا ہی معبود بنادو، جسے سامنے رکھ کر ہم اس کی عبادت کیا کریں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اُن کی بات سُن کر حیرت ہوئی، غصّہ بھی آیا اور دُکھ بھی ہوا، فرمایا کہ ’’تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے۔ یہ لوگ جن کے طریقے تم پسند کررہے ہو، یہ سب باطل کے پیروکار ہیں، تمہیں ان کی حرص نہیں کرنی چاہیے۔ کیا تم مجھ سے یہ توقع کرتے ہو کہ میں تمہارے لیے اللہ کے سوا کسی اور کو معبود بنادوں؟ 

حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے ہی تمہیں تمام جہان والوں پر فضیلت بخشی ہے۔‘‘ اس لیے کہ اُس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے ہی دوسرے سب لوگوں سے افضل و اعلیٰ تھے۔ فرمایا کہ ’’جس رب العالمین نے تمہیں فرعونی عذاب سے نجات دی، آج تم اس کے ساتھ دنیا کے ذلیل ترین پتھروں کو شریک ٹھہراتے ہو۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے، اس سے توبہ کرو۔‘‘ (تفسیر، سورۃ الاعراف، آیت 139,138)۔

بچھڑے کی پرستش کی سزا: فرعون اور اُس کے لشکر کے غرق ہونے کے بعد ضرورت لاحق ہوئی کہ بنی اسرائیل کی ہدایت و رہنمائی کے لیے کوئی کتاب انہیں دی جائے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تیس راتوں کے لیے ’’کوہِ طور‘‘ پر بلایا، جس میں دس راتوں کا اضافہ کرکے اُسے چالیس کردیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ طور پر جانے سے پہلے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر کردیا تھا۔ وہ نبی بھی تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم سے تیس دن کا کہہ کر گئے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے دس روز کی میعاد اور بڑھا دی۔ 

اسرائیلی قوم کی جلد بازی اور کج روی پہلے سے معروف تھی، چناں چہ اُن میں بے چینی بڑھنے لگی، جس سے فائدہ اٹھاکر لشکر میں موجود ایک شخص، سامری نے گائے کے بچھڑے کا ایک مجسّمہ بنا ڈالا۔ یہ شخص بڑا زبردست شعبدے باز تھا اور ’’سامری جادوگر‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ اُس نے قومِ بنی اسرائیل سے کہا کہ یہی تمہارا خدا ہے۔ قوم نے خدا سمجھ کر اس بچھڑے کی پرستش شروع کردی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہِ طور سے واپس آئے، تو غصّے اور رنج سے بَھرے ہوئے تھے، کیوں کہ انھیں وحی کے ذریعے اس واقعے کی اطلاع ہوچکی تھی۔ 

جیسا کہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ’’(اے موسیٰ ؑ!) ہم نے تیری قوم کو تیرے پیچھے آزمائش میں ڈال دیا اور انہیں سامری نے بہکا دیا ہے۔ پس، موسیٰؑ سخت غضب ناک ہوکر رنج کے ساتھ واپس لوٹے اور کہنے لگے۔ ’’اے میری قوم! تمہارا ارادہ ہی یہ ہے کہ تم پر اللہ کا غضب نازل ہوکہ تم نے میرے وعدے کے خلاف کیا۔‘‘ (سورئہ طہٰ،آیات85-86) ’’اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو اور خود کو آپس میں قتل کرو، تمہاری بہتری اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی میں ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت54)۔ ان میں سے بعض لوگوں نے بچھڑے کی پُوجا کی تھی اور بعض نے نہیں، چناں چہ جو شِرک کے مرتکب ہوئے تھے، انہیں قتل کردیا گیا اور بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی۔

زلزلے اور کڑکتی بجلی کی سزا: بچھڑے کا قصّہ ختم ہوااور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھ کوہِ طور سے لائی ہوئی توریت کی تختیاں پڑھ کر سُنائیں، تو قوم نے ایک نیا سوال اٹھا دیا۔ بولے ’’اے موسیٰ ؑ! ہمیں یہ کیسے معلوم ہو کہ یہ اللہ تعالیٰ کے احکام ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ہم سے خود کہہ دے، تو ہم یقین کرلیں۔‘‘ چناں چہ ربّ ذوالجلال کے حکم پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوم میں سے70 افراد چُنے اور وقتِ مقررہ پر انہیں کوہِ طور لے گئے۔

انہوں نے اللہ تعالیٰ کا کلام سُنا، تو کہنے لگے کہ ’’خدا جانے کون بول رہا ہوگا، ہم تو اس وقت یقین کریں گے، جب اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھ سے دیکھ لیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی کی سزا اس طرح دی کہ زمین میں شدید زلزلے کے ساتھ آسمان سے سے ایسی بجلی کڑکی کہ سب ہلاک ہوگئے، یہ صورتِ حال دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نہایت گِڑگڑاکر اپنے ربّ سے اُن کی خطائوں کو معاف کردینے کی التجا کی۔ چناں چہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دُعا کی بدولت وہ لوگ زندہ ہوکر کھڑے ہوگئے۔ (تفسیر، سورۃ الاعراف، آیت 155)۔

کوہِ طور کا معلّق ہونا: یہ 70افراد اپنی قوم میں واپس آگئے اور انہوں نے گواہی دی، لیکن اتنی آمیزش کردی کہ اللہ تعالیٰ نے آخر میں یہ فرمایا کہ تم سے جس قدر ہوسکے کرنا، جو نہ ہوسکے، معاف ہے، تو کچھ تو جبلّی شرارت، کچھ احکام کی مشقّت۔ دراصل چار سو سال تک قومِ فرعون کے ساتھ رہنے سے اُن کی بہت سی برائیاں اِن کے مزاجوں کا حصّہ بن کر ان کی جبلّت میں شامل ہوچکی تھیں۔ 

چناں چہ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہم اس کتاب پر عمل نہیں کرسکتے، یہ ہمارے بس کی بات نہیں۔ ان کے انکار پر حضرت جبریل علیہ السَّلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کوہِ طور کو اٹھا کر ان کے سروں کے اوپر ہوا میں معلّق کردیا اور حضرت موسیٰ عَلیہ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُن سے فرمایا ’’تم یا تو عہد قبول کرلو، ورنہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا اور تم کچل ڈالے جاؤ گے۔‘‘ لہٰذا چارو ناچار انہیں ماننا پڑا۔ (تفسیر،البقرہ، آیت 63)۔

قومِ یہود کا جہاد سے انکار: ’’موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، ’’اے میری قوم! اس مقدّس زمین میں داخل ہوجائو، جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نام لکھ دی ہے اور (دیکھنا مقابلے کے وقت) پیٹھ نہ پھیرلینا، ورنہ پھر نقصان میں پڑجائو گے۔‘‘ وہ کہنے لگے، ’’موسیٰؑ! وہاں تو بڑے زور آور اور سرکش لوگ (رہتے) ہیں۔ جب تک وہ اس سرزمین سے نہ نکل جائیں، ہم وہاں ہرگز نہیں جائیں گے، ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں، تو ہم بخوشی چلے جائیں گے۔‘‘ ان میں سے دو خداترس لوگوں نے کہا کہ ’’تم ان کے پاس دروازے تک تو پہنچ جائو۔ دروازے میں قدم رکھتے ہی یقیناً تم غالب آجائوگے اور تم اگر مومن ہو، تو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے۔‘‘ (المائدہ، آیات 23-21)۔ 

بنی اسرائیل کے مورثِ اعلیٰ، حضرت یعقوب علیہ السلام کا مسکن بیت المقدس تھا، لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کے امارتِ مصر کے زمانے میں یہ لوگ مصر میں جاکر آباد ہوگئے تھے اور پھر چار سو سال تک وہ لوگ مصر ہی میں رہے۔ جہاں فرعون اور اس کی قوم انھیں غلام بنا کر، ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھایا کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اُن کی جانب بھیجا، جو انہیں مصر سے نکال کرلے گئے۔ کوہِ طور پر تورات کے نزول کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے بیت المقدس میں آباد ہونے کا عزم کیا۔ 

بیت المقدس پر عمالقہ کی حکومت تھی، جو ایک جری، بہادر اور جنگجو قوم تھی۔ چناں چہ ارضِ مقدس پر قبضے کے لیے عمالقہ سے جہاد ضروری تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں نصرتِ الٰہی کی بشارت سناتے ہوئے یقین دلایا کہ وہ جیسے ہی بیت المقدس میں داخل ہوں گے، اللہ تعالیٰ انہیں فتح و نصرت سے سرفراز فرمائے گا۔ لیکن یہ نافرمان، منافق، سرکش، بدعہد اور ڈرپوک قوم بیت المقدس پر قابض قومِ عمالقہ کی بہادری کی شہرت سے اس قدر مرعوب تھی کہ پہلے ہی مرحلے میں ہمّت ہار بیٹھی اور اللہ کی جانب سے فتح کے وعدے کے باوجود اپنے نبی کے احسانات فراموش کرکے عمالقہ سے لڑنے سے صاف انکار کردیا۔ (تفسیر، مولانا یوسف، صفحہ 294)۔

تم اور تمہارا رب جاکر لڑو: اور جب انہیں مزید قائل کرنے کی کوشش کی گئی، تو بولے۔ ’’اے موسیٰؑ! جب تک وہ وہاں ہیں، تب تک ہم ہرگز وہاں نہیں جائیں گے۔ اس لیے تم اور تمہارا پروردگار ہی لڑبھڑلو، ہم تو یہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘ (سورۃ المائدہ، آیت 24)۔ بنی اسرائیل کی اس سخت ترین سرکشی، حکم عدولی اور گستاخی پر مبنی جواب سے حضرت موسیٰ علیہ السلام رنجیدہ ہوئے اور بارگاہِ الٰہی میں التجا کی۔ ’’یاالٰہی! مجھے تو بجزاپنے اور اپنے بھائی (حضرت ہارون علیہ السلام) کے کسی اور پر کوئی اختیار نہیں۔ پس، تُو ہم میں اور ان نافرمانوں میں جدائی کردے۔‘‘ (سورۃ المائدہ،آیت 25)۔

وادئ تیہ میں قید کی سزا: اللہ تعالیٰ نے جب اپنے محبوب نبی کی فریاد سُنی، تو فرمایا۔ ’’(اے موسیٰؑ) اب وہ ملک ان پر چالیس سال تک کے لیے حرام کردیا گیا ہے۔ یہ خانہ بدوش اِدھر اُدھر سرگرداں پھرتے رہیں گے۔ اس لیے تم ان فاسقوں کے لیے غم گین نہ ہونا۔‘‘ (سورۃ المائدہ،آیت26)۔ وادئ تیہ، مصراور شام کے درمیان دس میل کے رقبے پر مشتمل ایک میدان ہے۔ روایت ہے کہ یہ لوگ اپنے وطن، مصر جانے کے لیے دن بھر سفر کرتے، لیکن جب صبح ہوتی تو یہ دیکھ کر پریشان ہوجاتے کہ جہاں سے چلے تھے، واپس اُسی جگہ پر کھڑے ہیں۔ اسی طرح چالیس سال تک یہ لوگ اس میدان میں بھٹکتے رہے۔ 

وادی تیہ ایک کھلا میدان تھا، جہاں دھوپ کی تپش سمیت سردی و گرمی سے بچنے کی کوئی چیز بھی میسّر نہ تھی۔ کھانے پینے کے لیے کچھ تھا، نہ ہی پہننے کے لیے لباس، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اُن کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام بھی اپنی قوم کے ساتھ تھے۔ جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے دُعائیں کیں، چناں چہ اُن کی دعائوں کی بدولت اللہ تعالیٰ نے اس بیاباں میں بھی اس نافرمان قوم کے لیے ضرورت کی ہر چیز مہیّا کردی۔ بنی اسرائیل نے دھوپ کی شکایت کی، اللہ تعالیٰ نے اُن پر ابَر کا سایہ کردیا۔ 

وہ جہاں جاتے، سایہ ساتھ ہوتا۔ بھوک کا تقاضا ہوا، تو من و سلویٰ نازل فرما دیا۔ پانی کی حاجت ہوئی، تو ربّ العالمین نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ پتھر پر لاٹھی مارو، چناں چہ بارہ قبیلوں کے لیے بارہ چشمے پُھوٹ پڑے، رات کے اندھیرے کی شکایت کی، تو ربّ العزت نے ان ناشُکروں پرغیب سے روشنی کا بندوبست بھی فرما دیا۔ لباس کی ضرورت ہوئی، تو یہ صورت کردی کہ کپڑے نہ میلے ہوں اور نہ پھٹیں، اور بچّوں کے بدن کے کپڑے ان کا قد بڑھنے کے سات ساتھ بڑھتے رہیں۔ (قصص، صفحہ 414)۔

بنی اسرائیل کی ناشُکری: نافرمان، ناشُکراورعہد شکن بنی اسرائیل کو وادئ تیہ میں بھٹکتے ہوئے چالیس سال گزر چکے تھے، اس عرصے میں بہت سے لوگ مرکھپ گئے تھے۔ اب ان کی طرف سے ایک نیا مطالبہ آیا۔ ارشادِ باری ہے۔ ترجمہ، ’’اور جب تم نے کہا کہ موسیٰؑ ہم سے ایک کھانے پر صبر نہیں ہوسکتا، اپنے پروردگار سے دعا کیجیے کہ ترکاری اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز وغیرہ، جو نباتات زمین سے اُگتی ہیں، ہمارے لیے پیدا کردے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’بھلا، عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے بدلے ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو؟ اب تم کسی شہر میں جا اُترو، وہاں جو مانگتے ہو، وہ مل جائے گا اور ان پر ذلت و محتاجی ڈال دی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہوگئے۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت 61)۔

حضرت یوشع کی قیادت میں فتح: ابھی وادئ تیہ کی سزا کی مدّت پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ پہلے حضرت ہارون علیہ السلام اور پھر ان کے دو سال بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام انتقال فرماگئے۔ تاہم، حضرت موسیٰ علیہ السلام انتقال سے قبل اپنے خادمِ خاص، حضرت یوشع علیہ السلام کواپنا جانشین اور خلیفہ مقرر فرماگئے۔ اکثر مفسّرین نے لکھا ہے کہ انھیں نبوت بھی عطا کی گئی تھی۔ حضرت یوشع علیہ السلام کو اس بات کا احساس تھا کہ اللہ کے حکم کے مطابق ارضِ مقدس کو کفّار سے آزاد کروانا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سب سے بڑی خواہش تھی، چناں چہ انہوں نے بنی اسرائیل کی نوجوان نسل کو فنونِ حرب کی ٹریننگ دینی شروع کردی اور پھر جلد ہی وہ دن بھی آگیا کہ جب انھیں جہاد کا حکم دیا گیا۔

بنی اسرائیل کی نوجوان نسل جذبۂ جہاد سے سرشار، اپنے آبائو اجداد کی سرزمین، مشرک قوم سے آزاد کروانے کے لیے نکلی، تو اللہ نے کام یابی عطا فرمائی اور اللہ ذوالجلال نے کنعان، فلسطین اور شام تک کا پورا علاقہ اپنے وعدے کے مطابق بنی اسرائیل کے حوالے کردیا۔ علامہ ابنِ کثیرؒ تحریر کرتے ہیں کہ اس جنگ میں بے شمار مال و دولت بنی اسرائیل کے ہاتھ آیا۔ قومِ عمالقہ کے بارہ ہزار مردوں اور عورتوں کو تہ تیغ کیا گیا اور حضرت یوشع بن نون علیہ السلام نے شام کے اکتیس بادشاہوں پر غلبہ پایا (قصص، صفحہ 49)۔

حکم عدولی اپنی انتہا پر: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا تھا کہ شہر میں نہایت عاجزی کے ساتھ، توبہ استغفار کرتے ہوئے داخل ہونا، لیکن اپنے آبائو اجداد کی طرح اس نئی پود نے بھی توبہ اور معافی کے بجائے گندم اور جَو کی فرمائش کردی۔ اس بات سے ان کی سرتابی و سرکشی اور احکامِ الٰہی سے تمسخر و استہزا کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’بنی اسرائیل کو یہ حکم ہوا تھا کہ شہر کے دروازے میں جُھکتے ہوئے اور ’’حِطّۃ‘‘ کہتے ہوئے داخل ہوں۔ یعنی، ’’اے اللہ! میرے گناہ معاف کردے۔‘‘ لیکن وہ کولھوں کے بَل گِھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور کلمہ حِطّۃ کو بھی بدل دیا اور دل لگی کے طور پر کہنے لگے، ’’دانہ بالی کے اندر ہونا چاہیے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث، 4479)۔ (جاری ہے)