کراچی والوں کی بدنصیبی یہ ہے کہ یہاں بدقسمتی سے عید جیسے تہوار بھی غموں میں ڈوبے آتے ہیں۔ لوگ خریداری یا شاپنگ کرکے گھروں کی طرف لوٹ رہے ہوتے ہیں تو جب تک گھر نہ پہنچ جائیں کبھی دائیں تو کبھی بائیں جانب دیکھنا پڑتا ہے خاص طور پر اگر موٹر سائیکل سوار آس پاس سے گزر رہے ہوں۔ پہلے گھر والے مشورہ دیتے تھے دیکھو بیٹا مزاحمت نہیں کرنی کوئی موبائل مانگے، پرس مانگے، گاڑی کی چابی مانگے فوراً دے دو مبادا وہ گولی چلا دے۔ اب تو سب کچھ لٹا کر بھی جان بخشی نہیں ہوتی۔ اس رمضان میں بھی کچھ مختلف نہیں ہوا البتہ سب کچھ دینے کے باوجود قتل کرنے کا نیا رجحان سامنے آیا ہے۔ ایسے میں ’’عید‘‘ تو صرف اسٹریٹ کرمنلز کی آئی ہے شہر تو سوگوار ہے۔ اب عید کی نماز پر آدمی موبائل، پرس کی حفاظت کرے یا جوتوں کی۔ اس شہر کو ہم نہ جانے کن کن القاب سے نوازتے ہیں۔ منی پاکستان، روشنیوں کا شہر، معاشی حب، پورٹ سٹی، حال یہ ہے کہ فقیروں سے لے کر کرمنلز تک ہر خوشی کے تہوار کے موقع پر خاص طور پر یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ رہ گئی بات قانون نافذ کرنے والوں اور سرکار کی تو عید تو ان کی بھی ہوتی ہے۔ ہمارے تھانے ویسے بھی خوف کی علامت ہیں مگر شہریوں کیلئے شکایات یا FIR کیلئے آنے والوں کیلئے حسرت ہی رہی ماڈل تھانوں کی، کرمنلز کو تو پتا ہوتا ہے ان سے کیسے ڈیل کرنا ہے۔ میں نے اپنے کالم ’’لہولہان کراچی‘‘ میں دو ہفتہ پہلے بھی لکھا تھا کہ اب تک کتنا پیسہ خرچ کر چکے ہیں امن و امان قائم کرنے کے نام پر مگر وارداتیں ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ چند ایک کو چھوڑ کر یہاں اکثر افسران اپنی پوسٹنگ خاص طور پر ریٹائرمنٹ سے پہلے کرانا چاہتے ہیں تاکہ باقی زندگی آرام سے گزر جائے۔ یہ بات کسی اور نے نہیں کچھ ریٹائرڈ پولیس افسران نے بتائی۔ ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم سچ وقت پر نہیںبولتے۔
اچھا ہوا عید سے پہلے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے اس سلسلے میں ایک اجلاس کیا اور اب 15 دن بعد ا س سلسلے میں ایک اورا جلاس ہو گا کہ اس بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز کو کیسے روکا جائے۔ یہ سپریم کورٹ کے 2013کراچی بدامنی کیس اور عمل درآمد کیس کے عین مطابق ہے اس کی عملی شکل نظر آنی چاہئے۔ عدالتوں میں اسٹریٹ کرمنلز کی بڑے آرام سے ضمانت ہو جاتی ہے۔ کچھ کرمنلز پکڑے گئے تو پتا چلا کسی کی 12 دفعہ کسی کی 20دفعہ یا اس سےبھی زیادہ مرتبہ ضمانت ہو چکی ہے۔ کراچی میں ان پولیس افسران کی ضرورت ہے جو اسی شہر کے باسی ہوں ۔ وہی تھانہ ملے جس علاقہ میں وہ رہتا ہو کیونکہ بہرحال اپنےمحلے کا خیال تو سب ہی رکھتے ہیں۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں دنیا میں کئی ممالک میں یہ فارمولہ اپنایا گیا ہے۔
کراچی کو میٹرو پولیٹن سٹی کا درجہ دینا ہو گا بلکہ سندھ کے جتنے شہر ہیں ان کو ایسا ہی درجہ دیں۔ اختیارات کو نچلی سطح تک دینے کی بات کرو تو اسے لسانی رنگ دے دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا ہر شہر اور گائوں اہم ہے اور ہر جگہ کے اپنے مسائل ہیں جن کا حل وہاں کے رہنے والے ہی نکال سکتےہیں باہرسے آنے والے نہیں اب چونکہ بات ، منی پاکستان کی ہے جس کی آبادی( گنتی میں بھی ہیراپھیری کر دی جاتی ہے) تین کروڑ کے لگ بھگ ہے جہاں آٹھ ہزار کچی آبادیاں ہیں جن میں 60لاکھ سے زائد لوگ بستے ہیں۔ 25 لاکھ کے قریب غیر ملکی جن کا کوئی ڈیٹا ہی موجود نہیں۔ غرض یہ کہ شہریوں اور شہر کو محفوظ بناناہے تو بہت کچھ کرنا پڑے گا ورنہ تو یہاںکرمنلز قبروں کو بھی نہیں بخشتے۔
اسٹریٹ کرائم کی اصطلاح عام طور پر موبائل چھیننے، کار ، موٹر سائیکل یا شہریوں کوسر عام لوٹنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ کراچی میں آپ نے کبھی کسی موٹر سائیکل کے آگے نمبر پلیٹ دیکھی ہے تو ضرور بتائیے گا۔ پہلے گاڑیاں چوری ہوتی تھیں اب بھائی لوگ بیٹری نکال کر لے جاتے ہیں۔ کہتے کہتے اور لکھتے لکھتے تھک چکے ہیں مگر شہر اپنا ہو تو اپنا سمجھا جائے۔ اسٹریٹ کرائمز کی ایک بڑی وجہ ناہموار سڑکیں، ٹریفک جام، بے ڈھنگے اسپیڈ بریکر اور سروس روڈ کا تقریباً نہ ہونا ۔ ہم 80کی دہائی سے تجربات کر رہے ہیں یہ وہ وقت تھا جب اس شہر کو افغان پالیسی ، ڈرگ اور اسلحہ کا تحفہ دیا گیا۔شہر بڑی مارکیٹ تھا۔ اسلحہ اور منشیات آئے تو پیسہ بھی آیا اور مافیا بھی بشمول مشہور زمانہ انڈر ورلڈ جرائم کیلئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ پولیس بھی اپنی ہو۔ پیسہ سب کو رام کر دیتا ہے لہٰذا یہ مسئلہ بھی حل کر لیا گیا۔ زمینوں پر قبضہ سے جو بات شروع ہوئی تو وہ حکمرانوں تک لے گئی۔ اور بات ہزاروں سے لاکھوں کروڑوں اور اربوں تک پہنچ جائے تو پھر اس کی روک تھام تقریباً ناممکن ہو جاتی ہے۔ اس سب پر رہی سہی کسر ہمارے ناقص عدالتی نظام نے پور ی کر دی لہٰذا لاقانونیت ہی واحد قانون ٹھہرا۔
ایسا نہیں کہ اس سب کو روکنے کیلئے کوششیں نہیں ہوئیں کچھ میں کامیابی بھی ملی مگر جب جرم و سیاست اور پولیس و قانون کا انوکھا ملاپ قائم ہو جائے تو نہ آپ محفوظ ہو سکتے ہیں نہ انصاف مل سکتا ہے۔ سابق گورنر جسٹس فخر الدین جی ابراہیم 1988میں گورنر بنے تو اغوابرائے تاوان اور گاڑیاں چھیننےکی وارداتیں عروج پر تھیں۔ پولیس FIR مشکل سے درج کرتی لہٰذا انہوں نے گورنر ہائوس میں ہی سی پی ایل سی یعنی سٹیزن پولیس کی مشترکہ کمیٹی تشکیل دی۔ ابھی اس کے مثبت نتائج آنے شروع ہوئے ہی تھےکہ ایک اجلاس میں سابق صدر غلام اسحاق خان نےامن و امان گاڑیوں کی سپر داری اور چوریوں کی بات کی تو سی پی ایل سی کے پہلے چیئرمین جمیل یوسف نےانکشاف کیا کہ کئی گاڑیاں بڑے بڑے لوگوں کے گھروں میں کھڑی ہیں بولیں تو چھاپہ ماریں۔ اجلاس ختم ہو گیا پھر سی پی ایل سی کو بھی سیاسی کر دیا گیا۔
مسائل ہر شہر میں ہوتےہیں اور جرائم بھی مگر ان پر قابو بھی پایا جاتا ہے اب اگر بات بڑے گھروں تک پہنچ جائے تو جرائم روکے نہیں جا سکتے۔ مسئلہ کچے اور پکے کے علاقہ کا نہیں ہے بلکہ کچے اور پکے ڈاکوئوں اور کرمنلز کا ہے۔ اللہ ہم سب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ عید مبارک کچھ دکھوں کے ساتھ۔