• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو---فائل فوٹو
سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو---فائل فوٹو 

 میں نے اپنی زندگی عوام کی خدمت کے لیے وقف کر دی ہے، اگر میرا عوام کی خدمت کرتے ہوئے انتقال ہو جائے تو مجھے لاڑکانہ میں دفن کیا جائے۔

یہ خواہش سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یکم جنوری 1972ء کو بحثیت صدر پہلی مرتبہ مزارِ قائد پر حاضری کے بعد کارکنوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی تھی۔

پھر وقت گزرا، حالات بدلے، پچھلے 44 سال سے پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی ان کی آخری آرام گاہ گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں منائی جا رہی ہے۔

پیپلز پارٹی کی منتخب حکومتِ سندھ نے اس سال بھی اس موقع پر 2009ء سے روایتی طور پر جاری عام تعطیل کا اعلان کیا ہے۔

4 اپریل 1979ء کی علی الصبح مارشل لاء حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش کے الزام میں تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا تھا اور ان کی میت کو سرکاری نگرانی میں راولپنڈی سے گڑھی خدابخش لا کر خاموشی سے دفن کر دیا گیا تھا، وہ وقت بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی کے لیے بڑی آزمائش کا تھا۔

چار عشروں سے زائد گزرنے کے بعد گزشتہ ماہ 6 مارچ 2024ء کو ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس پر سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ’فیئر ٹرائل‘ کا موقع نہیں ملا، ان کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں سماعت اور سپریم کورٹ میں اپیل میں بنیادی حقوق کو مدِ نظر نہیں رکھا گیا، پھانسی کے فیصلے میں ٹرائل کا طریقہ کار مکمل نہیں تھا، جس میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت اور ان پر گزرے حالات کئی لحاظ سے تاریخی اور یادگار ہیں، سقوطِ ڈھاکا کے بعد چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی 22 دسمبر 1971ء کو پہلی مرتبہ برسرِ اقتدار آئی تھی۔

اقتدار سنبھالنے کے 10 دن بعد بحثیت صدر پہلی مرتبہ یکم جنوری 1972ء کو ذوالفقار علی بھٹو کراچی میں قائدِ اعظم کے مزار پر حاضری دینے پہنچے تو پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ عوامی حکومت کے خلاف سازشیں ہو سکتی ہیں، میں نے اپنی زندگی عوام کی خدمت کے لیے وقف کر دی ہے، اگر میرا عوام کی خدمت کرتے ہوئے انتقال ہو جائے تو مجھے لاڑکانہ میں دفن کیا جائے۔

اس موقع پر مزارِ قائد پر فاتحہ پڑھتے ہوئے وہ جذبات سے مغلوب ہو گئے تھے اور ان کی آواز بھر گئی تھی۔

1973ء کا آئین بھٹو صاحب کا بہت بڑا کارنامہ ہے، اس سے پہلے 21 اپریل 1972ء کو ملک میں عبوری آئین نافذ کیا تو پاکستان کی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو وہ پہلے صدر تھے جنہوں نے حلف اردو میں اٹھایا تھا، بھٹو دورِ حکومت ملکی تعمیر و ترقی کا دور تھا، 5 جولائی 1977ء کو اس حکومت کو ختم کر کے ملک بھر میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا تھا اور پھر اگلے 22 ماہ میں بہت کچھ بدل گیا۔

نواب محمد احمد خان کے مقدمۂ قتل میں ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر چار ملزمان کو سزا اس ایف آئی آر کا نتیجہ تھی جو رکنِ قومی اسمبلی احمد رضا قصوری نے اپنے والد محمد احمد خان کے واقعۂ قتل کے 3 گھنٹے بعد 11 نومبر 1974ء کو اچھرہ تھانے میں درج کرائی تھی۔

قتل کی واردت اسی حدود میں 10 اور 11 نومبر کو ہوئی تھی، احمد قصوری نے رپورٹ میں بھٹو کا ایک ملزم کی حیثیت سے نام لکھوایا تھا۔

پی پی حکومت نے جنوری 1975ء میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ایس رحمٰن کی صدارت میں ٹریبونل قائم کیا تھا، ابتداء میں تحقیقات تھانہ اچھرہ نے کی، بعد میں سی آئی اے لاہور کو یہ کام سونپا گیا، مارشل لاء حکومت آئی تو اس نے فیڈرل سیکیورٹی فورس کے معاملات کی تحقیقات کا حکم دیا۔

ایف آئی اے نے تحقیقات شروع کیں، 3 ستمبر 1977ء کو اس کیس میں پہلی مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو کو کراچی کی رہائش گاہ سے گرفتار کر کے لاہور لایا گیا، وہ لاہور ہائی کورٹ کی ضمانت پر 13 ستمبر کو رہا ہو گئے تھے۔

16 ستمبر 1977ء کو مارشل لاء کے ضابطے 12کے تحت انہیں لاڑکانہ سے پھر گرفتار کر لیا گیا، فل بینچ جس نے مقدمۂ قتل کی سماعت کی اس نے شہادت شروع ہونے سے پہلے ان کی ضمانت منسوخ کر دی تھی۔

11 ستمبر 1977ء کو پولیس نے نامکمل چالان پیش کیا جس میں 7 ملزمان کے نام لیے گئے تھے لیکن جب 18ستمبر کو مکمل چالان پیش کیا گیا تو مسعود محمود اور غلام حسین کے نام بطور گواہان دیے گئے کیوں کہ وہ وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے۔

مقدمہ سماعت کے لیے لاہور ہائی کورٹ منتقل کر دیا گیا اور لاہور ہائی کورٹ کے 5 ججوں پر مشتمل ایک فل بینچ تشکیل دیا گیا، تمام ملزمان 24 ستمبر 1977ء کو عدالت میں پیش کیے گئے، 11 اکتوبر 1977ء کو ملزمان پر فردِ جرم عائد کی گئی، استغاثہ کی طرف سے مقدمے کی کارروائی 22 جنوری 1978ء تک مکمل ہوئی، استغاثہ کے پہلے گواہ احمد رضا قصوری کا بیان 5 دن تک ہوا، دوسرے اور وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کا بیان 1 ہفتے میں مکمل ہوا، استغاثہ کے تیسرے گواہ سعید احمد خان اور دوسرے وعدہ گواہ کا بیان 6 اور 7 دن میں مکمل ہوا تھا۔

مقدمے کے مرکزی ملزم ذوالفقار علی بھٹو نے 9 جنوری کو مقدمے کی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا تھا، انہوں نے جرم سے انکار کیا تھا، انہوں نے ضابطۂ فوجداری کے تحت اپنا بیان 24، 25 اور 28 جنوری کو قلم بند کرایا تھا لیکن اپنی صفائی میں کوئی گواہ پیش نہیں کیا تھا۔

مقدمہ 24 ستمبر 1977ء سے شروع ہوا تھا اور فل بینچ میں اس کی سماعت 2 مارچ 1978ء کو ختم ہوئی۔

5 ماہ اور 7 دن کے اس عرصے میں مقدمے کی سماعت 70 دن ہوئی تھی۔

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس مشتاق حسین، جسٹس زکی الدین پال، جسٹس ایم ایس ایچ قریشی، جسٹس آفتاب حسین اور جسٹس گل باز خان پر مشتمل بینچ نے 18مارچ 1978ء کو ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر 4 ملزمان کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ ملزمان پر قتل کے الزامات ثابت ہو گئے ہیں، انہیں اس وقت تک پھانسی پر لٹکایا جائے جب تک ان کا دم نہ نکل جائے۔

عدالت نے بڑے ملزم ذوالفقار علی بھٹو کو 25 ہزار روپے بطور جرمانہ بھی ادا کرنے کا حکم دیا تھا اور عدم ادائیگی پر 6 ماہ قید کی سزا سنائی تھی، سزا میں کہا گیا تھا کہ بھٹو کو سزائے موت پانے والوں کی عام کوٹھری میں رکھا جائے گا۔

عدالت نے پانچوں ملزمان کو مختلف دفعات کے تحت 7، 7 سال قیدِ بامشقت کی سزا بھی سنائی اور کہا کہ سزائیں ایک ساتھ شروع ہوں گی جو سزائے موت کی تبدیلی کی صورت نافذالعمل ہوں گی۔

وعدہ معاف گواہ مسعود محمود اور غلام حسین کو معاف کر دیا گیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ میں 7 دن تک اپیل دائر کرنے کی اجازت دی تھی، لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد بھٹو کو پھانسی کے مجرموں کی کار میں لاہور جیل لے جایا گیا تھا۔

25 مارچ 1978ء کو سپریم کورٹ میں فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی گئی، جس کی سماعت 7 ماہ جاری رہی، اس کا آغاز 20 مئی کو ہوا اور 24 دسمبر تک جاری رہی، 6 فروری 1979ء کو اپیل کا فیصلہ کثرتِ رائے سے سناتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر 4 ملزمان کی سزائے موت برقرار رکھی گئی۔

ملزمان کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق بھی دیا گیا تھا، 13 فروری 1979ء کو سپریم کورٹ میں فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی گئی۔

بی بی سی پر فیصلے پر ردِ عمل دیتے ہوئے بیگم نصرت بھٹو نے کہا تھا کہ میرے شوہر کے حوصلے بلند ہیں، انہیں تاریخ نہیں بھلا سکتی، وہ تاریخ کے طالب علم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا خاندان سیاستدانوں کا خاندان ہے، اگر بھٹو نہیں رہے تو میں ہوں، میں نہ رہی تو میرے 2 بیٹے، پھر 2 بیٹیاں ہیں، پھر میرے 2 ہزار بیٹے ہیں جو مجھے ماں کہتے ہیں۔

اپیل کی سماعت 24 فروری 1979ء سے 17 مارچ 1979ء تک جاری رہی، 24 مارچ 1979ء کو سپریم کورٹ نے نظرِ ثانی کی اپیل بھی مسترد کر دی تھی اور آخر کار 4 اپریل 1979ء کو صبح سویرے راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں 51 سالہ بانیٔ چیئرمین پی پی اور سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔

خاص رپورٹ سے مزید