• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفتی غلام مصطفیٰ رفیق

احادیثِ مبارکہ کے پورے ذخیرے میں چند حدیثیں ایسی ہیں، جنہیں امّت کے علماء اور فقہائے کرام نے نہایت اہم اور اصولی سمجھا ہے، ان ہی میں سے ایک حدیث حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے صحیح مسلم شریف میں منقول ہے جو حلال وحرام اور مشتبہات کے احکام سے تعلق رکھتی ہے۔ حضرت نعمان بن بشیرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے یہ سنا:’’حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے‘‘۔

یہ پہلا جملہ ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ چیزیں تو وہ ہیں جن کا حلال ہونا سب کو معلوم ہے، اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا حرام ہونا سب کو معلوم ہے، حلال جیسے نیک کام، اچھی گفتگو، حلال ذرائع سے کمایا ہوا مال وغیرہ اور حرام جیسے کفر ہے، شرک ہے، مردار ہے، جھوٹ ہے، سود کھانا، غیبت کرنا، چغل خوری، شراب پینا، کسی کا مال چھین لینا، کسی کے حق پر قبضہ کرلینا وغیرہ۔ تو ان میں سے حلال چیزوں کو انسان اختیار کرنے والا بنے اورحرام سے دور رہے۔

حلال پر قناعت کرنے اور اسے اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ برکت بھی دیتا ہے اور نیک اعمال کی توفیق بھی عطا فرماتا ہے، حلال غذا کا عمل صالح میں بڑا دخل ہے، جب انسان کی غذا حلال ہوتی ہے تو نیک اعمال کی توفیق اسے خود بخود ہونے لگتی ہے اور جب غذا ہی حرام ہو تو نیک کام کا ارادہ کرنے کے باوجود بھی اس راہ میں مشکلات حائل ہو جاتی ہیں اور آدمی نیکی سے محروم ہوجاتا ہے۔

ترمذی شریف کی ایک حدیث میں آتاہے کہ نبی کریم ﷺنے ایک شخص کا ذکر کیا جو طویل سفر کرتا ہے، پریشان حال ہے، اور اس کے بال خاک آلود ہو رہے ہیں ،وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر کہتا ہے: اے میرے رب! اے میرے پروردگار! یعنی دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر پکار رہا ہوتا ہے، اس کی ظاہری حالت سے مسکنت عیاں ہے، ایسی حالت میں اس کی دعا قبول ہونی چاہیے، اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسافرکی دعا رد نہیں ہوتی، اس سب کچھ کے باوجود آپ ﷺفرماتے ہیں کہ: اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ غذا اس کی حرام، کپڑے اس کے حرام، اور جسم اس کا حرام کی روٹیوں سے پلا ہوا۔ اب کس طرح ایسے شخص کی دعا قبول ہو۔ 

ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے گزارش کی کہ یارسول اللہ ﷺ آپ میرے حق میں دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ میری دعاؤں کو قبول فرمایا کرے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سعد !پاکیزہ چیزیں کھاؤ، حلال لقمہ کھایا کرو، اللہ تعالیٰ تمہاری دعائیں قبول فرماتا رہے گا۔

مشکوٰۃ شریف میں سیّدناحضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ایک روایت منقول ہے،وہ ارشاد فرماتے ہیں : اگرکو ئی شخص ایک کپڑا دس درہم میں خریدے اور ان دس درہم میں سے ایک درہم بھی حرام مال کا ہو تو اللہ تعالیٰ اس وقت تک اس شخص کی نماز نہیں قبول کرے گا، جب تک کہ آدمی کے جسم پر وہ کپڑا ہوگا۔ اس حدیث کے بیان کرنے کے بعد حضرت عبداللہ بن عمرؓنے اپنی شہادت کی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں ڈالیں اور کہا کہ یہ دونوں کان بہرے ہو جائیں اگر میں نے یہ رسول کریم ﷺکو فرماتے ہوئے نہ سنا ہو۔

اس روایت میں اگلا جملہ رسول اللہ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا: حلال وحرام کے درمیان کچھ مشتبہات ہیں، جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے، پس جوشخص شبہ میں ڈالنے والی چیز سے بچا، اپنے آپ کو محفوظ رکھا، اس نے اپنے دین اور عزت کو محفوظ کرلیا اور جو شبہ میں ڈالنے والی چیزوں میں پڑ گیا تو وہ حرام میں پڑ گیا۔

یعنی کتنی ہی چیزیں ہیں جن کے حلال ہونے کی دلیلیں بھی ہیں اور حرام ہونے کی بھی، تو اس صورت میں کوئی واضح فیصلہ کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی، تو عام شخص کے بارے میں شریعت کی تعلیم یہی ہے کہ ایسی مشتبہ چیزوں سے انسان اپنے آپ کو بچائے، مشتبہ چیزوں سے بھی احترازاور اجتناب کرے۔

حضرت انسؓ سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺراستے سے گزر رہے تھے، وہاں آپﷺ نے ایک کھجور کا دانہ پڑا ہوا دیکھا، تو ارشاد فرمایاکہ اگر مجھے اس کھجور کے بارے میں صدقہ کاخوف نہ ہوتا تو میں اسے کھالیتا۔ یعنی رسول اللہ ﷺنے صدقہ کے شبہ کی وجہ سے وہ کھجور نہیں کھائی، باوجود یہ کہ آپﷺ کو ضرورت تھی۔اسی لیے ضرورت کے مواقع پر بھی انسان اپنے آپ کو مشتبہ چیزوں سے بچالے، یہ کمالِ احتیاط ہے۔

سیّدنا صدیق اکبرؓ کے بارے میں بخاری شریف میں آتا ہے کہ ان کے ایک غلام نے کھانے کی کوئی چیز ان کی خدمت میں پیش کی، آپ نے اس چیز میں سے کچھ کھالیا، اس کے بعد غلام نے بتایاکہ مجھے یہ چیز اس طرح حاصل ہوئی تھی کہ اسلام کے دور سے پہلے جاہلیت کے دور میں ایک آدمی کو میں نے اپنے آپ کو کاہن ظاہر کرکے کچھ بتایا تھا۔

جیسے نجومی کاہن لوگ ہوتے ہیں، لوگوں کو مستقبل کے احوال وغیرہ بتاتے رہتے ہیں، شریعت نے ان چیزوں سے سخت منع کیا ہے، ایسے لوگوں کے پاس جانابھی جائز نہیں، چہ جائیکہ ان سے مستقبل کے احوال پوچھے جائیں یا ان پر یقین کیا جائے، شریعت میں اس کی سخت ممانعت ہے۔

بہرحال! غلام نے کہاکہ اس کہانت کے بدلے اس شخص نے مجھے یہ چیز دی تھی جو میں نے آپ کو کھانے کے لیے دی، سیدنا صدیق اکبرؓ کو جب یہ معلوم ہواتو انہوں نے فوراً حلق میں انگلی ڈال کرقے کردی کہ یہ چیزتو مشتبہ ہوگئی۔ دیکھیے!یہ لاعلمی میں جو کھالیا، یہ حرام نہیں تھا،مگریہ ان حضرات کا تقویٰ تھا کہ جیسے ہی اشتباہ پیدا ہوگیا تو انہوں نے فوراً اپنے پیٹ سے اس چیزکو نکال دیا۔

رسول ﷺنے فرمایا :جو شخص مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہوا، وہ حرام میں مبتلا ہو گیا اور اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو ممنوع چراگاہ کی مینڈ پر چراتا ہے اور ہر وقت اس کا امکان رہتا ہے کہ اس کے جانور اس ممنوع چراگاہ میں گھس کر چرنے لگیں۔

اس حدیث مبارکہ میں آپ ﷺنے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ جان لو کہ ہر بادشاہ کا ایک ممنوع علاقہ ہوتا ہے،اس کی اپنی حدود ہوتی ہیں، جس میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی، اور جو داخل ہوجائے ،وہ مجرم سمجھا جاتا ہے، سزا کا مستحق بنتا ہے، اس کی گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے۔ 

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ممنوع علاقہ اور حدود حرام چیزیں ہیں کہ جن میں مبتلا ہونا لوگوں کے لئے ممنوع قرار دے دیا گیا ہے، لہٰذا جو کوئی اس ممنوع علاقے میں داخل ہوگا یعنی حرام چیزوں کا ارتکاب کرے گا، وہ عذاب کا مستحق قرار دیا جائے گا اور پھر ان حرام چیزوں میں بھی بعض چیزیں تو ایسی ہیں جن کے مرتکب کی بخشش ہی نہیں ہوگی، جیسے شرک اور کچھ گناہ اور جرائم ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہیں کہ چاہے ان کے مرتکب کو اللہ تعالیٰ بخشے چاہے نہ بخشے، البتہ سچے دل کے ساتھ توبہ و استغفار سے ہر چیز بخشی جائے گی۔

علماء لکھتے ہیں کہ اس حدیث مبارکہ میں اخیر میں رسول اللہ ﷺنے دل کا ذکر کیا ہے، اور حدیث کی ابتداء میں حلال وحرام اور مشتبہات کا ذکر ہے، اس ترتیب سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ دل کی صفائی اور پاکی کے لیے یہ لازم ہے کہ انسان حلال پر اکتفاء کرنے والا بنے۔ حرام سے بھی اور مشتبہ چیزوں سے بھی اپنے آپ کو دور رکھے۔ اللہ تعالیٰ حلال پر قناعت نصیب فرمائے اور حرام اور مشتبہ چیزوں سے ہمیں محفوظ فرمائے۔