طبیعت ناساز ہونے کے باوجود مَیں نے قوم کے مقدر کے ستارے کو ایک نئی شان سے طلوع ہوتے دیکھا ہے۔ دو برادر مسلم ملکوں سعودی عرب اور اِیران کی اعلیٰ قیادتیں حال ہی میں پاکستان کے دورے پر آئیں اور اُنہوں نے مسائل میں گِھرے ہوئے دوست کے ساتھ تعاون بڑھانے اور اِس کی معیشت میں استحکام پیدا کرنے کیلئے مفاہمت کی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، تو ہم پر لازم آتا ہے کہ اِن جذبوں کا خیرمقدم کریں اور اُبھرنے والے پائیدار مواقع کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھائیں۔ یہ بھی کھلی آنکھوں سے دیکھیں کہ اِن اعلانات اوراِقدامات کو ناکام بنانےکیلئے کون کون سی طاقتیں گھات لگائے بیٹھی ہیں۔
آٹھ برس بعد ہمارے ہاں ایران کے صدر آیت اللہ ڈاکٹر ابراہیم رئیسی ایسے وقت پاکستان تشریف لائے جب اسرائیل-ایران تنازع مسلمانوں کیلئے بڑی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اہلِ پاکستان اِس امر پر بہت خوش ہیں کہ ایران نے اسرائیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور اُس کے دفاعی نظام کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا بھرم کھول ڈالا ہے اور اِسرائیل کا ناجائز وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔ وہ غزہ میں فلسطینیوں پر وحشیانہ مظالم ڈھا رہا ہے۔ اِن کے خلاف امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں بڑے بڑے عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں جن میں عیسائی اور یہودی بڑی تعداد میں حصّہ لے رہے ہیں۔ ایران کے جرأت مندانہ اقدام پر پاکستان کے خواص و عوام نے ایرانی صدر کا پُرجوش خیرمقدم کیا ہے۔ عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف غیرمعمولی ردِعمل سے یہ اُمید پیدا ہوئی ہے کہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کو حقیقی آزادی ملنے والی ہے، کیونکہ تاریخ میں حقِ خودارادیت کیلئے جدوجہد کرنے والی تحریکیں بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوتی رہی ہیں۔
مَیں اِس موقع پر ایران کے حوالے سے اپنا ایک چشم کشا مشاہدہ رقم کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
یہ غالباً جولائی 1979ء کا ذکر ہے کہ مجھے امریکہ میں پاکستانیوں کی ایک انجمن کی طرف سے امریکہ آنے اور مختلف امریکی یونیورسٹیوں میں پاکستان کے یومِ آزادی کے حوالے سے لیکچر دینے کی دعوت موصول ہوئی۔ مَیں نے ہامی بھر لی، چنانچہ مَیں ایک مہینے کیلئے امریکہ چلا گیا۔ میرا آخری لیکچر ڈیٹرائیٹ (Detroit) یونیورسٹی میں تھا جہاں مسلم طلبہ کی تعداد قابلِ ذکر تھی۔ پروگرام کے اختتام پر ایک نوجوان طالبِ علم میرے قریب آیا جو اِیرانی معلوم ہوتا تھا۔ اُس نے کہا کہ ہم آپ سے ایک علیحدہ نشست رکھنا چاہتے ہیں۔ مَیں بخوشی راضی ہو گیا۔ ہم ایک بڑے کمرے میں جمع ہوئے۔ یہ طلبہ حکومت کی اسکالرشپ پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے آئے تھے، مگر وہ شاہ اِیران کے سخت خلاف تھے۔ اُنہوں نے تفصیل سے بتایا کہ وہاں لادینی قوتیں حکومت کی پشت پناہی سے مذہبی شعائر کا مذاق اڑاتی اور دِین کا نقش مٹا دینا چاہتی ہیں۔ فحاشی اور عریانی عام ہے۔ اِس کے علاوہ طبقاتی فاصلے تشویش ناک حد تک بڑھتے جا رہے ہیں۔ آخر میں اُنہوں نے کہا کہ آپ جلد سے جلد ایران جائیں اور مسلم اُمہ کو حقائق سے باخبر کریں۔ مَیں نے اُسی وقت ایران جانے کا فیصلہ کر لیا اور اُن کے ساتھ ضروری نوٹس کا تبادلہ کیا اور دو روز بعد تہران روانہ ہو گیا۔
ایران میں میرے دوست موجود تھے۔ مَیں ستمبر کے آغاز میں ایران پہنچا اور بڑے بڑے شہروں میں حالات کا جائزہ لینے چل نکلا۔ مشہد حکومت مخالف تحریک کا مرکز تھا۔ وہاں کے احتجاجی مظاہروں میں خواتین اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ شریک ہو رہی تھیں۔ عوام میں جوش و خروش کا عالم قابلِ دید تھا۔ لوگ ٹینکوں کے آگے لیٹ جاتے تھے۔ پولیس اور فوج کو پسپائی پر مجبور کر دیا گیا۔ ایران کے ایک اہم شہر اصفہان میں داخل ہوا۔ اُس کی عالیشان مسجد جو کبھی صرف مہمانوں کیلئے کھولی جاتی تھی، اب اُس میں ہزاروں خواتین سیاہ چادروں میں ملبوس نماز ادا کر رہی تھیں۔ بہت بڑا اِنقلاب آ چکا تھا۔ ہفتے بھر کے تحقیقاتی سفر کے بعد مَیں نے اپنے سفیر سے ملاقات کرنا چاہی۔ وہ ’اُردو ڈائجسٹ‘ اور ہفت روزہ ’زندگی‘ کے ذریعے میری تحریروں سے واقف تھے۔ اُنہوں نے اگلی سہ پہر کا وقت عنایت فرما دیا۔ اُس روز وہ شاہی محل سے ہو کر آئے تھے جہاں شہنشاۂ اِیران کی صحت یابی کا جشن منایا گیا تھا۔ مجھے اپنے ذرائع سے معلوم ہو گیا تھا کہ جنرل ضیاء الحق 21 ستمبر سے ایران کا دورہ کرنے والے ہیں۔ پاکستانی سفیر ایک نہایت وضع دار اِنسان تھے۔ مَیں نے اُن سے ایران کے تازہ ترین حالات کے بارے میں پوچھا،تو اُنہوں نے غیرمعمولی اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اُس جشن کا آنکھوں دیکھا حال نہایت دکھ زدہ لہجے میں بیان کیا۔ مَیں نے اُنہیں بتایا کہ مَیں مشہد اور اِصفہان میں جو کچھ دیکھ کر آیا ہوں، اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب شہنشاہ اِیران کا چل چلاؤ ہے۔ اِس پر اُنہوں نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور فرمایا دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ مَیں نے اُن سے درخواست کی کہ اِن حالات میں صدرِ پاکستان کا دورہ بہت نقصان دہ ثابت ہو گا، آپ اِسے منسوخ کروانے کی پوری کوشش کیجیے۔
اُسی لمحے اُن کا اردلی آیا۔ وہ اُٹھ کر چلے گئے اور ٹیلی فون پر بات کرنے لگے۔ شاید عجلت میں ایک دروازہ کھلا رہ گیا جس سے اُن کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ وہ جنرل ضیاء الحق سے باتیں کرتے ہوئے ایران کے حالات کا سحر انگیز نقشہ کھینچ رہے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ آپ کا دورہ اِس موقع پر بہت مفید ثابت ہو گا۔ جنرل ضیاء الحق آئے اور اُس روز حکومت نے جنوبی تہران کی ایک وسیع مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے والوں پر اندھادھند گولی چلا دی جس سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ شہید ہو گئے۔ ایرانی عوام کے اندر یہ خیال جاںگزین ہوتا گیا کہ جنرل ضیاء الحق کے مشورے پر یہ قتلِ عام ہوا ہے، کیونکہ ایک ایسا ہی واقعہ اردن میں بریگیڈئیر ضیاء الحق کی موجودگی میں پی ایل او کے ارکان کی بڑی تعداد میں قتلِ عام کی صورت میں پیش آ چکا تھا۔ اِس غلط بات کے پھیل جانے سے ایران میں اسلامی انقلاب آنے کے بعد پاکستان اور اِیران کے تعلقات عشروں تک شمشیر کی دھار پر لہولہان ہوتے رہے۔ اِس بنا پر آنکھیں اور کان کھلے رکھنا ازبس ضروری ہے۔