• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسجد کی دکانوں کو آگے کرائے پر دینا یعنی Sublet کرنا

تفہیم المسائل

سوال: ہماری مسجد کی کچھ دکانیں کرائے پر دی ہوئی ہیں، جن میں کرایہ دار خود نہیں بیٹھ رہے، انہوں نے آگے کسی کو کرایہ پردی ہوئی ہیں اور وہ آگے والے کرایہ دار سے زیادہ پیسے وصول کر لیتے ہیں اور مسجد کو کم دیتے ہیں، مثلاً :وہ خود آٹھ ہزار لیتے ہیں اور مسجد کو وہ تین ہزار دیتے ہیں اور تقریباً وہ ایک سال سے مسجد کو کرایہ بھی نہیں دے رہے، یعنی جو تین ہزار دیتے تھے، وہ بھی نہیں دے رہے، براہِ مہربانی اس مسئلے کے بارے میں رہنمائی فرما دیں؟ (محمد جمیل، کراچی)

جواب: آپ کے سوال میں درج نکات یہ ہیں: (۱)مسجد انتظامیہ نے دکانیں جن لوگوں کو کرائے پر دیں ، وہ خود اس میں کاروبار نہیں کرتے، بلکہ کسی دوسرے کو اجارہ پر دے دیں ۔) ۲)دوسرے شخص کو زائد کرائے پر دیں اور مسجد کو کم کرایہ دیتے ہیں۔ (۳)گزشتہ ایک سال سے اصل کرایہ دار مسجد انتظامیہ کو کوئی کرایہ نہیں دے رہے۔ 

مسجد اور اس کے مُتعلّقات یعنی فنائے مسجد، وضوخانہ، مسجد کے عملے کی رہائش، دکانیں، مکانات یا گودام وغیرہ یہ تمام وقف ہوتے ہیں، وقف اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے ، ’’وقفلِلّٰہ‘‘ کے شرعی معنیٰ ہیں: کسی چیز کو اپنی مِلک سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی مِلک کردینا، اس میں تصرُّ ف کا کسی کو اختیار نہیں۔ 

علّامہ برہان الدین ابوالحسن علی بن ابوبکر الفرغانی لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’اور صاحبین ؒ کے نزدیک وقف کے معنی ہیں :’’ نفسِ مال کو اللہ تعالیٰ کی مِلک پرروکنا‘‘، (ہدایہ،جلد4، ص:391)‘‘۔

اگر مسجد انتظامیہ کی اجازت سے کرایہ دار آگے کسی کو کرائے پر دے رہاہے ،تو اُس سے زائد کرایہ وصول نہ کرے، البتہ اگر کرایہ دار اُس دکان یا مکان میں کوئی ایسا کام کراتا ہے، جو مستقل بنیاد پر ہو تو زائد کرایہ وصول کرسکتا ہے، علّامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ :’’ اگر (کرایہ دار ) کرایہ پر لی ہوئی چیز کے ساتھ اپنی کوئی ایسی چیز شامل کر کے کرائے پر دے، جس پر عقد اجارہ جائز ہے تو اس صورت زیادہ رقم لینا حلال ہوگا، جیسا کہ’’ خلاصہ الفتاویٰ ‘‘میں ہے ۔ (ماتن کا قول: أَوْ أَصْلَحَ فِیہَا شَیْئًا) یعنی اگر اس نے اس میں کسی چیز میں مرمت کی ہو، مثلا ً: اس میں پلسترکرایا یا اُس میں نالی بنوائی ہو یا کوئی بھی مستقل کام کیا ہو، تو اُس کی بنیاد پر اضافی کرایہ لینا جائز ہے کیونکہ یہ اضافہ اس کی اپنی محنت اور خرچ کے مقابلے میں ہے ،(ردّالمحتار علیٰ الدّرالمختار ، جلد6،ص:29)‘‘۔

صدر الشَّرِیعہ علّامہ امجد علی اعظمیؒ لکھتے ہیں: ’’مُسْتَاجِر(کرایہ دار)نے مکان یا دکان کو کرایے پر دے دیا، اگر اُتنے ہی کرایہ پر دیا ہے، جتنے میں خود لیا تھا یا کم پر جب تو خیر اور زائد پر دیا ہے تو جو کچھ زیادہ ہے، اُسے صدقہ کردے، ہاں! اگر مکان میں اِصلاح کی ہو، اُسے ٹھیک ٹھاک کیا ہو تو زائد کا صدقہ کرنا ضروری نہیں یاکرایہ کی جنس بدل گئی مثلاً: لیا تھا روپے پر، دیا ہو اشرفی پر، اب بھی زیادتی جائز ہے۔ 

جھاڑو دے کر مکان کو صاف کرلینا یہ اِصلاح نہیں ہے کہ زیادہ والی رقم جائز ہوجائے، اصلاح سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرے جو عمارت کے ساتھ قائم ہو، مثلاً: پلستر کرایا یا مونڈیر بَنوائی، (بہارِ شریعت، جلد3، ص:124)‘‘۔ مساجد کمیٹیاں فنائے مسجد میں دکانیں، مکانات بناکر انھیں کرائے پر دے دیتی ہیں، ہمارا نظریہ تویہ ہے کہ مساجد کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیاجائے، کیونکہ آگے چل کر یہی مفاسد کا سبب بنتے ہیں۔

لیکن اگر ایسا کرنا ناگزیر ہو تو اوقاف کے اجارہ کی مدت تین سال سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے ، علّامہ زین الدین ابن نُجیم حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ (ماتن کا قول : اوقاف کے اجارہ کی مدّت تین سال سے زائد نہیں ہونی چاہیے) اس کی حکمت یہ ہے کہ کہیں کرایہ دار اُس پر ملکیت کادعویٰ نہ کر دے۔ ’’ہدایہ‘‘ میں اِسی کو مختار قول قرار دیا ہے، اسے مطلق رکھا گیا ہے تاکہ وہ جائیداد وغیرہ کو شامل ہو، صدر الشہید نے فتویٰ جاری کیا: اوقاف(کے اجارہ) کے معاملے میں مدت تین سال سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے اور دوسری صورتوں میں زیادہ سے زیادہ ایک سال، سوائے اس کے کہ مدت بڑھانے میں فائدہ ہوتو بڑھا سکتے ہیں،’’محیط میں فرمایا: یہی مختار فتویٰ ہے ، (البحرالرائق ، جلد 7،ص:299)‘‘۔ اس سے معلوم ہواکہ مساجد کی دکانیں تین سال سے زائد میعاد پر کسی کو نہ دی جائیں ،ایک سال یا تین سال کا معاہدہ ختم ہونے کے بعد نئے کرائے نامے پر معاملات طے کریں۔

پس صورت مسئولہ میں کرایہ دار کا مسجد کی دکانیں انتظامیہ کی اجازت کے بغیر آگے زیادہ کرائے پر دینا جائز نہیں ہے، اصل کرایہ دار نے سال بھر جو زائد کرایہ وصول کیا، وہ زائد کرایہ بھی مسجد کو ادا کریں، مسجد انتظامیہ کو چاہیے کہ اُن کے خلاف قانونی کارروائی کرکے دکانیں خالی کرائیں۔ کراچی میں جو تجربات سامنے آئے ہیں، ان کی روشنی میں ہمارا مشورہ ہے کہ مساجد کی انتظامیہ کو دکانیں پگڑی پر دینے کا سلسلہ موقوف کردینا چاہیے، یہی سارے مفاسد کا دروازہ ہے۔

عام عرف کے مطابق بازار میں رائج معیار کے مطابق محدود مدّت کے لیے اجارے کا معاہدہ کرنا چاہیے اور مقررہ مدّت کے بعد مناسب سمجھیں تو دکان، مکان یا گودام خالی کرادیں یا رائج الوقت شرح کے مطابق عقد کی تجدید کریں۔ نیز اگر کرائے دار کی ضرورت کے مطابق دکان میں کچھ رد وبدل یا اضافہ کرنا ہے تو انتظامیہ خود کرے اور اس کے عوض کرائے میں اضافہ کرے۔ 

کرائے دار کے پاس مسجد کی دکان، گودام یا مکان آگے کرائے پر دینے یعنی Sub Let کرنے کا اختیار ہرگز نہیں ہونا چاہیے، نیز بعض مقامات پر انتظامیہ کے ارکان اپنے یا اپنے کسی عزیز کے نام پر بازار سے کم شرح پر خود کرائے پر لے لیتے ہیں یا اپنے کسی رشتے دار کو دیتے ہیں اور پھر کرایہ بڑھاکر ذیلی کرائے دار کو دیتے ہیں، اس کی بھی ممانعت ہونی چاہیے، یہ مسجد کی انتظامی کمیٹی کا رکن یا ٹرسٹی ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھانا ہے اوریہ درست نہیں ہے ۔(واللہ اعلم بالصّواب )