• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ناپسندیدہ شخصیت سے رجحان ساز شخص بننے تک کا سفر

اسلام آباد (انصار عباسی) جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے کہا ہے کہ ان کی گزشتہ 5 سال کی تکالیف کے دوران اعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے انہیں نا پسندیدہ شخصیت سمجھا، ان میں وہ ججز بھی شامل ہیں جنہوں نے حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ کر ان کے کیس کا حوالہ دیا اور عدلیہ کی آزادی ان کی برسوں طویل جدوجہد کو سراہا۔ 

دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنی زندگی کے تکلیف بھرے ان برسوں میں انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیٹھے اپنے برادر ججز سے سماجی بائیکاٹ کا سامنا رہا۔ انہوں نے کہا، ’’ان لوگوں نے دعوت دینے کے باوجود میری بیٹی کی شادی میں شرکت تک نہ کی۔‘‘ 

انہوں نے کہا کہ ان تمام باتوں میں جسٹس گُل حسن اورنگزیب ہی وہ واحد شخص تھے جو ان کے ساتھ عید پر مبارکباد کا تبادلہ کرتے۔ انہوں نے کہا کہ چند روز قبل چیف جسٹس کو خط لکھنے والے 6؍ ججز میں چار ایسے ہیں جنہیں بیٹی کی شادی میں شرکت کیلئے دعوت دی تھی لیکن وہ نہیں آئے۔ 

تاہم، جسٹس (ر) صدیقی کو الزامات سے بری کرنے والے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد ان میں سے ایک جج نے جسٹس (ر) صدیقی سے ملاقات کی اور انہیں مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ راولپنڈی بار ایسوسی ایشن سے جولائی 2018ء میں خطاب اور نتیجتاً ملازمت سے برطرفی (جسے اب سپریم کورٹ نے غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا ہے) کے بعد، کسی جج نے بھی ان تمام برسوں میں ان کے حق میں ایک لفظ تک نہ کہا۔ 

دلچسپ بات ہے کہ اپنے خط میں 6؍ ججز نے شوکت صدیقی کے کیس کو نمایاں طور پر توجہ کا مرکز بنایا ہے اور اسی خط کی بنیاد پر انہوں نے دھونس اور دباؤ کے مبینہ واقعات کا ذکر کیا ہے جن کا انہیں سامنا ہے۔ 

یہ یاد کرتے ہوئے کہ جسٹس (ر) صدیقی کو کیسے برطرف کیا گیا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے خط میں لکھا تھا کہ ’’جس وقت سپریم کورٹ کے جاری کردہ اعلامیہ نے جسٹس صدیقی کو کسی حد تک بری الذمہ قرار دیا ہے لیکن جس غیر شائستہ انداز سے انہیں عہدے سے برطرف کیا گیا اس کی تلافی آنے والے کئی برسوں تک نہیں ہو سکتی۔‘‘ 

ان ججز نے جسٹس (ر) صدیقی کے آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی (سی) جنرل فیض حمید کیخلاف عائد کردہ الزامات کی تحقیقات کے مطالبے کی حمایت کی اور چیف جسٹس سے درخواست کی کہ معاملے کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے یہ معلوم کیا جائے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے انتظامی معاملات اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی زیر نگرانی عدالتوں میں جاری کارروائیوں میں مداخلت کا سلسلہ اب بھی جاری ہے یا نہیں۔ 

ججز نے اپنے خط میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے مبینہ دھمکیوں اور زبردستی کے کئی واقعات کا حوالہ دیا۔ انہوں نے خصوصاً کئی مرتبہ آئی ایس آئی کا نام لیا اور کہا ’’ہم سمجھتے ہیں کہ انفرادی سطح پر ججز کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرح بہادر بننے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ خود ہی ایگزیکٹو کے ہاتھوں ہونے والے ظلم و ستم کا مقابلہ کریں۔ 

انہیں جسٹس صدیقی کی طرح پرعزم اور عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد بھی طویل عرصے تک غلط کیخلاف لڑائی جاری رکھنے والا بھی نہیں ہونا چاہئے۔ عدلیہ کی آزادی آئین کی ایک نمایاں خصوصیت ہے جس کا مقصد بنیادی حقوق کو برقرار رکھنا اور عوامی مفاد میں قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی ہے، عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھنے اور اس کے تحفظ کیلئے ادارہ جاتی ردعمل کی ضرورت ہے۔‘‘ 

جسٹس صدیقی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب انہوں نے عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کیلئے آئی ایس آئی کی مداخلت کیخلاف بات کی تو ان کے برادر ججز سمیت پوری عدلیہ نے انہیں تنہا چھوڑ دیا اور ان کے ساتھ ناپسندیدہ شخصیت جیسا سلوک روا رکھا۔

اہم خبریں سے مزید