غیر مساوی تقسیم دولت نے وطن عزیز کو معاشی اور سماجی طور پر جس مقام پر لاکھڑا کیا ہے، اس کی ایک جھلک عالمی بینک کی تازہ ترین رپورٹ میں دیکھنے کو ملتی ہے جس میں پاکستان کو اخراجات زندگی کے مسلسل بحران سے دوچار ملک قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں غذائی عدم تحفظ بڑھ گیا ہے جبکہ تعلیم و صحت کی خدمات تک فراہمی میں کمی واقع ہوئی ہے۔سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے 43اضلاع میں شدید غذائی عدم تحفظ 29سے بڑھ کر 32 فیصد پر پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات میں اضافے سے اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جبکہ یہ تعداد اس وقت ڈھائی کروڑ ہے۔ 2022سے اب تک شدید بارشوں اور سیلابوں کے باعث متاثرہ علاقوں میں معمولات زندگی تاحال بحال نہیں ہوسکے نیز مہنگائی کی نہ رکنے والی لہر غریب اور عام آدمی کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔عالمی بینک کی یہ رپورٹ ایوان اقتدار اور مراعات یافتہ طبقے کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ملکی آبادی جو 25 کروڑ نفوس تک پہنچ رہی ہے اور جس کا 65 فیصد سے زیادہ حصہ نوجوان نسل پر مشتمل ہے ،اس کے ہاتھوں میں کل ملک کی باگ ڈور ہوگی، فی الحال اس کی اکثریت بیکاری کا چلتا پھرتا نمونہ بنی ہوئی ہے، تاہم قابل عمل منصوبہ بندی سے اسے فعال بنانا عین ممکن ہے۔ ملک میں قدرتی وسائل کی کمی نہیں اور یہ ایک محنتی قوم ہے اور مناسب توجہ دیتے ہوئے اسے ترقی یافتہ ملکوں کے برابر لانے میں کوئی امر مانع نہیں۔ یہ ذمہ داریاں ہمیشہ حکومت وقت پر عائد ہوا کرتی ہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں اور کلیدی طبقوں کو بھی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے حالات سنوارنے میں حکومت کا ساتھ دینا چاہئے اور سیاسی کشیدگی کے بجائے افہام و تفہیم کے ساتھ سب کو قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998