• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز بھی جسٹس تصدق جیلانی سے پہلے شیئر کرلئے تھے، وزیر قانون

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہےکہ انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز بھی جسٹس تصدق جیلانی سے پہلے شیئر کرلیے تھے سپریم کورٹ فل کورٹ بناتی ہے تب بھی حکومت کو اعتراض نہیں ہوگا، موقر وکلاء تنظیموں نے ججوں کے خط پر بننے والے جیلانی کمیشن کا خیرمقدم کیا تھا، تحریک انصاف کے سینئر رہنما حامد خان نے کہا کہ ججوں کے خط پر چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لے کر اچھا کیا ہے، مناسب یہی ہوگا کہ اس کیس کی سماعت فل کورٹ ہی کرے،عدالت سے درخواست کریں گے کہ اس کیس کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے اسے فل کورٹ سنے،سیاسی جماعتوں کو اس معاملہ میں نہیں آنا چاہئے، عدلیہ کو خود اس معاملہ کو حل کرنا چاہئے البتہ بار زکا اس میں بڑا کردار ہے، وکلاء اور ججوں کو ہی اس معاملہ کا حل تلاش کرنا چاہئے، سیاسی جماعتیں بیچ میں آئیں تو معاملہ متنازع ہوجائے گا۔ سینئر صحافی حسنات ملک نے کہا کہ جسٹس (ر) تصدق جیلانی کے ساتھ مس کمیونیکیشن ہوئی ہے، جسٹس تصدق کو شاید یہ تاثر ملا کہ فل کورٹ نے متفقہ طور پر ان کا نام منظور کیا ہے، انہوں نے سپریم کورٹ کے ججوں سے بات کی تو انہیں وہاں تقسیم نظر آئی، جسٹس (ر) تصدق جیلانی دو دن پہلے ہی کمیشن کی سربراہی نہ کرنے کا ذہن بناچکے تھے۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کی وجہ سے سرپرائز نہیں ہوا، تصدق جیلانی کا پیغام ازخود نوٹس سے ایک گھنٹہ پہلے وزیراعظم ہاؤس کو مل گیا تھا، جسٹس (ر) تصدق جیلانی اپنی نیک نامی کی وجہ سے میری پسندیدہ ترین عدالتی شخصیات میں سے ہیں، فل کورٹ اجلاس کے بعد وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات ہوئی، ملاقات میں کہا گیا کہ یہ دو تین نام ہیں ان میں سے مناسب سمجھیں تو کمیشن بنادیں، وزیراعظم نے کہا کہ فہرست میں جو پہلا نام ہے ہم ان سے ہی پہلے بات کرلیں گے، میں نے تصدق جیلانی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ سوچنے کا موقع دیں، میں نے تصدق جیلانی سے دوبارہ رابطہ کیا تو وہ کمیشن کی سربراہی پر آمادہ تھے، کابینہ اجلاس میں وزیراعظم نے مجھے کہا کہ تصدق جیلانی سے دوبارہ بات کرلیں، کابینہ اجلاس سے نکل کر تصدق جیلانی سے رابطہ کیا کہ سب نے آپ کے نام پر اتفاق کیا ہے، ہم نے کمیشن کے ٹی او آرز بھی جیلانی صاحب سے پہلے شیئر کرلیے تھے۔ اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ کمیشن بننے کے بعد اس معاملہ کو سیاست زدہ کردیا گیا، میں سمجھتا ہوں سڑک اور بڑھک کی سیاست کی وجہ سے یہ معاملہ ہوا ہے، ماحول میں جو تناؤ ہے اس میں چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لے کر درست فیصلہ کیا ہے، موقر وکلاء تنظیموں نے ججوں کے خط پر بننے والے جیلانی کمیشن کا خیرمقدم کیا تھا، وکلاء تنظیموں نے توقع ظاہر کی کہ جسٹس (ر) تصدق جیلانی شفاف طریقے سے انکوائری کر کے رپورٹ دیں گے۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ چیف جسٹس سے جو کمٹمنٹ ہوئی حکومت نے اسے پوری طرح نبھایا، 184/3کے تحت factual انکوائری نہیں ہوسکتی، اس کا ممکنہ نتیجہ ماضی کی طرح ایک کمیشن یا جے آئی ٹی ہوسکتا ہے، میرے ذاتی خیال میں فل کورٹ کی ضرورت نہیں ہے، تین پانچ یا سات ججوں کا بنچ بھی میکنزم کا فیصلہ کرسکتا ہے، سپریم کورٹ فل کورٹ بناتی ہے تب بھی حکومت کو اعتراض نہیں ہوگا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں 184/3میں اپیل کا حق دیا گیا ہے، ممکن ہے سات رکنی بنچ بنانے کا مقصد اپیل کیلئے راستہ چھوڑنا ہو، فل کورٹ بیٹھنے کی صورت میں اپیل کی ضرورت نہیں رہتی۔تحریک انصاف کے سینئر رہنما حامد خان نے کہا کہ ججوں کے خط پر چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لے کر اچھا کیا ہے، چیف جسٹس نے اسلام آباد میں دستیاب تمام سات ججوں کو بنچ میں بٹھادیا ہے، عید کے بعد دیگر ججز اسلام آباد آجائیں گے تو امید ہے فل کورٹ سماعت کرے گا، مناسب یہی ہوگا کہ اس کیس کی سماعت فل کورٹ ہی کرے،عدالت سے درخواست کریں گے کہ اس کیس کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے اسے فل کورٹ سنے، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیسوں کو بھی فل کورٹ نے سنے تھے۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ کسی پٹیشن پر نہیں آیا ججوں کی شکایت پر ازخود نوٹس لیا گیا ہے، اس کیس میں دو مخالف فریقین ایک دوسرے کے سامنے نہیں ہیں، عدالتی معاملات میں مداخلت کرنے اور مرضی کے فیصلوں کیلئے دباؤ ڈالنے کا الزام ایگزیکٹو اداروں پر لگایا گیا ہے، مناسب یہی ہے کہ عدلیہ حقائق جاننے اور اقدامات کیلئے انکوائری کرے، انکوائری کیلئے سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل سے مشورہ لے سکتی ہے، سیاسی جماعتوں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں، میں اس مسئلہ کو عدلیہ اور بار سے متعلق ایک قومی معاملہ سمجھتا ہوں، سیاسی جماعتوں کو اس معاملہ میں نہیں آنا چاہئے، عدلیہ کو خود اس معاملہ کو حل کرنا چاہئے البتہ بار زکا اس میں بڑا کردار ہے، وکلاء اور ججوں کو ہی اس معاملہ کا حل تلاش کرنا چاہئے، سیاسی جماعتیں بیچ میں آئیں تو معاملہ متنازع ہوجائے گا۔ سینئر صحافی حسنات ملک نے کہا کہ جسٹس (ر) تصدق جیلانی کے ساتھ مس کمیونیکیشن ہوئی ہے، جسٹس تصدق کو شاید یہ تاثر ملا کہ فل کورٹ نے متفقہ طور پر ان کا نام منظور کیا ہے، انہوں نے سپریم کورٹ کے ججوں سے بات کی تو انہیں وہاں تقسیم نظر آئی، جسٹس (ر) تصدق جیلانی دو دن پہلے ہی کمیشن کی سربراہی نہ کرنے کا ذہن بناچکے تھے، سپریم کورٹ نے جو ازخود نوٹس لیا یہ اقلیتی ججوں کا موقف ہے جسے اکثریت نے بھی تسلیم کیا، وکلاء تنظیمیں بھی سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کررہی تھیں، فل کورٹ میں دو قسم کی رائے آئی تھیں، کچھ ججوں نے کہا کہ خط لکھنے والے جج ہمارے ہیروز ہیں دوسری طرف کہا گیا ایسی بات نہیں ہے۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کل دن میں ایک ہی گھنٹے میں تین بڑی خبریں سامنے آئیں، پہلے خبر آئی کہ سپریم کورٹ نے اسلام آبا دہائیکورٹ کے ججوں کے معاملہ پر ازخود نوٹس لے لیا ہے، چیف جسٹس کی سربراہی میں سات رکنی بنچ بدھ کو سماعت کرے گا، پھر خبر سامنے آئی کہ توشہ خانہ کیس میں اسلام آبا دہائیکورٹ نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا معطل کردی ہے، اس کے بعد خبر آئی کہ سابق چیف جسٹس (ر) تصدق جیلانی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کے خط کے معاملہ پر حکومتی انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرلی ہے، یہ بہت اہم پیشرفت تھی کیونکہ اسلام آبا دہائیکورٹ کے ججوں نے ایک سنگین معاملہ اپنے ادارے کے سربراہ کے پاس بھیجا تھا جنہوں نے حکومت سے مشاورت کے بعد انکوائری کمیشن بنوایا تھا، لیکن جس جج پر اس کام کیلئے اعتماد کیا گیا انہوں نے ہی ذمہ داری اٹھانے سے معذرت کرلی ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ ہم نے خود جسٹس(ر) تصدق جیلانی سے پوچھا کہ کیا آپ نے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے اعلان سے پہلے کی تھی یا بعد میں کی تھی؟، انہوں نے ہمیں جواب دیا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے سے پہلے ہی معذرت کرلی تھی ۔

اہم خبریں سے مزید