شہریار خان کے انتقال سے پاکستان میں ایک باب اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔دنیا ئے کرکٹ میں ان کے کارناموں کو فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ اتوار کی سہ پہر ملیر کے بھوپال ہاوس میں ایک ایسے شخص کے سفر آخرت میں شرکت کا اعزاز ملا جو نہ صرف کر کٹ بلکہ سفارت کاری کے شعبے میں بھی پاکستان کی پہچان تھے۔ بھوپال کے نواب شہریار محمد خان ایک بڑے سفارت کار اور بہت بڑے کرکٹ ایڈمنسٹریٹر تھے۔
سب سے بڑھ کر وہ انتہائی شریف اور نفیس انسان تھےبہت کم لوگ جانتے ہیں کہ2004میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پاکستان میں ہونے والی تاریخی سیریز صرف شہریار خان کی وجہ سے ممکن ہوسکی۔ سیریز میں ایک وقت ایسا آیا جب بھارت نے پاکستان آنے سے انکار کردیا تھا۔ صدر پرویز مشرف نے شہر یار خان کو بھارت بھیجا انہوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے سیریز کو ممکن بنایا۔ واقعی آج بھی لوگ پاک بھارت سیریز کو یاد کرتے ہیں۔2004 کے بعد 2006میں بھی بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان آئی اور اس سیریز سے پی سی بی کا خزانہ بھر گیا۔
شہر یار خان کے انتقال کے ساتھ ایک عہد کا اختتام ہوگیا۔شہریا ر خان نے سفارت کاری کے بعد کرکٹ میں شہرت حاصل کی لیکن قومی کھیل ہاکی سے دلی لگاؤ رکھتے تھے۔ اکثر ہاکی گراونڈز میں دکھائی دیتے تھے۔ شہریار خان نے2004میں کرکٹ ڈپلومیسی کے نام پر پاک بھارت سیریز کا انعقاد کیا ٹیسٹ اور ون ڈے میچوں کو دیکھنے کے لئے ہزاروں بھارتی پاکستان آئے ۔اس سیریز کو بھارت میں آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آئی سی سی میں شہریار خان پاکستان کرکٹ کی طاقتور آواز کے طور پر جانے جاتے تھے۔ان کا شمار پاکستان کے غیر متنازع لیکن قابل چیئرمینوں میں ہوتا ہے۔
مجھے بورڈ آف گورنرز میں ان کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز ملا وہ ہر وقت پاکستان کرکٹ کو بلندیوں کی طرف لے جانے کا سوچتے رہتے تھے اور کراچی سے انہیں خصوصی لگاؤ تھا۔ میں ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے شہریار خان کے ساتھ کام کیا اور ہر میٹنگ میں ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ہمیشہ احترام سے ملتے اور سب کی رائے کو اہمیت دیتے تھےوہ اپنی رائے مسلط کرنے سے گریز کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے شہریار خان جب پہلی بار پی سی بی چیئرمین بنے کراچی میں ایک میٹنگ میں نیشنل اسٹیڈیم کے قریب قاسم عمر فلائی اوور کے لئے سٹی گورنمنٹ کو پی سی بی کی کچھ جگہ درکار تھی۔
اس وقت کے سٹی ناظم مصطفے کمال نے جب میٹنگ میں پی سی بی چیئرمین درخواست کی کہ انہیں فلائی اوور کے لئے جگہ درکار ہے تو شہریار صاحب نے فورا کہا کہ بھائی اسٹیڈیم کی کئی ایکڑ زمین پہلے قبضہ ہوچکی ہے پی سی بی کچھ نہ کرسکا۔ میں تو خود کراچی والا ہوں اگر فلائی اوور بن گیا تو روزانہ لاکھوں لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں گے انہوں نے فورا فائل پر دستخط کردیئے۔ اس طرح فلائی اوور بن گیا اور شہر کے دو بڑے اسپتالوں کے پاس ٹریفک کا دیرینہ مسئلہ حل ہوگیا۔ حالانکہ مصطفے کمال متبادل کے طور پر پی سی بی کو پلاٹ یا معاوضے دینے کے لئے تیار تھے۔
مشہور سفارت کار،سابق سیکریٹری خارجہ ،سفیر اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار محمد خان طویل علالت کے باعث لاہور میں انتقال کر گئے۔ان کی عمر89سال تھی ۔شہریار خان کو تعلق بھارت کے شہر بھوپال سے تھا۔شہریار خان پاک بھارت کرکٹ ڈپلومیسی کے ماہر تھے۔ وہ بھارت کے سابق کرکٹ کپتان منصور علی خان پٹودی کے فرسٹ کزن اور بولی ووڈ اسٹار سیف علی خان کے چچا تھے۔1999میں پاک بھارت کرکٹ روابط کی بحالی کے بعد انہیں پاکستان کرکٹ ٹیم کا منیجر بناکر بھارت بھیجا گیا تھا۔وہ2003کے ورلڈ کپ میں بھی منیجر تھے۔
انہوں نے دسمبر2003 سے اکتوبر2006اور اگست2014 سے اگست2017تک دو بار پی سی بی کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 2004میں صدر جنرل مشرف کی ہدایت پر انہوں نے چند ہفتوں کے نوٹس پر پاک بھارت سیریز کا پاکستان میں کامیاب انعقاد کیا۔ ان کے دور میں بھارت نے دو بار پاکستان کا دورہ کیا تھا ان کا شمار پی سی بی کے کامیاب ترین سربراہوں میں ہوتا ہےآج بھی لوگ شہریار خان کی سربراہی میں سیریز کو یاد کرتے ہیں۔کراچی میں حنیف محمد سے موسوم ہائی پرفارمنس سینٹر بھی ان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
شہریار خان کے انتقال پر ان کے بچوں سے ملاقات ہوئی ان کے بیٹے بتارہے تھے کہ ہمارے والد نے پاکستان کی خاطر بھارت میں اپنی سینکڑوں ایکڑ کی زمینیں اور جائیداد کو قربان کردیا۔ کیوں کہ وہ پاکستان سے سچی محبت کرتے تھے سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آئے اور پاکستان کی محبت مرتے دم تک ان میں موجود تھی۔ شہریار خان اب منوں مٹی تلے دفن ہیں لیکن وہ ایسی تاریخ چھوڑ کر گئے ہیں جسے مدتوں فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔