(گزشتہ سے پیوستہ)
گزشتہ کالم میں بات یہاں چھوڑی تھی کہ پنجاب کی اس ممتاز سیاسی شخصیت کی یہ بات سنتے ہی بیگم نصرت بھٹو بہت خوش ہوئیں‘ خوشی سے ان کی آنکھوں میںآنسو آگئے۔ انہوں نے اس سیاسی شخصیت کا بہت شکریہ ادا کیا اور کہنے لگیں کہ وہ دوسرے ہی دن اسلام آباد جارہی ہیں اور راولپنڈی جیل میں بھٹو صاحب سے ملاقات کرکے انہیں اس ڈولپمنٹ سے آگاہ کریں گی‘ انہوں نے امید ظاہر کی کہ بھٹو صاحب اس کا مثبت رسپانس دیں گے ‘ اس کے بعد بیگم صاحبہ وہاں سے رخصت ہوکر 70 کلفٹن چلی گئیں اور دوسرے دن اسلام آباد روانہ ہوگئیں جہاں وہ پنڈی جیل گئیں اور بھٹو صاحب سے مل کر انہیں اس ڈولپمنٹ سے آگاہ کیا مگر بھٹو صاحب کا ردعمل یہ تھا کہ وہ اس طرح اپنی جان بچانے کے لئے ملک نہیں چھوڑ سکتے۔ انہیں پھانسی قبول ہے مگروہ ملک سے بھاگنے کے لئے تیار نہیں‘ جیل سے رہائی کے لئے بھٹو صاحب کے لئے یہ پہلی اور آخری آفر نہیں تھی‘ بھٹو صاحب کو ایسی اور بھی آفرز ہوئیں مگر بھٹو اس طرح پھانسی سے بچنے اور رہا ہونے کے لئے تیار نہیں تھے۔ بھٹو صاحب کو اس سلسلے میں ایک آفر عرب دنیا کے انقلابی رہنما یاسر عرفات کی طرف سے بھی ہوئی‘اس پیغام کے جواب میں بھٹو صاحب نے دل کی گہرائیوں سے یاسر عرفات کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پنڈی کے پھانسی گھاٹ میں بیٹھ کر پاکستان کی مارشل لا حکومت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں چاہے انہیں پھانسی دیدی جائے۔ بھٹو صاحب بہت دلیر تھے اور انہوں نے ہر مرحلے پر مارشل لا حکومت کا انتہائی دلیری سے مقابلہ کیا اور گھبرائے نہیں‘ یہ اس دور کی بات ہے جب انتخابات ہورہے تھے‘ بھٹو ابھی اقتدار میں نہیں آئے تھے‘ ان کی پارٹی بڑی تیاری کے ساتھ ان انتخابات میں حصہ لے رہی تھی‘ ایک دن ان کی پارٹی نے سانگھڑ میں جلسہ عام کا اہتمام کیا جس سے بھٹو صاحب نے خطاب کرنا تھا‘ اس جلسہ عام میں شرکت کرنے کے لئے سندھ کے مختلف اضلاع سے پی پی کے جلوس آرہے تھے‘ خود بھٹو صاحب ایک کار میں ہالا سے سانگھڑ کے لئے نکلے‘ ان کے ساتھ سندھ کی ایک ممتاز شخصیت مخدوم محمد زمان طالب المولیٰ جو پی پی کے وائس چیئرمین اور میر رسول بخش تالپور جو پی پی سندھ کے صدر تھے، بھی ساتھ تھے۔ سانگھڑ ضلع شروع سے پیر پگارا کے اثر میں تھا‘ بھٹو صاحب کی کار سب سے آگے تھی اور پیچھے کاروں کا ایک بڑا جلوس تھا جس میں مختلف علاقوں سے آئے ہوئے پی پی کے رہنما اور کارکن شامل تھے جو سارا راستہ زور زور سے بھٹو کے نعرے لگاتے ہوئے آرہے تھے‘ اس بڑے جلوس میں کراچی سے آیا ہوا ایک جلوس بھی تھا جس کی قیادت پی پی کے انقلابی رہنما معراج محمد خان کررہے تھے‘ بھٹو کی قیادت میں یہ جلوس اب ایک ایسے علاقے سے گزر رہا تھا جہاں پیر پگارا کے مرید حروں کا زور تھا‘ یہ جلوس جب ایک خاص علاقے سے گزرا تو درختوں پر چڑھے ہوئے حروں کی طرف سے گولیوں کی بارش ہوئی‘ بھٹو نے اپنی کار رکوائی اور کار سے باہر آکر جن درختوں پر سے فائرنگ ہورہی تھی ان کے نزدیک پہنچ کر زور دار آواز میں بولنے لگے کہ بھٹو میں ہوں‘ گولیاں میرے کارکنوں پر کیوں چلا رہے ہو‘ یہ سن کر گولیاں بھٹو صاحب پر برسنے لگیں مگر اس سے پہلے ہی کاروں سے بڑے پیمانے پر پی پی کار کن اتر چکے تھے اور بھٹو صاحب کی طرف دوڑے او ر کارکنوں نے بھٹو صاحب کو زبردستی نیچے لٹا کر ان پر دائرہ بنالیا‘ اسی دوران بھٹو کی طر ف چلائی گئی گولیاں ان کارکنوں کو لگیں جن سے کچھ کارکن زخمی ہوگئے اور بعد میں ان میں سے ایک انتقال کرگیا‘ اس دور میں پی پی کا سندھی ترجمان اخبار ہلال پاکستان حیدرآباد سے شائع ہوتا تھا دوسرے دن اس اخبار میں مخدوم محمد زمان طالب المولیٰ جو سندھ کے ایک ممتاز شاعر بھی تھے کا ایک قطعہ شائع ہوا جس میں مخدوم صاحب نے کہا کہ ’’یہ سنتے تھے کہ فلاں شخص شیر کا بیٹا ہے جبکہ شیر کا باپ انہوں نے پہلی بار دیکھا ہے۔‘‘ ان کا یہ اشارہ بھٹو صاحب کی طرف تھا۔ یہ قطعہ سندھ میں بہت مقبول ہوا‘ بھٹو صاحب نے وزیر اعظم کی حیثیت میں پاکستان کیلئے جو خدمات انجام دیں وہ پاکستان کی تاریخ کا ایسا حصہ ہیں جن کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ مشرقی پاکستان کے ایشو پر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جو جنگ ہوئی اس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان تو ملک سے الگ ہوگیا اور بنگلا دیش بن گیا‘ اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان کے 90 ہزار لوگ جن میں پاکستان کی فوج کے افسران و سپاہی اور ساتھ ہی شہریوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی جو ہندوستان کے جنگی قیدی تھے۔ علاوہ ازیں پاکستان کا ایک وسیع علاقہ بھی ہندوستان کی تحویل میں آچکا تھا اس دوران پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ہندوستان کی حکومت سے اس ایشو پر بات چیت کرنے کے لئے ہندوستان گئے اس وقت ہندوستان کی وزیر اعظم اندرا گاندھی تھیں‘ ان مذاکرات میں بھٹو اور اندرا گاندھی کے درمیان بات چیت ہوئی یہ مذاکرات پاکستان اور ہندوستان کی تاریخ کے منفرد مذاکرات ثابت ہوئے ۔(جاری ہے)