اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماجی رابطے کی سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کی بندش پردائر کی گئی درخواست میں وفاقی وزارت داخلہ نے مفصل رپورٹ جمع کراتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ پاکستان میں ٹوئٹر پر پابندی کا براہ راست تعلق ملکی سلامتی اور امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے سے ہے، ٹویٹر پر شدت پسندانہ نظریات اور گمراہ کْن معلومات کی نشرواشاعت کو فروغ دیا جارہا ہے، سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں ہے اور نہ ہی اسکا کوئی مقامی نمائندہ دفتر یہاں قائم ہے، ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے ٹوئٹر حکام سے پروپیگنڈا کرنے والے اکاؤنٹس پر پابندی کی درخواست کی تھی لیکن ایکس کی جانب سے جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا گیا، ٹوئٹر انتظامیہ کی جانب سے عدم تعاون کے بعد حکومت پاکستان کے پاس سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر عارضی پابندی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ بلاشبہ آج اکیسویں صدی میں پاکستان کی نظریاتی اساس کو سب سے سنگین چیلنج سوشل میڈیا کی صورت میں درپیش ہے،میں سمجھتا ہوں کہ وزارت داخلہ نے اپنی رپورٹ میں زمینی حقائق کی درست نشاندہی کی ہے، اگر ہمارے سیکورٹی اداروں کی جانب سے بروقت ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے جاتے تو آزادی اظہاررائے کی آڑ میں الیکشن کے موقع پر بہت زیادہ دنگا فساد ہونے کے خدشات پائے جاتے تھے۔ میں نے آج سے دس سال قبل 2014ء میں غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی کے روبرو پیش ہوکر آگاہ کیا تھاکہ پاکستان میں امن و امان کا ماحول برقرار رکھنے کیلئے نفرت آمیز مواد کی تشہیر پر پابندی ضروری ہے،سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے قومی ایکشن پلان تیار کیا گیا تو میں نے سوشل میڈیا پر مذہبی تعصب کی بنیاد پر نفرت آ?میز مواد کی روک تھام کا مطالبہ کیا۔ میں نے اپنے ہفتہ وار کالم بتاریخ یکم جون 2017ء میں تفصیلاََ اپنا تجزیہ پیش کیاکہ سوشل میڈیا کی شکل میں شرپسند عناصر کو ایک ایسامہلک ہتھیار میسر آگیا ہے جسکا نشانہ ہر وہ انسان بن رہا ہے جو انکے نظریات سے اختلاف رکھتا ہو، عالمی میڈیا میں ایسی رپورٹس تواتر سے شائع ہورہی ہیں کہ سوشل میڈیا اور نفرت پر مبنی جرائم کا براہ راست تعلق ہے، یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری کی طرف سے انٹرنیٹ پرمنفی نظریات کی روک تھام کیلئے فیس بک، یوٹیوب اور ٹوئٹر انتظامیہ پر دباؤ میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔میں نے سات سال قبل تجویز پیش کی تھی کہ پاکستان میں سوشل میڈیاکے استعمال کو موبائل فون سم کارڈزسے منسلک کیا جائے،اسی طرح حکومت کو تمام نیوز ویب سائٹ مالکان اور بلاگرزپر لازم کرنا چاہیے کہ وہ اپنا رابطہ تفصیلات ویب سائٹ پر عام کریں ،تمام میڈیا اداروں میں ایڈیٹر اور فیکٹ چیک کومستحکم کیا جائے۔میں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا تھا کہ سوشل میڈیا اداروں کے پاکستان میں دفاتر کی عدم موجودگی میں صورتحال پیچیدہ ہوسکتی ہے اور مطلوبہ نتائج کے حصول میں دشواری سے انتشاری قوتوں کے حوصلے بلند ہونے کا خدشہ ہے۔آج اس حقیقت سے کوئی انکاری نہیں ہوسکتا کہ پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کو منظم انداز میں مخالفین کے خلاف نفرتوں کے پرچار کیلئے استعمال کیا جارہا ہے اورپاکستانی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر افسوسناک حد تک نازیبا زبان کا استعمال بڑھتا جارہا ہے، ایسی نازک صورتحال میں حکومت کے پاس ٹویٹر پر پابندی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بشانہ آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمیں عالمی ممالک کا جائزہ لینا ہوگا کہ وہ اپنے معاشرے میں سوشل میڈیا کا ذمہ دارانہ استعمال کیسے یقینی بنارہے ہیں؟ میں نے گزشتہ ماہ21 مارچ کو شائع اپنے کالم میں تذکرہ کیا تھا کہ آزادی اظہار رائے کے علمبردار مغربی ملک کینیڈا کی پارلیمنٹ میں آن لائن ہارم ایکٹ متعارف کرایا گیا ہے جسکے تحت انٹرنیٹ پرسوشل میڈیا مواد کے ذریعے شدت پسندی اور متشددانہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے ڈیجیٹل سیفٹی کمیشن آف کینیڈا قائم کیا جارہا ہے۔ اسی طرح جنوبی کوریا، چین سمیت مختلف ممالک میں انٹرنیٹ کے استعمال کیلئے اصلی شناخت فراہم کرنا لازمی ہے، چین میں شہریوں کی انٹرنیٹ پر حفاظت کیلئے گریٹ فائروال آف چائنہ فعال ہے جسکے تحت کسی بیرونی قوت یا مقامی سہولت کار کی مجال نہیں کہ وہ ملکی سلامتی کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکے ، جاپان میں گزشتہ برس حکومتی وزیر کی طرف سے انٹرنیٹ سروسز کیلئے بذریعہ موبائل فون سم کارڈ تصدیقی عمل متعارف کرانے کی تجویز منظرعام پر آئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میںپہلے مرحلے میں ہر قسم کی انٹرنیٹ سروس کی فراہمی کو موبائل نمبر ویری فکیشن کوڈ سے مشروط کیا جائے ،جب ایک صارف کو پتا ہوگا کہ انٹر نیٹ استعمال کرتے وقت بائیومیٹرک تصدیق شدہ موبائل نمبرحکومتی اداروں کے پاس ہے تووہ خودبخود اپنے آپ کو قانون کے دائرے میں محسوس کرتے ہوئے دہشت گردی ودیگرسماج دشمن منفی سرگرمیوں سے باز رہے گا، اگلے مرحلے میں سوشل میڈیا اداروں کو پاکستان میں اپنے دفاتر قائم کرنے کیلئے قائل کیا جائے ، اردو اور دیگر مقامی زبانوں میں بیرون ممالک سے چلنے والی گمنام ویب سائٹس کو اپنی شناخت عیاں نہ کرنے پر بلاک کردیا جائے اور پاکستان مخالف پروپیگنڈا میں ملوث غیرملکی ویب سائٹس کے خلاف سفارتی سطح پر ایکشن لیا جائے۔ میں اپنا یہ موقف پھر دہرانا چاہوں گا کہ جب دنیا بھرکے معاشرے آزادی اظہار رائے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے قواعدو ضوابط کا تعین کررہے ہیں تو حکومتِ پاکستان کی سوشل میڈیا کا ذمہ دارانہ استعمال یقینی بنانے کیلئے کی جانے والی کاوشوں کو کامیاب بنانا معاشرے کے تمام طبقات کی قومی ذمہ داری ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)