ایران نے اسرائیل پر حملہ اچانک نہیں بلکہ وارننگ اور دھمکی دینے کے بعد کیا۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کا آغاز یکم اپریل کو ہوا تھا۔
یکم اپریل کو شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر اسرائیل کے فضائی حملے کے نتیجے میں 7 ایرانی فوجی افسر شہید ہو گئے تھے۔
دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر حملے کے بعد سے علاقے میں امریکی اور اسرائیلی فورسز ہائی الرٹ تھیں۔
اس حملے کے اگلے ہی روز اسرائیلی فوج نے اس حوالے سے اعتراف بھی کر لیا تھا۔
اسرائیلی فوج نے امریکی میڈیا کو بتایا تھا کہ غیر ملکی رپورٹس پر تبصرہ نہیں کرتے تاہم فوجی ترجمان نے کہا تھا کہ اسرائیل کا خیال ہے کہ نشانہ بنائی گئی عمارت ایران کی القدس بریگیڈز کی تھی۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہماری انٹیلی جنس کے مطابق یہ کوئی قونصل خانہ اور کوئی سفارت خانہ نہیں ہے، یہ دمشق میں ایک شہری عمارت کے بھیس میں القدس بریگیڈز کی ایک فوجی عمارت تھی۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق 4 نامعلوم اسرائیلی اہلکاروں نے اعتراف کیا تھا کہ یہ حملہ اسرائیل نے کیا تھا تاہم امریکی نیوز چینل سی این این نے امریکی اخبار کی رپورٹ کی تصدیق نہیں کی تھی۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر اسرائیلی حملےکی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر حملے کا جواب دیا جائے گا۔
اس حوالے سے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا تھا کہ اسرائیل جان لے ایسے غیر انسانی اقدامات سے مذموم مقاصد حاصل نہیں کر سکے گا۔
علاوہ ازیں ایران کے وزیرِ خارجہ امیرعبدالہیان نے کہا تھا کہ حملے کا ذمے دار اسرائیل ہے، حملے پر نتائج کی ذمے داری اسرائیل پر ہو گی۔
ایرانی وزیرِ خارجہ امیرعبدالہیان کا کہنا تھا کہ دانش مندی کے ساتھ وقت پر جواب دیا جائے گا۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللّٰہ خامنہ ای نے بھی اسرائیل کو ایک سے زائد مرتبہ دھمکی دی تھی۔
آیت اللّٰہ خامنہ ای نے نمازِ عید پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ شیطانی حکومت اسرائیل نے ایرانی سفارت خانے پر حملہ کر کے غلطی کی، اس کی اسرائیل کو سزا ضرور ملنی چاہیے اور ملے گی۔