آپ کے مسائل اور کا حل
سوال: بعض مسلمان اشد ضرورت کے بغیر مسلم ممالک سے نکل کر کفار کے ممالک میں اپنے اہل و عیال سمیت رہائش اختیار کرنے کے لیے جاتے ہیں، یہ مسلمان اپنے مسلم ملک میں غربت سے دوچار تو نہیں مگر اپنے مالی حالات میں بہتری لانے کے لیے جانے کے خواہش مند ہوتے ہیں، کیا یہ شرعی طور پہ قابل ملامت ہے؟
جواب: مسلم ملک چھوڑ کر کفار کے ممالک میں بلا ضرورت رہائش اختیار کرنا، تاکہ معیارِ زندگی بلند ہو اور زندگی خوش حالی و عیش وعشرت سے گزرے، یہ کراہت سے خالی نہیں ہے، بلکہ خود اور اپنی اولاد کو منکرات و فواحش کے طوفان میں دھکیلنے کے مترادف ہے، لہٰذا اگر بیوی بچے بھی ساتھ ہوں تو خاندان کا سربراہ ہونے کی وجہ سے ان کی دینی تربیت کا انتظام نہ کرنے کے باعث ان کی بے دینی کا گناہ اور وبال بھی اسی شخص پر پڑے گا، چنانچہ اسی وجہ سے حدیث شریف میں شدید ضرورت کے بغیر کفار و مشرکین کے ساتھ رہائش اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
چنانچہ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص مشرک کے ساتھ موافقت کرے اور اس کے ساتھ رہائش اختیار کرے، وہ اسی کے مثل ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان رہائش اختیار کرے، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اس کی کیا وجہ ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان کی آگ اور مشرکین کی آگ دونوں ایک ساتھ نظر نہیں آنی چاہییں۔ تم یہ امتیاز نہیں کر سکو گے کہ یہ مسلمان کی آگ ہے یا مشرکین کی آگ ہے۔ واضح رہے کہ غیر مسلم ممالک میں مسلم ممالک سے جانے کے چند اسباب ہیں:
1- دین و اسلام کی تبلیغ و نشر و اشاعت کے لیے، اس نیت سے جانا جائز اور کار ثواب ہے۔
2- ہلاکت کے خوف کے سبب، امن امان نہ ہونے کی وجہ سے جان بچانے کے لیے یا علاج کروانے کے لیے جانا، یہ بھی جائز ہے۔
3- کسبِ معاش کے لیے جانا، یعنی مسلم ملک میں ملازمت اور کاروبار وغیر ہ نہ ہونے کے سبب مجبور ًا کسبِ معاش کے لیے غیر مسلم ملک جانا، اس کی بھی گنجائش ہے۔
4- عیش و عشرت کے خاطر مسلم ملک چھوڑ کر غیر مسلم ملک کی طرف ہجرت کرنا، یہ مکروہ ہے۔