یہ نوجولائی2021کی بات ہے۔ صحافیوں کی جانب سے افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے امکانات کے سوال پر امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ انہیں تین لاکھ مضبوط افغان افواج پر اعتماد ہے۔ انہوں نے ایسی اطلاعات کی تردید کی تھی کہ افغانستان میں طالبان کا مکمل قبضہ ناگزیر ہے۔ایک پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے پاس تقریبا75ہزار جنگ جُو ہیں جن کا مقابلہ افغانستان سکیورٹی فورسز کے تین لاکھ جوانوں سے ممکن نہیں۔
جو بائیڈن نے افغانستان سے فوجی انخلا کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی آپریشن31اگست کوختم ہوجائے گا۔ انہوں نے واضح کیاتھا کہ وہ 'امریکیوں کی ایک اور نسل کو جنگ کے لیے افغانستان نہیں بھیجیں گے۔بائیڈن کا کہنا تھا کہ امریکا نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں جو اسامہ بن لادن کی ہلاکت، القاعدہ کے خاتمے اور امریکا پر مزید حملوں کو روکنے کےتھے۔ہم افغانستان ملک بنانے نہیں گئے تھے۔ یہ افغانستان کے لوگوں کی ذمے داری ہے کہ وہ تنہا اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں اور یہ کہ ا نہوں نے اپنا ملک کیسے چلانا ہے۔
اُن ہی دنوں ماسکو کے دورے پر جانے والے طالبان کے وفد کے سربراہ شہاب الدین دلاور نےجو بائیڈن کےبیان کے جواب میں کہا تھا کہ اگر طالبان چاہیں تو دو ہفتوں میں افغانستان کا کنٹرول سنبھال سکتے ہیں۔
یہاں ماضی کی ان باتوں کا حوالہ دینے کا مقصد کچھ نکات واضح کرنا ہیں:
'امریکیوں نے اپنا اُلّو سیدھا کیا،پاکستان اور افغانستان کی متعدد نسلوں کا مستقبل تباہ کیا اور جب اپنا مقصد حاصل کرلیا تو یہ کہہ کر با آسانی نکل گئے کہ اپنی ایک اور نسل کو جنگ کے لیے افغانستان نہیں بھیجیں گے۔
جوبائیڈن نے اقرار کیا کہ ہم افغانستان ملک بنانے نہیں گئے تھے،یعنی مقصد تعمیر نہیں بلکہ تباہی تھا۔
اب امریکی یہ کہتے ہیں کہ یہ افغانستان کے لوگوں کی ذمے داری ہے کہ وہ تنہا اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں۔ لیکن اس سے قبل پہلے انہوں نے افغانیوں کو ہر طرح کی مدد فراہم کرکےسابق سوویت یونین سے لڑایا اور پھر خود ان سے بر سرِ پیکار رہے۔ یوں اُن کے تقریبا چالیس برس ضایع کیے اور ملک الگ تباہ ہوا۔
اُدہر طالبان کا کہنا تھا کہ اگر وہ چاہیں تو دو ہفتوں میں افغانستان کا کنٹرول سنبھال سکتے ہیں۔ لیکن آج وہ ہی طالبان ہم سے کہہ رہے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کو کنٹرول کرنا پاکستان کا کام ہےاور ان کی سرزمین پاکستان پر حملوں کے لیے استعمال نہیں ہورہی۔
لیکن ہم نے کیا سیکھا اور کیا پایا ؟ہمارے دو آمروں نے ہمیں اس جنگ میں جھونکا۔ہماری معیشت،معاشرت اور امن وامان تباہ ہوگئے۔ چالیس تا پچاس لاکھ افغانی بغیر کسی اندراج کے ملک میں ہر جگہ پھیل چکے ہیں۔ ہیروئن اور کلاشنکوف ہمارے معاشرے کا رستا ہوا ناسور ہے جو اسی جنگ کا تحفہ ہے۔افغان ٹرانزٹ ٹریڈکے نام پر کھیلا جانے والا کھیل آج بھی ہماری معیشت کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے۔
پھر یہ کہ جن کے ساتھ مل کر اور جن کے لیے یہ جنگ لڑی گئی ،وہ ہی آج ہم سے بد ظن دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں کیا ہم پر اب یہ لازم نہیں ہوگیا ہے کہ ہم بھی اس ضمن میں اپنی حکمتِ عملی کا ازسرِ نو جائزہ لیں؟
جب امریکا بہادر افغانستان سے نکل رہا تھا تو اس وقت تجزیہ کار یہ بتارہے تھے کہ ایک شدت پسند گروپ کے اقتدار میں آنے سے دیگر چھوٹے بڑے عسکریت پسند گروپ بھی توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایسے میں پاکستانی طالبان دوبارہ متحرک ہوسکتے ہیں لیکن اس کا انحصار افغان طالبان کی ان کی جانب رویے پر ہو گا۔کیا آج یہ تجزیہ صحیح ثابت نہیں ہورہا؟
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیےکہ انیس سو نوّے کی دہائی میں جب طالبان پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تھے تو پاکستانی طالبان کا وجود نہیں تھا۔ لیکن اس کے بعد طالبان کے نظریات سے متاثر ہو کر سرحد پار اس نے جنم لیا۔ افغان طالبان نہ پاکستانی طالبان کے بارے میں بات کرنا پسند کرتے ہیں اور نہ کوئی بیان جاری کرتے ہیں۔ ان کے لیے وہ ایسے ہیں جیسے وہ وجود ہی نہیں رکھتے۔
امریکی انخلا کے وقت یہ بھی کہا گیا تھاکہ افغان طالبان نے امریکیوں سے معاہدے میں وعدہ کیاہے کہ وہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ ایسے میں ٹی ٹی پی کے خاموش رہنے کے امکانات زیادہ ہیں، لیکن اگر ٹی ٹی پی افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرکے پاکستان میں دوبارہ متحرک ہوتی ہے تو اسلام آباد یقیناً طالبان حکومت سے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرے گا۔
ایسے میں افغان طالبان کی جانب سے پاکستانی شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کا امکان حد درجے کم ہے۔ وہ دباؤ اور بات چیت کے ذریعے انہیں خاموش رہنے پر شاید آمادہ کرلیں۔تاہم افغانستان میں خانہ جنگی میں طوالت کی وجہ سے طالبان مخالف دیگر دھڑے پاکستان کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ 80 کی دہائی میں اس کی مثال ’’مجاہدین‘‘ کے لیے پاکستانی مدد کے تناظر میں سابق سوویت یونین کی جانب سے پشاور اور دیگر مقامات میں بم دھماکے تقریباً روزانہ کا معمول تھے۔
اقوام متحدہ نے جولائی2020' میں اپنی ایک رپورٹ میں بتادیا تھا کہ افغانستان ہزاروں پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کا مرکز ہے۔ رپورٹ کے مطابق چھ ہزار سے زیادہ عسکریت پسند، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے ہے، افغانستان میں روپوش ہیں اور وہاں سے پاکستانی فوج اور شہری اہداف پر حملے کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی نے داعش سے وابستہ افغان شاخ سے روابط قائم کر رکھے ہیں ۔اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں تسلیم کیا گیا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں کے لیے شدت پسند گروہ افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں۔
جولائی2020 میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی نے داعش سے وابستہ افغان شاخ سے روابط قائم کر رکھے ہیں اور اس کے کچھ ارکان نے باقاعدہ طور پر داعش میں شمولیت اختیار کرلی ہے جس کا مرکز مشرقی افغانستان میں ہے۔ یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی تجزیاتی اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم نے تیار کی تھی جو پوری دنیا میں دہشت گرد گروہوں کا سراغ لگاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے لیے ایک بڑی پریشانی افغانستان میں ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار یا لشکر اسلام کی موجودگی ہے اور اسی طرح بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی افغانستان میں جڑیں اسلام آباد کے لیے پریشان کن صورت حال پیدا کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیاتھاکہ افغانستان میں پاکستان مخالف اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کی کل تعداد چھ سے ساڑھے چھ ہزار کے درمیان ہے جن سے دونوں ممالک کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔
جون 2016 میں سرحد پر ہونے والی فائرنگ کے بعد پاکستان نے تخفظ کو یقینی بنانے کے لیے افغانستان کے ساتھ طویل سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔ منصوبے کے لیے ابتدائی طور پر50کروڑ ڈالرز مختص کیے گئے تھے۔ابتدائی طور پر باڑ مکمل کرنے کے لیے دسمبر 2019 کی تاریخ مقرر کی گئی تھی لیکن افغان سرحد کی جانب سے دہشت گردی کے واقعات اور زمینی وجوہات کے باعث منصوبہ طوالت کا شکار ہوا اور دسمبر 2021میں مکمل ہوا۔
ہماری مشکل یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان سرحد کی مجموعی لمبائی 2611کلومیٹر ہے جس میں1229کلو میٹر صوبہ خیبر پختون خوا میں ہے۔ خیبر پختون خوا سے متصل تقریباً 1229 کلومیٹر لمبی پاکستان، افغانستان سرحد پر باڑ تقریباً مکمل ہوچکی ہے، لیکن چترال کے بلند و بالا دشوار ترین پہاڑ اور سرحدی گلیشئرز کی وجہ سے وہاں باڑ لگانا بےحد مشکل ہے۔
وہاں انسانی آمدورفت بھی نہیں ہے، لیکن پھر بھی اس دو فی صد حصے کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی اور مناسب حل نکالا جائے گا۔چترال کے ساتھ افغان سرحد کی لمبائی493کلومیٹر ہے لیکن اس میں سے 471 کلومیٹر سرحد انتہائی بلندی پر واقع اور گلیشیئرزپر مبنی علاقوں سے گزرتی ہے۔
ایک مقام پر ضلع دیر کے قریب اس کی سطح سمندر سے بلندی13ہزار فیٹ اور دوسرے مقام کی بلندی 10ہزار460 فیٹ ہے۔ باجوڑ کے ساتھ سرحد کی لمبائی 50 کلومیٹر، مہمند کے ساتھ 69 کلومیٹر، خیبر کے ساتھ 111 کلومیٹر، کرم کے ساتھ191کلومیٹر، شمالی وزیر ستان کے ساتھ183اور جنوبی وزیر ستان کے ساتھ 94 کلومیٹر ہے۔
سکیورٹی حکام کے مطابق چترال، دیر اور باجوڑ کے سامنے تحریک طالبان پاکستان کے حزب الاحرار، سواتی گروپ اور باجوڑی گروپ کے دہشت گرد افغانستان میں پناہ گزین ہیں جو اکثر اسنائپر حملے کرتے ہیں۔شمالی وزیرستان کے سامنے افغانستان کے صوبہ خوست میں ٹی ٹی پی کا اتحادی حافظ گل بہادر گروپ پناہ گزین ہے جس کے دہشت گرد کارروائیاں، دخل دراندازی اور حملے کرتے رہتے ہیں۔
یاد رہے کہ شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں گزشتہ دنوں دہشت گردوں نے چیک پوسٹ پر حملہ کرکے پاک فوج کے لیفٹیننٹ کرنل اور کیپٹن سمیت سات فوجی جوان شہید کردیے تھے اور یہ کارروائی حافظ گل بہادر گروپ کے دہشت گردوں نے کی تھی۔
جنوبی وزیرستان کے سامنے افغانستان کے صوبے پکتیکا کے ضلع برمل میں ٹی ٹی پی کے مرکزی لوگ پناہ گزین ہیں۔
پاکستانی فوج کو باڑ لگانے میں سب سے زیادہ جنوبی وزیرستان کے علاقے شوال میں مزاحمت کا سامنا رہا اور سب سے زیادہ اس علاقے میں باڑ لگاتے ہوئے جوانوں کی جانیں قربان ہوئیں۔ شدت پسندوں نے شوال میں منگڑیتی کے سامنے تین چار کلومیٹر افغانستان کے اندر بھاری مشین گنیں لگا رکھی تھیں جنہیں خاموش کرانے میں مہینوں لگے۔
یہی وجہ ہے کہ جنوبی وزیرستان میں ایک ہی رات میں35چوکیوں پہ حملہ کیا گیا اور دو دن جھڑپ جاری رہی۔ اس علاقے میں اتنی مزاحمت کا سامنا رہا کہ دو سال باڑ پہ کام رکا رہا یہی وجہ ہے کہ باڑ دسمبر 2019 میں مکمل نہیں ہو سکی۔ اس کی تعمیر میں 2017 سے تکمیل تک سیکڑوں جوانوں کی جانیں گئیں جن پر باڑ لگانے کے دوران سرحد پار سے فائرنگ کی گئی۔
ان تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان نے بہت صبر اور تحمل سے کام لیا اور ملک کو دہشت گردوں سے محفوظ بنانے کے لیے کام جاری رکھا۔لیکن دہشت گردوں کو اس باڑ سے بھی نفرت ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ انہیں ماضی کی طرح دونوں ممالک میں بلا روک ٹوک نقل و حرکت کی آزادی حاصل رہے۔
روس اور امریکا کے افغانستان سے نکلنے میں فرق یہ ہے کہ امریکی افغانستان سے نکلے ہیں، مگر ان کے مفادات اس خطے میں جوں کے توں موجود ہیں۔ ان مفادات کا تعلق چین، روس، ایران، پاکستان، وسطی ایشیا اور تجارت سے ہے۔
کل کی طرح آج بھی افغانستان کے ضمن میں پاکستان کے خدشات سب سے زیادہ ہیں۔ ہمارا ایک ماضی ہے جو اب تک افغان پناہ گزینوں کی صورت میں ہمارے گلے پڑا ہوا ہے۔سرحد پار سے فساد پھیلانے والے درجنوں گروہ ہیں جو ملک میں کارروائیاں کرنے پر مامور ہوچکے ہیں۔ وہ باڑ کو خاطر میں نہیں لاتے۔
اقتصادی طور پر ہمیں مستحکم افغانستان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ تین دہائیوں پہلے دیکھے ہوئے خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے۔وسطی ایشیا کے ساتھ سڑکوں اور ریلوے لائن کے ذریعے جڑنا وہ منصوبہ ہے جو مکمل طور پر افغانستان کے حالات کے تابع ہے۔ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ افغانستان کے معاملات ہماری سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
ضیا الحق امریکا کے لیے افغانستان میں اہداف کے حصول کی وجہ سے ناگزیر ہوئے تھے۔ جنرل پرویز مشرف اس وجہ سے معتبر ہوئے کہ افغانستان کو کسی نہ کسی طریقے سے زیر دست کرنا تھا اور وہاں سے ابلنے والا فساد قابو میں لانا تھا۔ قوم اب تک ضیا الحق اور جنرل مشرف کے ادوار میں بوئی گئی سیاسی فصل کاٹ رہی ہے۔ یوں سمجھیے کہ افغانستان کی پاکستان کے لیے وہی اہمیت ہے جو جرمنی کی یورپ کے لیے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب جرمنی کو چھینک آتی ہے تو یورپ کو زکام ہو جاتا ہے۔
چین بدلتے ہوئے حالات کے باعث اپنے تجارتی اور معاشی منصوبوں کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک نہیں چاہتے کہ امریکاکے جانے کے بعد پیدا ہونے والے خلا میں سے ایسی قوتیں جنم لیں جو کسی کے قابو میں نہ ہوں۔
خطّے میں افغانستان سے جڑےہمارے مفادات امریکی مفادات سے کہیں زیادہ اور دیرپا ہیں۔ ہمارے بغل میں خون خرابا ہو اور ہم اس سے محفوظ رہیں یہ ممکن نہیں۔ بدقسمتی سے ہم افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد بننے والے حالات کی اہمیت کو بروقت جانچنے کے باوجود کسی قسم کی قومی بحث کا آغاز نہیں کر پائے۔
قومی سلامتی کے معاملے پرسیاست دانوں کی بریفنگ اس وقت ہوئی جب امریکی افغانستان سے عملاً نکل گئے تھے اور ایک انتہائی مشکل صورت حال جنم لے چکی تھی۔ وہ تمام وقت جو ہم نے اپوزیشن کو سبق سکھانے میں صرف کیا اگر افغانستان پر قومی بحث میں لگایا ہوتا تو شاید آج ہمارے سامنے مسائل کے ساتھ مختلف قسم کے حل بھی موجود ہوتے۔
لیکن ہم نے قیمتی وقت گنوادیا اور اب ہمیں ناسور کا علاج کرنے کے لیے جراحی کرنا پڑ رہی ہے۔ چناں چہ انیس مارچ کو پاکستان نےمجبوراافغانستان کے اندر آپریشن کیاجس میں ٹی ٹی پی سے مل کر پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں ملوث حافظ گل بہادر گروپ کوہدف بنایا گیا۔ دفتر خارجہ کے مطابق افغانستان میں اقتدار میں رہنے والوں میں سے کچھ عناصر سرگرم طور پر ٹی ٹی پی کی سرپرستی کر رہے ہیں اور انہیں پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، افغان حکومت کو خبردار کرتے ہیں کہ خوارج دہشت گردوں کا ساتھ دینے کی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے ،ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ اور اس کی قیادت حوالے کی جائے۔
اس آپریشن کے بعد افغان فورسز نے سرحدی علاقے پر گولہ باری کی جس کے نتیجے میں کیپٹن سمیت کئی اہل کار زخمی ہوگئے تھے۔ادہر آئی ایس پی آر کے مطابق سیکورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان میں بھی آپریشن کیا ، انتہائی مطلوب دہشت گرد کمانڈر صحرا عرف جانان سمیت 8دہشت گرد مارے گئے۔دوسری جانب افغان عبوری حکومت نے تصدیق کی کہ خوست اور پکتیکا میں فضائی کارروائی کی گئی جس میں 8افراد مارے گئے۔
ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ کا کہنا تھاکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے پاکستان نے افغانستان کے اندر سرحدی علاقوں میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں کیں۔ جاری بیان میں بتایا گیا کہ آپریشن کا بنیادی ہدف حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد تھے جو ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر پاکستان کے اندر متعدد دہشت گرد حملوں کا ذمے دار ہے جس کے نتیجے میں سیکڑوں شہری اور قانون نافذ کرنے والے اہل کار شہید ہوئے۔
ان میں سے تازہ ترین حملہ 16مارچ 2024 کو شمالی وزیرستان میں میر علی میں ایک سیکورٹی پوسٹ پر پیش آیا تھاجس میں سات پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سال کے دوران پاکستان نے افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی سمیت دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر عبوری افغان حکومت کو بارہا اپنے سنگین تحفظات سے آگاہ کیا،یہ دہشت گرد پاکستان کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں اور پاکستانی حدود میں دہشت گرد حملوں کےلیے مسلسل افغان سرزمین استعمال کرتے رہے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان افغانستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو انتہائی اہمیت دیتا ہے، اس لیے اس نے ہمیشہ دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کےلیے بات چیت اور تعاون کو ترجیح دی ہے۔ ہم نے بارہا افغان حکام پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کےلیے ٹھوس اور موثر کارروائی کریں کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے پائے۔ ہم نے ان سے ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرنے اور اس کی قیادت پاکستان کے حوالے کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے لوگوں کا بہت احترام کرتا ہے۔
تاہم افغانستان میں اقتدار میں رہنے والوں میں سے کچھ عناصر سرگرم طور پر ٹی ٹی پی کی سرپرستی کر رہے ہیں اور انہیں پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، ایک برادر ملک جو افغانستان کے عوام کے ساتھ مشکل کی ہر گھڑی میں ساتھ کھڑا ہے ، اس کے خلاف اس طرح کا رویہ ان کی تنگ نظری کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے گزشتہ کئی دہائیوں میں افغانستان کے عوام کے لیے پاکستان کی طرف سے دی جانے والی حمایت کو نظر انداز کیا ہے۔
ہم اقتدار میں موجود ان عناصر سے درخواست کرتے ہیں کہ معصوم پاکستانیوں کا خون بہانے والے خوارج دہشت گردوں کا ساتھ دینے کی پالیسی پر نظر ثانی کریں اورپاکستانی عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا واضح انتخاب کریں۔ ترجمان نے کہا کہ ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروہ علاقائی امن و سلامتی کے لئے اجتماعی خطرہ ہیں، ہم ٹی ٹی پی کی طرف سے لاحق خطرے کا مقابلہ کرنے میں افغان حکام کو درپیش چیلنج کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔
اس کے جواب میں طالبان کا دھمکی آمیز بیان سوچ کو نئے زاویے فراہم کرتا ہے۔ افغان وزارت خارجہ نے صوب پکتیکا اور خوست میں پاکستانی فوج کےحملوں کے نتیجے میں خواتین اور بچوں کی اموات پر ردعمل میں کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے سربراہ کو طلب کرکے احتجاجی ریکارڈ کروایا اورافغانستان کی وزارت خارجہ نے ’’حملوں کی مذمت‘‘ کے ساتھ پاکستان کو آگاہ کیا کہ امارت اسلامیہ افغانستان کو دنیا کی سپر پاورز کے خلاف آزادی کے لیے لڑنے کا طویل تجربہ ہے اور وہ اپنی سرزمین پر کسی بھی طرح کی جارحیت کو برداشت نہیں کر سکتی۔افغانستان کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ افغان فورسز نے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں پاکستانی فوج کے مراکز کو نشانہ بنایا۔
آئی ایس پی آر کے بیان میں افغانستان کی حکومت کے دعوے پر تو کوئی ردعمل نہیں دیا گیا البتہ یہ کہا گیا کہ افغان طالبان کی مدد اور جدید اسلحے کی فراہمی سے دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات میں افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کے واضح شواہد موجود ہیں۔
شمالی وزیرستان میر علی میں دہشت گردوں کی جانب سے تازہ حملے کے تانے بانے بھی افغانستان میں پناہ لیے ہوئےدہشت گردوں سے ملتے ہیں۔ اس سے قبل بھی متعدد بار افغانستان میں پناہ لیےہوئے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں۔
30 جنوری 2023 کو پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں بھی دھماکے سے کئی قیمتی جانوں کانقصان ہوا تھا۔15 دسمبر2023 کو ٹانک حملے میں افغانستان میں پناہ لیے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں۔12دسمبر2023 کو ڈیرہ اسماعیل خان درابن حملے میں افغانستان سے آئے دہشت گردوں نے نائٹ ویژن گوگلز اور غیر ملکی اسلحہ استعمال کیا۔
4 نومبر2023 کو میانوالی ائیر بیس حملے کی منصوبہ بندی بھی افغانستان میں پناہ لیے ہوئے دہشت گردوں کی جانب سے کی گئی۔ 6ستمبر 2023 کو جدید ترین امریکی ہتھیاروں سے لیس ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے چترال میں دو فوجی چیک پوسٹوں پر حملہ کیا جس میں افغانستان سے آئے ہوئے دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں ۔12 جولائی 2023 کو ژوب گیریژن پر ہونے والے حملے میں بھی کے افغانستان سے آئے ہوئے دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت ہیں۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہےافغان عبوری حکومت دہشت گردوں کو مسلح کرنے کے ساتھ دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ راستہ فراہم کررہی ہے۔
جب ایسا ہے تو ہمیں بھی تو نئی پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔