شیخ محمد انور
مزدور کہنے کو تو ایک محنت کش اور غریب طبقہ سمجھا جاتا ہے لیکن اگر اس کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے تو یہ بہت ہی قابل احترام ہے۔ یہ اپنی دن رات کی محنت سے وہ کارنامے انجام دیتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ تو اس کے حقوق ادا کیے جاتے ہیں اور نہ ہی اس کی محنت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ محنت کش افراد گھروں اور عمارتوں کو حسین اور خوبصورت بنا کر ملک اور شہر کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں۔ کھیتوں اور کھلیانوں میں اپنے خون پسینے کی محنت سے وہ غلہ اور اناج تیار کرتے ہیں جو ہماری صحت کا ضامن بنتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں مزدوروں کی مراعات اور سہولیات کا کوئی خیال نہیں کیا جاتا یہاں تک کہ مزدوروں کے عالمی دن پر جو خاص ان کیلئے سال میں ایک بار آتا ہے اس پر بھی یہ غریب مزدور چھٹی نہیں کرتا۔ اپنے اور گھر والوں کا پیٹ پالنے کیلئے نہ سردی، نہ گرمی، نہ بارش،نہ دھوپ کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتا یہاں تک کہ آرام کی پرواہ بھی نہیں کرتا اور آخری سانس تک محنت کش مزدور ہی رہتا ہے جس کے نتیجے میں اس کا دامن ہمیشہ خالی ہی رہتا ہے۔
نہیں مزدوروں کے حقوق پر پروگرام کرنے اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں سیمینار کرنے والے مزدور کے روز و شب سے واقف نہیں ہوتے اور اس دن مزدوروں کے حق میں لمبی لمبی تقاریر کرنے آتے ہیں لیکن صرف تقریروں سے مزدوروں کا پیٹ نہیں بھرسکتا۔ تقاریر میں حکومتی سطح پر مزدوروں سے بہت سے وعدے کیے جاتے ہیں لیکن اگلے سال یکم مئی کو مزدوروں کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہوجاتی ہے۔
ان سیمیناروں میں اگر کبھی جانے کا اتفاق ہو تو غور کیجیے گا کہ ان تقریبات میں آپ کو وہ حضرات نظر ہی نہیں آئیں گے جن کیلئے یہ تقریبات منعقد کی گئی ہوں۔ کیونکہ وہ مزدور ہیں اور انہیں کسی نے دعوت ہی نہیں دی۔ اگر انہیں دعوت دی بھی گئی ہو تو پھر بھی وہ تقریب میں شامل نہیں ہوسکیں گے کیونکہ وہ تو مزدور ہے اور اُسے پتہ ہے کہ اگر آج کام نہ کیا تو گھر خالی ہاتھ لوٹنا پڑے گا۔ آپ خود اندازہ کرلیں کہ ہم موجودہ دور میں کتنے نازک مراحل سے گزر رہے ہیں۔
دنیا کے تقریباً 80 ممالک میں آج یکم مئی لیبر ڈے کے طور پر منایاجارہاہے۔ لیکن کبھی کسی نے غور نہیں کیا کہ نابالغ بچوں سے جو محنت مزدوری کروائی جاتی ہے وہ کس زمرے میں آتی ہے اور نہ ہی کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہمارے ملک میں موجود کتنے ہی بچے محنت مزدوری کرکے اپنا گزر بسر کررہے ہیں۔ نہ جانے کتنے ہی معصوم بچے ہیں جن کے نرم اور نازک ہاتھوں میں کتابیں کھلونوں کی جگہ اینٹ اور سیمنٹ جیسی چیزیں ہوتی ہیں۔
کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ یہ چھوٹے چھوٹے بچے جنہیں میں اور آپ چھوٹا کہتے ہیں یہ اپنے گھر کے بڑے ہوتے ہیں۔ ان کا دل بھی کرتا ہے کہ ہم اچھا لباس پہنیں، اچھا کھانا کھائیں، خوشی سے رہیں، پڑھائی لکھائی کریں، کھیلا کودا کریں مگر وقت انہیں ان کے بچپن سے کھینچ کر بڑا ہونے پر مجبور کردیتا ہے۔
آج کے دن پاکستان اور دنیا کے دوسرے ممالک کے مزدور ’’یوم مئی‘‘ کے موقع پر شکاگو کے محنت کش رہنمائوں اور ان کے ہزاروں جانشینوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے 1886ء میں دنیا کے مختلف ممالک کی مزدور تحریکوں میں انسانیت کی بقاء کیلئے اپنی جانیں قربان کردیں۔ امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں سے تقریباً سولہ گھنٹے کام لیا جاتا تھا اور انہیں اجرت بھی بہت کم دی جاتی تھی اور صنعتوں کے مالکان اسی کشمکش میں لگے رہتے تھے کہ مزدور اپنے حق کیلئے آواز بلند نہ کریں۔
اگر کوئی مزدور باقی مزدوروں میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کرتا تو اسے نوکری سے نکال دیا جاتا تھا ۔ لیکن چاہے انسان جتنا بھی ظلم کرلے ایک نہ ایک دن حق غالب آہی جاتا ہے۔ صنعتوں کے مالکان کے خلاف مزدوروں نے تنظیم بنالی اور مطالبہ کیا کہ وہ لوگ 8گھنٹے کام کریں گے۔ اس مطالبے کے اگلے ہی دن کئی مزدوروں کو گرفتار کرلیا گیا اور اُن پر مقدمات درج کردئیے گئے۔ کئی مزدور لیڈروں کو پھانسی اور قید کی سزائیں ہوئیں لیکن آخر کار یہ تحریک زور پکڑتی گئی، ملازمین کی قربانیوں اور ہڑتالوں کی وجہ سے مزدوروں کا مطالبہ مان لیا گیا اور اب کوئی بھی مزدور 8گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کرتا۔
یکم مئی محنت کشوں کی فتح کا دن ہے۔ شکاگو کے محنت کشوں نے محنت کی عظمت کا لازوال نقش قائم کیا۔ اس دن سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور حکومت نے مزدوروں کی تحریک کو کچلنے کیلئے ان نہتوں پر بے دریغ طاقت کا استعمال کیا اور نہتے مزدوروں پر گولیاں برسادیں۔ مزدور حقوق کے حصول کیلئے مزدوروں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔
بے شمار مزدور موقع پر جاں بحق ہوگئے، بے شمار مزدوروں کو سولی پر لٹکا دیا گیا۔ امریکہ کے شہر شکاگو کی سڑکیں خون سے سرخ ہوگئیں اور بالآخر ان قربانیوں کے نتیجے میں صنعت کاروں اور حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور 1886ء میں بیس گھنٹے مشقت کی بجائے آٹھ گھنٹے ڈیوٹی لینے کا حکم جاری ہوا۔
اس طرح یوم مئی دنیا بھر میں محنت کشوں کا عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شکاگو کے محنت کشوں نے مزدوروں کے حقوق کیلئے بہت بڑی قربانی دی اور مزدوروں پر ہونے والے ظلم استحصال کو ختم کرنے کی نوید سنائی۔ مزدوروں کے کام کے اوقات کو آٹھ گھنٹوں میں متعین کروایا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کیونکہ کسی استحصالی ریاست یا حکومت کے خلاف لڑنا کوئی آسان کام نہیں۔
’’یوم مئی‘‘ کے دن مزدوروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا مگر اس واقعہ کے ڈیڑھ صدی گزر جانے کے بعد بھی پاکستان کے محنت کشوں کا طبقاتی نظام پر احسان بھی کچھ کم نہیں جو انتہائی کم اجرتوں پر مہنگائی سے لڑتے لڑتے روز جیتے اور روز مرتے ہیں، موجودہ دور میں مزدور کو صرف بیروزگاری، غربت اور مہنگائی کا سامنا نہیں بلکہ گیس اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہزاروں صنعتیں بند اور لاکھوں محنت کش بے روز گار ہوگئے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اسلام نے آج سے 1400 سال پہلے مزدور کے حقوق متعین کردئیے تھےلیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اسلام کے ماننے والے معاشرے اور ممالک میں ہی مزدوروں کو ان کے بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں۔
پاکستان میں مزدور کی جو حالت ہے اُسے صرف مزدور ہی سمجھ سکتا ہے۔ ہر سال یکم مئی کے موقع پر مزدوروں کے حقوق کے بارے میں پروگرام ہوتے ہیں، اس دن حکمران مزدوروں کیلئے کچھ اعلانات کرتے ہیں، لیکن مزدوروں کے حالات نہیں بدلتے۔ آج تک ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ آج نجکاری، چھانٹیاں اور برطرفیاں عام ہو چکی ہیں، تنخواہوں میں تاخیر، ریٹائر ملازمین اور بیوائوں کے واجبات کی ادائیگی میں تاخیر، ریٹائرملازمین اور بیوائوں کی پینشن میں تاخیر معمول بن چکی ہے۔
مزدور یونینوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی وجہ سے آج پاکستان میں مزدور تحریک بحران کا شکار ہے۔ پاکستان ریلوے جیسے سب سے بڑے ادارے میں انتظامیہ اور حکومت ریفرینڈم سے مسلسل گریز کیے ہوئے ہے۔ اس ادارے میں آج بھی مزدور 16گھنٹے اور بعض اسٹیشنوں پر 24گھنٹے ڈیوٹی کرنے پر مجبور ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریلوے میں ہزاروں آسامیاں خالی ہیں اور اُن کی جگہ بھرتیاں نہیں کی جارہیں۔ ملازمین کی بے شمار کمی ہے اس وجہ سے لوگوں کو مجبوراً 24 سے 48گھنٹے ڈیوٹی کرنی پڑتی ہے۔
مہنگائی کے اس دور میں ایک مزدور اتنی کم آمدنی میں اپنے بیوی بچوں کو کیسے پالتا ہے؟ مہنگائی کی رفتار اس قدر بڑھ رہی ہے کہ متوسط اور متمول طبقات کیلئے بھی مہینے بھر کے اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں رہا۔ کئی ایسے مزدور بھی ہیں جو یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں اور ان کے حالات عام مزدوروں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ انہیں کبھی کام ملتا ہے اور کبھی پورا دن انتظار کے بعد بھی خالی ہاتھ اپنے گھر واپس لوٹنا پڑتا ہے۔
مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پرحکمرانوں کو چاہیے کہ وہ پاکستان میں محنت کشوں کے حالات کار بہتر بنانے میں صرف بیانات جاری کرنے کی بجائے سنجیدگی سے کام کریں۔ تاکہ محنت کش طبقہ بھی سکون کی زندگی بسر کر سکے۔