• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

’’ادھورا پاکستان‘‘ اچھا نہ لگا

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آس رکھتا ہوں کہ اہلِ بزم خوش و خرّم ہوں گے۔ ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ موصول ہوا، پڑھا، اچھا لگا۔ ’’حرفِ آغاز‘‘ کو پڑھتے ہی دل باغ باغ ہوگیا۔ یوں ہی آپ کی تعریف نہیں کی جاتی، واقعی نرجس ملک کو دل جیتنے کا ہُنر آتا ہے۔ اس دفعہ تو جی کررہا ہے کہ صرف اِسی ’’حرفِ آغاز‘‘ ہی پر تبصرہ کروں۔ 

خیر، ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ کا آغاز اُدھڑی چارپائیوں سے کیا گیا اورحقیقی سال شاعرانہ انداز میں مانگا گیا، بہت خُوب۔ ’’اُمتِ مسلمہ‘‘ کے حوالے سے نعیم کھوکھر نے اچھا مضمون لکھا، مگر اِس بار مسئلہ فلسطین سے متعلق، خصوصاً مسلمان حُکم رانوں کی بے حسی کی وجہ سے دل بہت مغموم تھا۔ ’’پاک افواج‘‘ کے جنرل ساحر نے اُردن سے ایوارڈ حاصل کیا، پڑھ کرخُوشی ہوئی۔ یہ اپنے محبوب حیدر سحاب توچُھپےرستم ہیں۔ ’’بساطِ عالم‘‘ میں جنوبی ایشیا کا جنوبی چاند پر براجمان ہونا اچھا لگا، منور مرزا نے بہترین مضمون قلم بند کیا۔ 

محمّد اویس یوسف زئی ’’عدالتِ عظمی‘‘ سے بھرپورانصاف کرتے نظرآئے۔ ’’خارزارِ سیاست‘‘ میں محمّد بلال غوری گویا ’’آ بیل مجھے مار‘‘ کی رُوداد سُنا رہے تھے۔ ارے یہ کیا؟ آگے تو ’’کلکس‘‘ آگئے اور منور راجپوت نے سال بھر کو دو صفحات میں بہت ہی عُمدگی سے سمیٹ دیا۔ اس دفعہ میگزین کی ترتیب بدلی ہوئی تھی۔ چھے مضامین’’کلکس‘‘ سے پہلے اور اُتنے ہی بعد میں تھے۔ ہاں البتہ ادھورا پاکستان اچھا نہ لگا کہ چاروں صوبے تو موجود تھے، مگر ’’کشمیر‘‘ غائب۔ اور لو بتائو، یہ فاروق اقدس کو ’’ہومیوپیتھک اپوزیشن‘‘ کی اصطلاح کیا سوجھی۔ بھئی، سچی بات ہے، مجھےتو’’ایوانِ نمائندگان‘‘ کا کچھ خاص لُطف نہیں آیا۔ ’’بلوچستان‘‘ کے سیاہ سمندر سے نُور نکلنے کا یقینِ واثق کوئی امین اللہ فطرت سے سیکھے۔ 

ارشد عزیز ملک نے ’’خیبرپختون خوا‘‘ پہ لکھا اور بہت خُوب لکھا۔ اور اب سب سے آخر میں سب کی بات۔ یعنی ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی بات، جس کو کبھی چُھٹی نہ ملی، آفرین ہے بھئی۔ میگزین کے تمام اسٹاف، لکھاریوں اور قارئین کو مبارک ہو کہ منزل ہمیشہ استقامت ہی سے ملتی ہے۔ ’’دسمبر 2023ء‘‘ میں ’’چچا چھکن‘‘ کا خط عرصۂ دراز بعد پڑھا، اچھا لگا۔ یقین کریں، سالِ گزشتہ بڑی کمی محسوس کی۔ بہرحال، بہت افسوس ہوا کہ موصوف کی فیملی میں تین اموات ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومین کو جوارِرحمت میں جگہ دے، لواحقین کوصبرِجمیل عطاکرے۔ آخر میں شکریہ ادا کروں گا کہ اس دفعہ ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ کے نامہ نگاروں میں میرا نام بھی شامل تھا۔ ہم نے ایک بار پھر ناز کیا، احسان مانا، باقی پھر سہی۔ (ڈاکٹر محمد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)

ج: ’’ادھورا پاکستان‘‘آپ کو اچھا نہ لگا، تو ذرا اندازہ لگائیں کہ خُود ہمیں کس قدر بُرا لگا ہوگا کہ محض صفحات کی کمی کے سبب ہماری تو ساری محنت ہی ٹھکانے لگ جاتی ہے۔ لیکن کیا کریں، اب تو بس مجبوری کا نام ’’شکریہ‘‘ ہے۔ بس اِسی لیے ایڈیشن کے ’’حصّہ دوم‘‘ میں ’’کشمیر‘‘ کو بالکل آغاز میں شیڈول کیا گیا۔

ایک زوردار چیخ …

تسلیمِ ممنونیت! نہ جانے کس نادانی و پشیمانی میں ماہ و سال لکھنے کی ہمّت ہی نہ ہوسکی اور یہ سب کچھ لکھنے کی جسارت بھی نہ ہوتی کہ بھلا ہو آپ کی نیکوکاری کا، جو دعوتِ عام دے کر کارِخیر کیا۔ سالِ نو ایڈیشن (حصّہ اوّل) کے ساتھ جنوری2024ء کے چاروں ہفتوں کے جنگ اخبار اور ’’سنڈے میگزین‘‘ سامنے موجود ہیں۔ ’’سال نامے‘‘ میں تو مُلکی و عالمی حالات و واقعات کے جوڑ توڑ کا کوئی گوشہ تشنہ نہیں رہنے دیا گیا۔ ’’حرفِ آغاز‘‘ کا آغاز رحمان فارس کے چیدہ چیدہ اشعار سے ہوا اور پھر اپنے تخیلاّت و تصوّرات، علمی و ادبی و افسانوی اندازِ تحریر کو جیسے خوشبوئوں سے معطّر الفاظ کے قالب میں ڈھالا گیا۔ گویا کوئی ماہر مچھیرا سمندر میں جال ڈالے اور کسی ایک مچھلی کابھی بچ نکلنا محال ہوجائے۔ 

یقین کریں، کچھ ایساہی مَیں نےاپنے ذہن و دل میں محسوس کیا۔ ’’مقتدرین‘‘ کی طرف سےتو کوئی پیش رفت نہ ہوئی کہ وہ تو ازل ہی سے خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ ہاں، آپ نے فلسطین کے حق میں ایک زوردار چیخ ضرور بلند کی۔ ’’کبھی جاپان جیسے ممالک کو ہم قرض دیا کرتے تھے‘‘ آپ نے تو واقعی ’’سال نامے‘‘ میں پورے سال کا کلیجہ نکال کے رکھ دیا۔ اور اب ہم اتنے بھی کج ادا نہیں کہ اِس آئی ایم ایف کی چھیدوں بَھری چھتری کے سائے تلے پنپتے ایک ناتواں، کم زور سے حجم کے حامل، مگر جہاد بالقلم کے رستے پرگام زن، مُلک کے سب سے بڑے ادارے کے بہادر، نڈر ساتھیوں کے لیے باری تعالیٰ کے دربارمیں دُعاگو بھی نہ ہوں۔ اللہ پاک سب ساتھیوں کو ہمّت، طاقت، استقامت عطا فرمائے۔ 

سب سے پہلے تو’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے صفحے پر میرے تحریر کردہ واقعے ’’ماں کی دُعا، متاعِ حیات، بیش بہا سرمایہ‘‘ کی مکمل نوک پلک سنوار کےدرستی کےساتھ اشاعت کا بےحد شکریہ۔ نعیم کھوکھرنے’’اُمتِ مسلمہ‘‘سے متعلق تجزیاتی رپورٹ تیارکی۔ اور کیا خُوب لکھا کہ ؎ سُنا ہے، ڈوب گئی بےحسی کے دریا میں…ونگ کمانڈر(ر)محبوب حیدر’’پاک افواج‘‘ کی وطن کے لیے لازوال قربانیوں، معاونت کے دفاعی منصوبوں اور مُلکی و غیر مُلکی مشقوں وغیرہ کا ذکرکررہے تھے۔ محمّد بلال غوری ’’خارزارِ سیاست‘‘میں اُترے دکھائی دیئے۔ واقعی ؎ ایک ہنگامےپہ موقوف ہے’’گھر‘‘کی رونق… فاروق اقدس نے ’’ایوانِ نمائندگان‘‘ کی بات کی کہ ؎ اقتدار میں سب کے طور ایک ہوتے ہیں۔ اور’’ہومیوپیتھک اپوزیشن‘‘ کی اصطلاح کیا خُوب استعمال کی، اِس سے قبل شاید ہی کبھی سُننےمیں آئی ہو۔ 

رؤف ظفر’’پنجاب‘‘ کے ضمن میں بتا رہے تھے کہ ؎ مِری تعمیر میں مضمر ہے، اِک صُورت خرابی کی… منور راجپوت نے کہا ؎ وہی مایوسی کا عالم، وہی نومیدی کا رنگ… مطلب جمود کی سی کیفیت طاری رہی، کراچی میں کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ مکمل نہ ہوسکا۔ امین اللہ فطرت ’’بلوچستان‘‘ کے لیے پُر اُمید نظرآئےکہ ؎ اِسی سیاہ سمندر سے نُور نکلے گا… ارشد عزیز ملک کا خیال تھا کہ ؎ جھگڑا دانے پانی کا ہے، دام وقفس کی بات نہیں۔ منور مرزا غالباً سنڈے میگزین کے سب سےبہترین لکھاری ہیں اور اُن کی سب سے بڑی خُوبی یہ ہے کہ وہ مُلکی و عالمی حالات و واقعات پر مکمل نظراورعبور ہی نہیں رکھتے، بلکہ اُن کی اپنی ایک ٹھوس رائے ہے، جسے مدلل گفتگو سےثابت کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ 

جیسا کہ موسمیاتی تبدیلیوں پر انھوں نےجس شان دار اندازسے اظہارِخیال کیا، کم ازکم ہم نے تو کہیں اس انداز کی گفتگو نہ سُنی، نہ پڑھی۔ سچ تو یہ ہے کہ سنڈے میگزین کے درخشندہ ستاروں کی اِس خُوب صُورت کہکشاں کاکوئی مول ہی نہیں۔ ہم جیسےعام قاری تواِس سےمعلومات کے اَن مول موتی جھولیاں بھر بھرحاصل کرتے،علمی پیاس کو تسکین دیتے اور آپ لوگوں کے لیے دُعائے خیر کرتے نہیں تھکتے۔ آخر میں بس اتنا کہنا ہے کہ اب کے برس کچھ ایسی تدبیر ہم کریں، شہر اِک محبّتوں کا تعمیر ہم کریں۔ ایسی اجاڑ شامیں اگلے برس نہ آئیں، اب کے بار بہار رُت کو زنجیر ہم کریں۔ (صمد روفی، گلستانِ جوہر، کراچی)

ج:اللہ ہی جانے، کس نادانی و پشیمانی میں آپ کی سال ہا سال جریدے میں لکھنے کی ہمّت نہ ہوئی کہ جس ’’کارِخیر‘‘ کا آپ حوالہ دے رہے ہیں، اُس کی اور جریدے کی عُمر میں بھی کچھ زیادہ فرق نہیں۔یہ اعلان توایک طویل مدّت سے شایع ہو رہا ہے۔ رہی بات، زوردار چیخ کی، تو ؎ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔

حیرتوں کے پہاڑ ٹُوٹ پڑے

21جنوری 2024ء کا شمارہ موصول ہوا۔ کِھلکھلاتی دھوپ میں چند پھول لیے ماڈل کھڑی تھی۔ مگر نہیں، پھول تو سائیکل لیےکھڑی تھی۔ ’’حالات وواقعات‘‘میں منورمرزا’’الیکشن معیشت اورپاکستان‘‘ کے عنوان سے فکرانگیز مضمون لائے کہ عوام صرف نعروں سے بہل کر ووٹ دیں گے، تو ترقی کے ثمرات سے محروم ہی رہیں گے۔ ’’آفات‘‘ سےوحید زہیر نے ترکی کے زلزلے کی تباہی بربادی کا غم تازہ کر دیا۔ طارق ابوالحسن نے حماس کے ترجمان، ڈاکٹر خالد قدومی سے ’’انٹرویو‘‘ لیا اور کیا دبنگ جوابات دیئےانھوں نے۔واقعی ؎ اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی۔ ویسے کتنے شرم کی بات ہے کہ او آئی سی، بس، ’’اوہ! آئی سی‘‘ بن کے ہی رہ گئی ہے۔ تب ہی توپوری دنیا، مسلمانوں کا خُون اِس بےدردی سے بہا رہی ہے۔ 

کیا المیہ ہے کہ60 کے قریب مسلمان ممالک، جن کے پاس30 لاکھ سے زیادہ فوج، معدنی وسائل کے خزانے ہیں، مسئلۂ فلسطین پر بےحسی کی چادر اوڑھے سو رہے ہیں۔’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ دسمبر، جنوری کے حوالے سے مستند شعراء کے خُوب صُورت اشعار لائیں۔ شاعرہ سعدیہ صفدر نےتو گرمی، سردی کو ایک کردیا ؎ تیری آنکھوں میں تپش ہے جُون کی… تیرا چہرہ جنوری سے کم نہیں۔ ویسے یہ شعرعورت کی فطرت کی مکمل عکّاسی بھی ہے۔ ’’کھیل، کھلاڑی‘‘ میں، کلیم الدین ابو ارحم پاکستانی کھلاڑیوں کی ناکارہ کارکردگی کانوحہ سُنا رہے تھے۔ 

بات یہ ہے کہ اچھے حُکم ران ہوں تو پھر ہرشعبہ ہی اچھا ہوتا ہے۔ رائو محمّد شاہد اقبال نے’’سوشل میڈیا‘‘ کے دوغلے پن کی رُوداد رقم کی کہ غزہ کی جنگ میں کسی طرح اسرائیل کی وحشت و بربریت کا ناکام دفاع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مدثر اعجاز نے’’سلور اسکرین‘‘میں لولی ووڈ کی مایوس کُن کارکردگی کا دُکھڑا سُنایا، تو ’’ٹی وی اسکرین‘‘ خصوصاً ڈراما نگاری پرایڈیٹرصاحبہ نے جس طرح ایک انتہائی جان دار و شان دار تجزیہ پیش کیا، بخدا ہم پر تو جیسےحیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ اُف خدایا! ابھی کیا کیا بجلیاں اور ہیں آپ کے خِرمن میں؟؟جس باریک بینی سےڈراموں کی خُوبیوں، خامیوں کاجائزہ لیا گیا، لگتا ہے، چوبیس گھنٹے ٹی وی اسکرین، ڈرامے ہی دیکھتی ہیں۔ 

تو بھئی، یہ باقی میگزین کا کام آخرکب کرتی ہیں آپ۔ ویسے آفرین ہے، بخدا مَیں تو آپ کی ان گنت صلاحیتوں کا معترف و مرید ہوگیا ہوں۔ میری رائے میں تو آپ کو ہمارے مُلک کی وزیراعظم ہوناچاہیے۔ صرف ایک میگزین کی اشاعت تو آپ کی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے بہت ہی کم ہے۔ اور اب ہم آپہنچے ہیں، اپنے صفحے پر۔ اس بار، ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا اعزاز ہمیں حاصل ہوا۔ شکریہ، اطلاعاً عرض ہے، ماہ نور شاہد ہماری پوتی ہے۔ ہماری چِٹھیاں پڑھ کر اُسے بھی لکھنے کی ترغیب ملی، کچھ رہنمائی ہم نےبھی کی اوراب ایک ہی گھرکے دو لکھاری شاید پہلے بار بزم آراء ہیں۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج:ارے واہ! یہ تو آپ نے بہت مزے کی بات بتائی، وہ بچّی توخاصی سلجھی ہوئی ہے۔ لگتا ہے، دادا کی نسبت، دادی سے زیادہ قریب ہے۔ ہا ہا ہا…اور آپ کو اللہ کا واسطہ، ہمیں ہماری سطح ہی پہ رہنے دیں، پہلے ایک ’’کھلاڑی‘‘ میں پھونک بَھر کے، مُلک کا جو حشر نشر کیا گیا ہے، اب تو یہ ُملک کسی بھی تجربے کا متحمل نہیں رہ گیا۔ ہمیں جوکام آتا ہے، الحمدللہ، ہم وہی بحسن و خُوبی کر رہے ہیں۔ اور جب یو ٹیوب پرہر ایک چینل کا ہر ایک پروگرام موجود ہو تو بھلا سارا سال ٹی وی اسکرین سے چِپکے رہنے کی کیاضرورت ہے، جو دیکھنا چاہا، سرچ کیا، اور دیکھ لیا۔ ہاں، آنکھیں، کان ہمہ وقت ضرور کُھلے رہنے چاہئیں۔

                   فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

اُمید ہے، آپ خیروعافیت سے ہوں گی، وگرنہ دُعاگو تو ہم ہیں ہی۔ سنڈے میگزین کے لیے یہ ہمارا تیسرا تبصرہ ہے۔ پہلی ’’نصف ملاقات‘‘ تو بہت اچھی رہی تھی، دوسرا تبصرہ بھیجا، تو اچانک شہر سےباہرجانا پڑگیا اور وہاں کافی دن لگ گئے، تومعلوم ہی نہ ہوسکا کہ دوسرا تبصرہ آپ کومِلا بھی یانہیں۔ بہرحال، رات کا آخری پہر ہے، دن بھر کے تھکے ہارے لوگ گہری نیند کےمزےلے رہے ہیں اور ہم اپنے گھر میں ناصر کاظمی کے اس شعرکی عملی تفسیر کے مثل کہ ؎ سو گئے لوگ اس حویلی کے…ایک کھڑکی مگر کُھلی ہے ابھی۔ جاگ رہے ہیں۔ یوں بھی ہمیں لکھنے کا سب سے بہترین وقت یہی معلوم ہوتا ہے۔ 28 جنوری کے جریدے کے سرِورق پرماڈل ڈبل بٹن کوٹ پہنے کسی اورشہر کی سردی ہی سے لُطف اندوز ہورہی تھی کہ کراچی کی سردی کے لیے تو اب لوگ نئے سوئیٹرز، جیکٹس لینے سے بھی کترانے لگے ہیں۔ 

منور مرزا پاک، ایران حملے اور جوابی حملے کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتے نظر آئے کہ ایران کی جارحانہ کارروائی کا دراصل مقصد کیاتھا۔ بہرحال، ایک عام پاکستانی کا بھی اپنےمُلک کےدفاعی نظام اورفوج پرپورا بھروسا ہے کہ وہ پاکستان کی سالمیت کے لیے ہمہ وقت چوکنّا ہے، جس کا تازہ ثبوت پاک فوج نے جوابی حملےکی صُورت دے بھی دیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی نہایت پُراثر الفاظ میں’’قصّہ حضرت آدم و بی بی حواؑ‘‘ سُنا رہے تھے۔ 

تحریر میں سلاست و روانی ایسی تھی کہ لگا، پڑھ نہیں رہے، وہ ہمیں سامنے بیٹھے سُنا رہے ہیں۔ ’’جنّات کا بچّہ، آسمان پر‘‘ یہ روایت پہلی بار پڑھی اور کیا ہی عُمدہ بات ہے کہ ہر روایت کا حوالہ بھی موجود ہوتا ہے، تاکہ کوئی تسلی و تشفّی کرنا چاہے یا مزید جاننے کا طالب ہو تو باآسانی کرلے، جزاک اللہ خیراً۔ ’’سرائیکی فوڈز فیسٹول‘‘ کےکھانےدیکھے۔ ویسے تو مُلک کے ہر علاقے کے اپنے اپنے پکوان مقبول ہیں، لیکن میرے خیال میں کھانوں کی ثقافت سے زیادہ ہمیں بحیثیت ایک قوم یک جائی کی زیادہ ضرورت ہے۔ 

ہمیں ایک دوسرے کے کلچر سے زیادہ ایک دوسرے کے رویوں اور مزاجوں کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ شمیم غوری مچھلی کے شکار پر ایک معلوماتی، دل چسپ مضمون لائے۔ سیّد امین الحق کی ’’گفتگو‘‘ بھی حالاتِ حاضرہ کے اعتبار سے کافی دل چسپ رہی،پڑھ کر بہت لُطف آیا اور حیرانی بھی ہوئی کہ اُنہیں دن کے 1200 سے 1500 تک میسیجز موصول ہوتےہیں۔ سردیوں کے ملبوسات کچھ زیادہ نہیں بھائے کہ ایک بھی مشرقی پہناوا نہیں تھا، لیکن لکھا آپ نے ہو، تو رائٹ اَپ پڑھے بغیر آگے نہیں بڑھا جاتا کہ آپ کا شعری انتخاب لاجواب، باکمال ہوتا ہے۔ 

نئے سال کے حوالے سے فروری تک تین مضامین، ایک غزل اور ایک نظم بھی شامل کی گئی، خصوصاً تحریر ’’خالی کیلنڈر‘‘ نے تو سوچ ہی میں ڈال دیا۔ نئی کتابوں پر منور راجپوت، اختر سعیدی دونوں ہی بےمثال تبصرہ کرتے ہیں اور ہم یہ تبصرے پڑھ کے ہی کتاب خریدنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ’’اکیسویں صدی کےاقبال‘‘ کے حوالے سے اختر سعیدی نے بالکل درست لکھا کہ کسی کی محبّت میں اتنا آگے بڑھ جانا بھی مناسب رویہ نہیں۔ اوراب سب سےآخرمیں آپہنچے ہیں، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی خُوب صُورت محفل میں، جہاں بہت سے نئےنام بھی پڑھنےکوملے، حتیٰ کہ ’’خادمہ ملک‘‘ کا بھی اضافہ ہوچُکا ہے، جب کہ ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ کی مسندِ خاص واقعی ایک استاد ہی کو سجتی تھی۔ (عروج عباس، کراچی)

ج: کبھی کبھی ’’مسندِ خاص‘‘ شاگرد کو بھی سجتی ہے اور آج اِس مسند کا تم سے زیادہ کوئی حق دار نہیں۔ ہمیں یاد نہیں کہ تمہاری دوسری ’’نصف ملاقات‘‘ کیسی رہی تھی، لیکن یہ تیسری ملاقات توہمیں بہت ہی بھائی ہے اور ہاں، فروری میں، نئےسال سے متعلقہ تحریریں بہ امرمجبوری ہی لگائی گئیں کہ صفحات کم ہیں اور لکھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ۔

گوشہ برقی خطوط

* اللہ کی بارگاہ میں دُعا اور اُمید ہے کہ آپ اور تمام قارئینِ کرام خیر و عافیت سے ہوں گے۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ اِس وقت میرے ہاتھ میں ہے اور پڑھتے ہوئے ہی یہ ای میل کرنے کو جی چاہا۔ بلاشبہ ایک بہترین استاد آپ کو فقط ترغیب نہیں دیتا، عمل کی طرف مائل بھی کردیتا ہے۔ فی الحال کاغذ و قلم میسّر نہیں، مگرحروف بھلا کب قید میں رہتےہیں۔ خیر، مَیں بچپن سے سنڈے میگزین پڑھ رہی ہوں، جب ہاشم ندیم کا ’’پَری زاد‘‘ سنڈے میگزین میں شائع ہوا کرتا تھا اوراُسے پڑھتے ہوئے مَیں کئی سپنے بُنتی، کئی خواب جیا کرتی تھی۔ پھر ایک طویل عرصے کے لیے زندگی جیسے خاموش سی ہوگئی۔ اور پھر…اللہ پاک نے خیر کی صُبح بھی عطا کی، خوشیوں کا اجالا بھی۔

الحمدللہ۔ آج کئی سالوں بعد ہاتھ میں اخبار اور میگزین اُٹھایا، اخبار کی خوشبو سے دل کو عجیب تسکین سی ملی۔ بچپن ہی سے مَیں علی الصباح گھر کے صحن میں پڑا اخبار اُٹھا کر کافی دیراُس کی تازہ مہک سے لطف اندوز ہوا کرتی تھی اور پھر سنڈے میگزین کی تحاریرسے۔ اِس بد بخت سوشل میڈیا نےتو تازہ خبروں کو بھی باسی کردیا ہے، لیکن کاغذ کی زینت بنی کہانیاں کب باسی ہوتی ہیں۔ مَیں زیادہ ترصفحہ ڈائجسٹ، ناقابلِ فراموش، سائنٹیفک ریسرچز اور خطوط شوق سے پڑھتی رہی ہوں۔ گرچہ اِس وقت سفر میں ہوں اور دورانِ سفر خاموش بدلتے نظاروں میں میگزین کا مطالعہ کرنا کتنا سحرانگیز ہے، آپ اندازہ نہیں لگا سکتیں۔ 

شور وغل میں دھیان مرکوز رکھنے کی تگ و دو کرتے ہوئے بار بار ایک تحریر کو دہرانے کے بجائے، پُرسکون انداز میں ہر ایک لفظ بغور پڑھتے ہوئے اپنے ذہن کے کسی گوشے میں جذب کرلینا بہت ہی اطمینان بخش احساس ہے۔ میرا یہ پہلا خط/برقی خط، گویا میرا احساسِ تشّکر ہے کہ آج سالوں بعد، مَیں نے اپنے مطالعے کے شوق کو دوبارہ جیا ہے اور ساتھ ہی بچھڑے ایک پورے دَور کی کئی یادیں بھی امنڈ آئی ہیں۔ میری ای میل میں کوئی کمی بیشی ہو، تو درگذر کرتے ہوئے اصلاح بھی کیجیے گا، ممنون رہوں گی۔ میری بچھڑی ہستی سے مجھےملانے کا بہت شکریہ۔ والسلام۔ (رافعہ حسین، نارتھ ناظم آباد، کراچی)

ج: ہائے…آپ نے تو ہمیں بھی جذباتی کر دیا۔ بقول فراق گورکھ پوری ؎ شام بھی تھی دھواں دھواں، حُسن بھی تھا اداس اداس…دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں…کون سُکون دے سکا غم زدگانِ عشق کو… بھیگتی راتیں بھی فراقؔ آگ لگا کے رہ گئیں۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk