وہ لاؤنج کی کرسی پر بیٹھی جُھول رہی تھیں، جب اُن کے بیٹے کی آواز اُن کے کانوں میں پڑی۔ ’’مقدسہ! مَیں شادی سے پہلے ہی تم پر یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہم جہاں بھی رہیں گے، ماما ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی۔ میرے سوا اُن کا اِس دنیا میں کوئی نہیں۔ اور میں اُن کے بغیر کہیں رہنے، جینے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔‘‘ وہ موبائل فون کان سے لگائے اپنی ہونے والی شریکِ حیات، مقدسہ سے دوٹوک بات کررہا تھا۔ ’’مجھے شادی سے پہلے تم سے اور کسی بات کی شیوریٹی نہیں چاہیے۔ میری بس یہی ایک ڈیمانڈ اور توقع ہے اور مجھے یقین ہے کہ تمھیں بھی اِس بات پر ہرگز کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔‘‘ وہ بیٹے کی بات سُن کر مُسکرا دیں۔
……٭٭٭٭٭٭……
’’امّاں جی! مُراد کا فون ہے، بات کرلیں اُس سے۔‘‘ اویس نے اپنا موبائل فون اُن کی طرف بڑھایا۔ امّاں جی نے موبائل تھام کر کان سے لگا لیا۔ ’’مَیں ٹھیک ہوں پُتر…تم سنائو…مہینا ہوگیا تمھیں پاکستان آئے ہوئے، چاچی کو صرف فون پر بات کر کر کے ٹالے جا رہے ہو۔‘‘ امّاں جی نے نرم سے لہجے میں شکوہ کیا، تو دوسری طرف مُراد قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔ ’’نہیں، نہیں چاچی جی، مَیں بس اپنے دونوں گھروں کے فروخت کے سلسلے میں مصروف تھا۔ آج ہی فارغ ہوا ہوں، سارےمعاملات نمٹا شمٹا کے، بس، اب اگلے ہفتے تک آپ سے ملنے آؤں گا۔‘‘ مُراد نے چاچی جی کو تسلی دی۔ ’’پُتر! اتنے سال ہوگئے، بھابھی کو امریکا گئے ہوئے، کبھی اُنھیں بھی پاکستان کاچکر لگوا دو۔
اُنھیں پاکستان کی یاد نہیں آتی کیا…؟‘‘ امّاں جی کا دل اکثر ہی اپنی جیٹھانی کےلیے بہت اُداس ہوجاتا تھا۔ شروع شروع میں تو دونوں فون پر ایک دوسرے سے بڑی لمبی لمبی باتیں کیا کرتی تھیں، مگر پچھلے کچھ سالوں سے تو اُن کا سب کے ساتھ ہی رابطہ جیسے نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔ ’’جی، چاچی جی… بس اب اُن کی صحت ہی اجازت نہیں دیتی، سفر کرنے کی۔‘‘ مُراد نے نسبتاً آہستگی سے کہا۔ ’’اچھا! اللہ خیر رکھے۔ تم اب جلدی چکر لگانا میرے پاس۔‘‘ امّاں جی نے اپنی عادت کےمطابق مزید کچھ کہنے کی بجائے بات سمیٹ دی۔ ’’جی… اس دفعہ تو آمنہ اور معاذ بھی ساتھ آئے ہیں۔ ہم سب ملنے آئیں گے، آپ سے۔‘‘ مُراد نے یقین دہانی کروائی۔ اُس کے بعد مُراد نے تھوڑی دیر اپنے چاچا جی سے بھی بات کی اور فون بند کر دیا۔
’’ نہ جانے میری بہنوں جیسی بھاوج پر وہاں کیا گزرتی ہوگی…؟؟‘‘اویس کے ابّا کی بات سُن کر امّاں جی ہتّھے سے اُکھڑجاتیں۔ ’’کیسی باتیں کرتے ہیں آپ، اپنے بیٹے کے پاس ہیں وہ، خدانخواستہ کوئی بےسہارا تھوڑی ہیں۔ مزے میں ہیں، تبھی تو واپس آنے کا نام نہیں لیتیں۔‘‘ کیا اچھا وقت تھا، جب وہ دونوں دیورانی، جیٹھانی اکٹھے رہا کرتی تھیں۔ پھر مُراد امریکا چلا گیا۔ اور چند سال بعد جب اُس کے ابّا جی کا انتقال ہوگیا، تو وہ سب کچھ بیچ باچ کر ماں کو بھی ساتھ ہی لے گیا۔ لوگ اُن کی قسمت پر رشک کرتے کہ اکلوتے بیٹے نے امریکا جیسے مُلک میں ماں کو اپنےساتھ رکھا ہوا ہے۔ آٹھ سال ہو گئے تھے، اُنھیں امریکا گئے ہوئے، مگر اس دوران اُنھوں نے ایک بار بھی پاکستان کا چکر نہیں لگایا تھا۔ سب یہی کہتے تھے کہ اُن کا دل امریکا میں اتنا لگ گیا ہے کہ وہ پاکستان کو بالکل بھول ہی گئی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭
گھر میں بڑی چہل پہل تھی۔ اویس اور اُس کی بیوی ہانیہ دعوت کی تیاری کیے مہمانوں کی آمد کے منتظر تھے۔ دوپہر سے تھوڑا ہی پہلے مُراد اپنی بیوی اور بچّے کے ساتھ پہنچا تھا۔
’’جیتا رہ میرا بچّہ!‘‘ امّاں جی نے کتنی ہی دیر مُراد کو سینے سے لگائے رکھا۔
بہت خوش گوار ماحول میں کھانا کھایا گیا۔ سب فرصت سے بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ معاذ، اویس کے بیٹے ریحان کے ساتھ وہیں بیٹھ کر کھیل رہا تھا۔ دونوں بچّوں کی عُمریں آٹھ نو سال کے درمیان تھیں۔
’’یار اویس! چھوڑو پاکستان کو… تم بھی امریکا آجائو، قسم سے زندگی سنور جائے گی۔‘‘ مُراد نے اویس سے کہا۔ ’’نہیں یار، اپنا دیس تو ماں کی گود کی طرح ہوتا ہے۔ مجھے پاکستان چھوڑ کر کہیں نہیں جانا۔‘‘ اویس نے نرمی سے کہا۔ اُس کے دائیں بائیں، اُس کے امّاں ابّا بیٹھے ہوئے تھے اور اُس کی بیوی مہمانوں کو چائے سرو کر رہی تھی۔ اویس کا کپڑے کا کاروبار تھا، جو ماں باپ کی دُعاؤں سے کافی منافع بخش اور کام یاب تھا۔ ’’پھر بھی یار، بندے کو آگے بڑھنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔‘‘ مُراد نے ہمّت نہ ہاری۔
مُراد کی بیوی آمنہ بہت خاموشی سے، سب سے بالکل لاتعلق سی بیٹھی تھی کہ کب مُراد اُٹھے اور وہ لوگ یہاں سےجائیں۔ اپنے سُسرالی رشتے داروں سے وہ یونہی بلاوجہ بےزار ہی رہتی تھی۔ آج بھی مُراد کی منّت سماجت ہی پر یہاں آئی تھی۔
’’بالکل سوچنا چاہیے، مگر جب آپ کو اپنے وطن میں سب کچھ مل رہا ہو، تو میرے خیال میں اُسے چھوڑ کر جانا سراسر بے وقوفی، نِری حماقت ہی ہے۔‘‘ اویس کا بھی اپنا نقطۂ نظر تھا۔ ’’یار! قسم سے… بڑی سہولیتیں اورسُکون ہے وہاں۔ انسان محنت کرتا ہے، تو اُس کا پورا پورا صلہ بھی ملتا ہے اور پھر کسی کی کوئی اضافی ذمّےداری بھی اُٹھانی نہیں پڑتی۔‘‘ مُراد نے اپنے بوڑھے چاچا اور چاچی کی طرف دیکھا، جو ظاہر ہے، اپنے بیٹے اویس کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ کسی نے اُس کے اِس انداز کو کچھ خاص نوٹ نہ کیا، سب ہی چائے کی طرف متوجّہ ہوگئےاور پھر چند لمحوں کےلیے مکمل خاموشی سی چھا گئی۔
معاً سب کی توجّہ مُراد کے بیٹے معاذ کی آواز کی طرف ہوئی، جو اویس کے بیٹے ریحان سے پوچھ رہا تھا کہ ’’یہ اولڈ مین اور اولڈ لیڈی کون ہیں؟‘‘ چوں کہ کمرے میں مکمل خاموشی تھی تو بچّے کی آواز قدرے گونجتی سی محسوس ہوئی اور سب ہی کی توجّہ اُس جانب مبذول ہوگئی۔ ’’میرے دادا، دادی ہیں۔‘‘ ریحان نے مُسکراتے ہوئے بہت پیار اور معصومیت سے جواب دیا۔ ’’دادا، دادی…؟‘‘ اُس نے انگریزی لہجے میں اٹک اٹک کر کہا۔’’میرے پاپا کے امّی ابّو۔‘‘ معاذ کے الجھنے پر ریحان نے آسان الفاظ میں وضاحت کی۔ ’’تو یہ تم لوگوں کے ساتھ کیوں رہتے ہیں؟‘‘ ’’کیوں کہ یہ میرے پاپا کے امّی، ابّو ہیں۔‘‘ ریحان کو یہی دلیل سمجھ میں آئی تھی۔’’اچھا! جب تم بڑے ہو جائو گے، تو تمھارے بابا، ماما کہاں رہیں گے؟‘‘ معاذ نے پھر سوال کیا۔ ’’میرے ساتھ۔…جیسے اب دادا، دادی اور بابا، ماما ساتھ رہتے ہیں۔‘‘ ریحان نے اویس کی طرف دیکھا۔ ’’مگر… مَیں تو بڑا ہو کر اپنے ڈیڈی اور مما کو اپنے ساتھ نہیں رکھوں گا۔‘‘ معاذ کی بات پرسب بڑوں کو جیسے سانپ ہی سونگھ گیا اور بچّوں کی باتیں سُنتے ہوئے اُن کے ہونٹوں پر جو مسکراہٹ آرہی تھی، یک دَم ہی غائب ہو گئی۔
’’تو پھر وہ کہاں رہیں گے؟‘‘ ریحان نے حیرت سے پوچھا۔ ’’اولڈ ہوم میں۔‘‘ معاذ نے بڑی بے نیازی سے کہا۔ ’’وہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ اب ریحان نے بہت حیرت سے پوچھا تھا۔ ’’وہاں اولڈ مین اور اولڈ ویمن رہتے ہیں۔ میری دادی بھی وہیں رہتی ہیں۔‘‘ معاذ کی بات پر مُراد اور آمنہ کے چہروں کے رنگ بہت واضح طور پر اُڑتے محسوس ہوئے۔ اُنھوں نے تو پاکستان میں کسی کو اِس بات کی بھنک بھی نہیں پڑنے دی تھی کہ مُراد کی امّاں پچھلے پانچ سال سے اولڈ ہوم میں رہ رہی ہیں۔
’’بیٹا! تیاری کر رکھنا، آخر میں تم دونوں کو بھی اولڈ ہوم ہی جانا ہے۔‘‘ چاچا جی نے مُراد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بہت نم لہجے میں کہا، تو مُراد جیسے ہوش کی دنیا میں واپس آگیا۔ اُس کا آٹھ سالہ بیٹا اگر ابھی سے اُنھیں اولڈ ہوم بھیجنے کا سوچے بیٹھا تھا، تو اِس میں قصور اُس کا نہیں، مُراد کا اپنا تھا۔ چاچاجی کی بات میں نہ جانے کیسا دُکھ گُھلا تھا کہ مُراد کے ساتھ ساتھ آمنہ کا دل بھی بیٹھ سا گیاتھا۔
……٭٭٭٭٭٭……
برسوں پہلے مُراد اور آمنہ نےمل کر ایک فیصلہ کیا اور پھر اُس پر ایسے عمل کیا کہ اُس کے بعد مُراد کی امّاں کی زندگی کے اگلے پندرہ سال بہت پُرسکون اور اطمینان بَھرے رہے۔ مُراد تو بیٹا تھا، جتنی خدمت کرتا، کم تھی، مگر اللہ جانے آمنہ کے دل میں کیسا خوف سمایا تھا کہ اُس نے پھر مُراد سے بڑھ کر امّاں کی خدمت کی۔ دونوں نے مل کر امّاں کی زندگی کے ہر دن کو ’’مدرز ڈے‘‘ بنا دیا تھا۔ وہ مُراد اور آمنہ کو ہر لمحہ دُعائیں دیتی تھیں اور اُن دونوں سے بہت خُوش ہو کر دنیا سے گئی تھیں۔
وقت کی دوڑ میں مُراد، آمنہ سے بچھڑ کر اپنے دائمی سفر پر روانہ ہوگیا اور آمنہ، معاذ کے سہارے اکیلی رہ گئی۔ آج بھی اُس کے دل میں ہمہ وقت یہ خوف سمایا رہتا تھا کہ کبھی کسی بھی لمحے اُس کا بیٹا اُسے اولڈ ہوم چھوڑ آئے گا، مگر آج برسوں پہلے کیے گئے اُن کے فیصلے کا ثمر اُن کے بیٹے کے منہ سے ادا ہوتے الفاظ کی صُورت میں اُسے مل گیا تھا۔ کُرسی کی پشت سے سرٹِکا کر آمنہ نے بہت سُکون سے آنکھیں موند لی تھیں اور ہونٹوں پر ایک بڑی مطمئن سی مُسکراہٹ بکھر رہی تھی۔