• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا آئین صدر مملکت اور صوبائی گورنروں کو ملک کی کسی بھی عدالت میں حاضری سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے جسکی وجہ سے برسرمنصب ہونے کی مدت میں ان کیخلاف کسی بھی الزام میں عدالتی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ جناب آصف زرداری نے دوسری بار صدارت کے عہدے پر براجمان ہونے کےبعد ایک نیب ریفرنس میں اس رعایت سے مستفید ہونے کیلئے احتساب عدالت میں درخواست دے دی ہے۔ لیکن کیا صدر اور گورنروں کو حاصل یہ استثنیٰ عدل اور انصاف کے بنیادی تقاضوں کے سراسر منافی نہیں؟صدر اور گورنر کیا درجۂ معصومیت پر فائز ہوجاتے ہیں کہ وہ کسی کیخلاف ظلم، زیادتی اور حق تلفی کے مرتکب ہوہی نہ سکتے ہوں؟ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی ان کے ظلم کا نشانہ بنے تو وہ کس سے فریاد کرے اوراپنا حق لینے کس دروازے پر جائے؟ اگر دنیا کے تمام ملکوں کے دساتیر بھی اپنے اعلیٰ ترین حکام کو یہ تحفظ دیتے ہیں تب بھی عدل کے بنیادی تقاضوں کی رو سے اسکا جواز کیا ہے؟اگرجدید دنیا کے چلن ہی کی بات کی جائے تب بھی ایسا نہیں کہ برسرمنصب سربراہان مملکت کو عدالت میں طلب کیے جانے کی کوئی مثال ہی نہ ہو۔ پھر پاکستان تو آئین کی رو سے اسلامی نظریاتی ریاست ہے لہٰذا آئینی شقوں کی وضاحت اسلامی اصولوں کی روشنی میں لازمی ہے۔ جب ایسا ہے تو صدر اور گورنر کو قانون اور عدالت سے مستثنیٰ رکھنے کی آئینی شق کیا اس ارشاد نبویؐ سے براہ راست متصادم نہیں کہ ’’تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں وہ اسی لیے تو تباہ ہوئیں کہ وہ لوگ کمتر درجے کے مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دیتے تھے اوراونچے درجے والوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تومیں ضرور اسکا ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘(صحیح بخاری۔ کتاب الحدود)۔ اللّٰہ کے نبیؐ نے اپنے آپ کو بھی قانون سے بالاتر نہیں رکھا، سیرت کی کتابوں میں اس کی متعدد مثالیں درج ہیں۔ خلافت راشدہ میں بھی سربراہ مملکت کبھی عدالت اور قانون سے بالاتر نہیں رہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک بار حضرت عمر ؓاور حضرت ابی بن کعبؓ کا ایک معاملے پر اختلاف ہوگیا اور دونوں نے حضرت زید بن ثابتؓ کو منصف بنایا۔ فریقین انکے سامنے حاضر ہوئے۔ حضرت زیدؓ نے اٹھ کر خلیفہ وقت کو اپنی جگہ بٹھانا چاہا مگر انہوں نے اسے اصول عدل کے منافی قرار دیا اور دوسرے فریق کیساتھ بیٹھ گئے۔ حضرت ابیؓ نے اپنا دعویٰ پیش کیا اور حضرت عمرؓ نے اسے درست ماننے سے انکار کیا۔ قاعدے کے مطابق حضرت زیدؓکو حضرت عمر ؓسے قسم لینی چاہئے تھی مگر انہوں نے اس میں تأمل کیا۔اس پر حضرت عمرؓ نے خود قسم کھائی اور مجلس کے خاتمے پر کہا کہ ’’زیدؓ قاضی ہونے کے قابل نہیں ہوسکتے جب تک کہ عمر اور ایک عام مسلمان انکے نزدیک برابر نہ ہو۔‘‘(بیہقی، السنن الکبریٰ)۔ اس مثال کی روشنی میں کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ماہرین قانون کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا آئین قانونی مساوات قائم کر رہا ہے؟ اس حوالے سے حضرت علیؓ کے دور خلافت کا بھی ایک واقعہ بہت مشہور ہے۔ ہوا یہ کہ حضرت علیؓ نے کوفے کے بازار میں ایک نصرانی کو اپنی گم شدہ زرہ بیچتے دیکھا تو اس سے کہا کہ یہ زرہ میری ہے مگر اس نے خلیفہ وقت کا دعویٰ ماننے سے انکار کردیا۔ اس پر اسلامی ریاست و حکومت کے سربراہ نے مملکت کے چیف جسٹس قاضی شریح کی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کیا۔انہوں نے حضرت علی ؓسے شہادت طلب کی۔ حضرت علیؓ نے اپنے فرزند حضرت حسنؓ اور اپنے غلام قنبر کو گواہ کے طور پیش کیا لیکن قاضی نے ان دونوں کی گواہی کو مدعی کا بیٹا اور غلام ہونے کی وجہ سے تسلیم کرنے سے انکار کردیا کیونکہ مدعی کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے انکی گواہی اصولاً قابل قبول نہیں تھی۔ حضرت علیؓ نے قاضی سے کہا کہ کیا آپ کے نزدیک حسن قابل اعتبار نہیں ہیں؟ قاضی صاحب نے جواب دیا کہ امیرالمؤمنین، بات شخصیات کے اعتبار پر فیصلے کی ہوتی تو آپ کا دعویٰ ہی کافی تھا مگر معاملہ عدل کے اصول کا ہے، اس لیے ان دونوں کی گواہی قبول نہیں کی جاسکتی۔چنانچہ فیصلہ نصرانی کے حق میں سنایا گیا اور سربراہ مملکت کا دعویٰ مسترد کردیا گیا۔ حضرت علیؓ نے اس فیصلے کو کھلے دل سے قبول کرتے ہوئے فرمایا ’’آپ نے بالکل ٹھیک فیصلہ کیا۔‘‘ مگر نصرانی اس فیصلے پر حیرت زدہ رہ گیا اور بولا ’’یہ تو پیغمبرانہ عدل ہے کہ امیرالمومنین کو بھی عدالت میں آنا اور اپنے خلاف فیصلہ سننا پڑتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ زرہ امیرالمومنین ہی کی ہے۔ یہ انکے اونٹ پر سے گر گئی تھی اور میں نے اٹھالی تھی۔ (تہذیب تاریخ، ابن عساکر)۔ اسی طرح خلافت اسلامی کے گورنروں کیخلاف شکایات سننے اور مظلوموں کو ان کا حق دلوانے کیلئے بھی مستقل بندوبست تھا۔ چنانچہ ایک بار حضرت عمرؓ نے حسب معمول جب اپنے تمام گورنروں کو حج کے موقع پر طلب کیا اور مجمع عام میں کھڑے ہوکر کہا کہ ان لوگوں کیخلاف اگر کسی شخص کو ظلم کی شکایت ہو تو وہ پیش کرے ۔ مجمع میں سے ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ آپ کے گورنر عمرو بن العاصؓ نے مجھے ناروا طور پر سو کوڑے لگوائے ہیں۔خلیفہ وقت نے کہا کہ اٹھو اور ان سے اپنا بدلہ لے لو۔ عمرو بن العاصؓ نے التجا کی کہ آپ گورنروں کے خلاف یہ راستہ نہ کھولیں۔ مگر حضرت عمرؓ نے فیصلہ سنایا کہ ’’میں نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو خود اپنے آپ سے بدلہ لیتے دیکھا ہے، اے شخص اٹھ اور اپنا بدلہ لے لے۔‘‘آ خرکار عمرو بن العاصؓ کو ہر کوڑے کے بدلے دو اشرفیاں دیکر اپنی پیٹھ بچانی پڑی۔ (کتاب الخراج، امام ابویوسفؒ)۔ ان نظائر اور شواہد کی روشنی میں پوری قوم کو سوچنا چاہیے کہ کیا ہمارے آئین کی وہ شق جو صدر اور گورنروں کو عدالت میں حاضری سے مستثنیٰ قرار دیتی ہے، عدل کے منافی نہیں، اور کیا اسکی اس طرح اصلاح ضروری نہیں کہ اس ملک میں چھوٹا اور بڑا، کمزور اور طاقتور سب قانون کی نگاہ میں واقعی برابر ہوجائیں۔

تازہ ترین