ڈیٹ لائن بہاولنگر:آیا تو تھا اپنے آبائی شہر اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ پُر امن عید منانے اور ارادہ تھا پسماندہ ترین ضلع بہاولنگر کی سماجی ومعاشی بدحالی پر لکھنے کا (جس کی حالت زار تر و تازہ اور پُر عزم وزیراعلیٰ کی خدمت میں آخر میں پیش کرنی ہے کہ انکی مدری شفقت کی توجہ بہاولنگر کی پسماندگی اور اسکے لاکھوں بے کس افتادگان خاک کی عُسرت و غربت کی جانب مبذول کرائی جا سکے)، لیکن بیچ میں آن پڑی اک خوفناک مُڈ بھیڑ جو شروع تو ہوئی کسانوں کے بے جا پولیس مداخلت کے خلاف مقابلے سے اور ختم ہوئی بھی تو فوجی جوانوں کی ماورائے قانون پولیس کی دُھنائی پر۔ 8 اپریل کو قانون سے ماورا کرپٹ پولیس پارٹی کا چک سرکاری کے کسانوں سے عید بھتہ وصولی کے لئے حملہ، بہادر دیہاتیوں کے ہاتھوں بدنام زمانہ ایس ایچ او رمضان اور اسکے گینگ کی ہزیمت، پھر پولیس کی یلغار اور مظلوم انور جٹ کے خاندان کے مرد و خواتین جن میں ایک فوجی جوان خلیل بھی شامل تھا کی مدرسہ تھانہ میں خوفناک دُرگت اور 8 اپریل کو درج کی گئی ایف آئی آر کی طوطا کہانی۔ زخمی مغویوں کا 24 گھنٹے میں پولیس ریمانڈ نہ لینے پر فوجی حکام کی مداخلت، زخمی محبوس کسان خاندان کی اسپتال منتقلی، 9 اپریل کو تھانے کے عملے کے خلاف پرچہ درج اور پروٹوکول کے ساتھ بہاولنگر سٹی تھانہ اے ڈویژن باعزت منتقلی۔ فوجی دستے کی عید کے روز (10اپریل) اپنے سپاہی کی میڈیکل رپورٹ کیلئے اسپتال میں مسلح مداخلت اور پھر گرفتار پولیس ملزمان کو سبق سکھانے اور اپنے فوجی بھائی کا بدلہ لینے کیلئے ملزم پولیس اہلکاروں پر سٹی تھانہ پہ فوجی یلغار اور پولیس عملے کے ساتھ بہیمانہ سلوک۔ آخر میں ڈپٹی کمشنر ذوالفقار علی بھون اور ڈی پی او نصیب اللہ خان کی دانشمندانہ مصالحانہ مداخلت اور مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے قیام پر پاک فوج اور پنجاب پولیس زندہ باد کے نعرے اور سارا دوش سوشل میڈیا کے سر۔ ان سارے واقعات کا نچوڑ بس ایک ہی ہے کہ جس کی لاٹھی اسکی بھینس! اگر پولیس بدنام نہ ہوتی اور کسانوں کے ساتھ پولیس گردی نہ ہوئی ہوتی تو عوام فوجیوں کے پولیس مخالف ایکشن پہ خوش نہ ہوتے۔ اور اگر مظلوم کسانوں میں ایک فوجی بھائی شامل نہ ہوتا تو فوجی مداخلت نہ ہوتی۔ اس مجرمانہ کہانی کا سبق ایک ہی ہے پولیس شہریوں کے ساتھ جو مرضی بدمعاشی کرتی پھرے کوئی پوچھنے والا نہیں، لیکن کسی سویلین ادارے نے اگر کسی فوجی پہ ہاتھ ڈالا تو قانون و ضابطہ سے ماورا کسی کی خیر نہیں۔
اب وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز اور انکی سویلین انتظامیہ کرتی بھی تو کیا؟ اب بدمعاش پُلسیوں کا احتساب تو ہو گا ہی ہو گا۔ کیا پاک فوج بھی قانون کو ہاتھ میں لینے والے اپنے اہلکاروں اور سویلین شہری سلامتی کے ادارے پہ حملہ کرنے والوں کا بھی کورٹ مارشل کرے گی؟ ریاستی اور آئینی بحران کے مظہر ان واقعات کا سلسلہ نہ ہوتا تو اس فریادی کالم کا آغاز ’’اے بہاولنگر تو کیا تھا، کیا سے کیا ہو گیا اور کبھی اور کیسے تیری قسمت جاگے گی؟‘‘ سے کرتا۔
تو پنجاب اور پاکستان کی تاریخ کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز صاحبہ! ہم آپکے ووٹ کو عزت دو کے مشکل وقت کے بھولے بسرے خیر خواہ ٹھہرے اور ہمیشہ کی طرح راندہ درگاہ بھی۔ لیکن پژ مُردہ دل کے ساتھ بہاولنگر کی حالت زار پہ درخواست گزار ہیں کہ: ضلع بہاول نگر پاکستان کے پسماندہ ترین 18 اضلاع میں شامل ہے جہاں آدھی سے زیادہ آبادی بدترین غربت وناداری، ناخواندگی اور بیماریوں کی شکار ہے۔ آلائش زدہ پانی سے ہونے والی اموات پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ہیں۔ 75فیصد لوگ ناخواندہ اور 25فیصد سے زائد بیروزگار ہیں۔ 15لاکھ لوگوں کو غربت سے نکالنے اور 8لاکھ بیروزگار نوجوانوں کیلئے روزگار مہیا کرنے کے بڑے چیلنجز ہیں۔ پینے کو صاف پانی ہے نہ نکاسی فضلہ کا کوئی بندوبست۔ بچوں اور نوجوان نسل کیلئے معیاری تعلیم کا کوئی جدید نظام ہے نہ ترقی و روزگار کے کوئی مواقع۔ اس بدحالی کےذمہ دار غیر حاضر جاگیردار اور کرپٹ سیاستدان ہیں جن کا سیاسی قبضہ نسل در نسل برقرار ہے۔ لیکن یہ جتلانا بہت ضروری ہے کہ بہاولنگر کپاس پیدا کرنے والا سب سے بڑا ضلع ہے، لیکن یہاں کوئی ایک ٹیکسٹائیل ملز نہیں جبکہ سینکڑوں جننگ فیکٹریاں ترقی یافتہ علاقوں کی ٹیکسٹائل ملز کو خام کپاس پراسس کر کے فراہم کرتی ہیں۔ یہاں کا بہترین چاول بھاری مقدار میں برآمد کیا جاتا ہے، لیکن کوئی متحرک رائس تحقیقاتی ادارہ موجود نہیں۔ یہاں بھاری تعداد میں اون پیدا کی جاتی ہے، لیکن ایک وولن ملز نہیں ہے۔ ساری ترقی ستلج کے دوسری طرف، اور ساری محرومی و علاقائی پسماندگی ستلج کے اس طرف مرکوز ہے۔ کٹے پھٹے ترقیاتی پروگرام کے جو چند منصوبے ادھر پھینکے جاتے ہیں وہ کمیشن خور ’’منتخب نمائندوں‘‘ اور انکے حصہ دار ٹھیکے داروں کی جیبیں گرم کرنے کے کام آتے ہیں۔ جسکی ایک بدترین مثال بہاولنگر شہر کا سیوریج نظام ہے جسکی سڑاند سے پورا شہربیت اُلخلا بن گیا ہے۔ تعفن اور فضلہ ملا پانی شہریوں کیلئے وبال جان بنا ہوا ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ محترمہ وزیر اعلیٰ آپ نے معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے کہیں اعلان کیا تھاکہ بہاولنگر سمیت 4 پسماندہ اضلاع کو ترقی یافتہ ماڈل شہر و اضلاع بنایا جائے گا جو نہایت خوش آئند ہے۔ لہٰذا، پہلے تو آپکو بہاولنگر کو سماجی و معاشی طور پر تباہ حال ضلع ہونے کا اعلان کرنا چاہئے۔ اسے 10 برس کے لئے ٹیکس فری انڈسٹریل زون قرار دیں اور صنعتکاری کیلئےمراعات دیں۔ میڈیکل کالج اور زچہ وبچہ اسپتال کی تعمیر مکمل کریں، ہیڈ سلیمانکی، مروٹ سے بہاولنگر اور بہاولپور تک ریلوے لائن کو بحال کراکے ریل سروس پھر سے شروع کروائیں۔ چولستان کی 7لاکھ ایکڑ زمین کی آبپاشی اور وہاں خود کاشتکاری کیلئے بے زمین کسانوں کو زمینیں الاٹ کریں۔ زرعی تحقیقاتی کالج، اساتذہ و نرسز ٹریننگ کالجز اور ٹیکنالوجی انسٹی ٹیوٹس بنائیں۔ تعلیم و صحت کیلئے ایک مربوط صحت عامہ کا موثر نیٹ ورک تشکیل دیں۔ تعلیم بالغاں کیلئے بے روزگار گریجویٹس کی سپاہ تعلیم بالغاں تشکیل دیں۔ عورتوں کی ترقی میں مساوی شرکت کا اہتمام کریں۔ پولیس گردی ختم کریں۔ پسماندہ اضلاع کیلئے ایک مربوط ترقیاتی کمیشن بنائیں جو نیچے سے اوپر ترقی کا عوامی شرکت سے پائیدار ماڈل بنائے۔ ذمہ دار دو طرفہ ضلعی حکومتوں کی تشکیل اور انہیں کلی اختیارات کی منتقلی، ہر ضلع میں مربوط تحقیقی و منصوبہ بندی کا کمیشن تشکیل دیا جائے۔ لاہور کے مرکزی سول سیکرٹریٹ کی جگہ جنوبی پنجاب کا بہاولپور میں سیکریٹریٹ مضبوط کرتے ہوئے صوبہ جنوبی پنجاب کی 2029تک تشکیل کیلئے ابھی سے پہل کریں۔ آپ کی متجسس اور مہربان آنکھوں کی نذر۔
تم ہی سمجھ لو، تم ہو مسیحا
میں تو جانوں، درد کدھر ہے