• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سحر خیزی کی برکات اور نمازِ فجر کی فضیلت و اہمیت

مولانا ڈاکٹر امجد حسین

اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کی بنیادی ضروریات میں نیند کو شامل کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ہم نے نیند کو تمہارے لیے باعثِ آرام بنایا ہے۔‘‘ ایسے ہی دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ’’اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لیے رات اور دن بنائے، تاکہ رات کو آرام کرو اور دن میں اس کا فضل (روزی) تلاش کرو، تاکہ تم شکر گزار بنو۔‘‘

چنانچہ رات آرام کے لیے اور دن کام کاج کے لیے بنایا ہے۔ رات کو دن سے پہلے ذکر کیا، کیونکہ دن کے تمام معاملا ت کی بحسن وخوبی انجام دہی کا دارومدار رات کے صحیح آرام پر موقوف ہے، اسی لیے آپ ﷺ نمازِ عشاء سے پہلے سونے اورنماز کے بعدفضول گوئی کو ناپسند فرماتے تھے۔ (صحیح بخاری)کیونکہ جو جلد سوئے گا، وہی جلد بیدار ہوگا۔

سحر خیزی باعثِ برکت ورحمت ہے۔ مشہور کہاوت ہے: ’’جلدی سونا اور جلدی اُٹھنا آپ کو صحت مند، دولت مند اور عقل مند بناتا ہے۔‘‘یہ وہ بابرکت وقت ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی۔ ارشاد ہے: ’’اور صبح کی قسم جب سانس لے۔‘‘ اور آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے اس میںبرکت کی خصوصی دعا مانگی: ’’اے اللہ! میر ی اُمت کی صبح کو بابرکت بنا دیجیے۔‘‘ (سنن ترمذی)

چنانچہ یہ دعائے برکت رحمۃ للعالمین ﷺ نے ربّ العالمین سے اپنی اُمت کے لیے مانگی ہے۔ اسی کا اثر ہے کہ سبھی انسان یہ جانتے اور محسوس کرتے ہیں کہ صبح کا وقت اپنی برکات وثمرات میں دن کے تمام اوقات سے منفرد اور افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بابرکت وقت میں اہلِ ایمان کے اعمال و صفات کو ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: ’’وہ راتوں کو کم ہی سوتے ہیں، پھر وہ رات کے پچھلے پہروں میں اپنے گناہوں سے معافی مانگتے ہیں۔‘‘ (سورۃالذّاریات)

جیسا کہ بندۂ مومن اس وقت بیدار ہوتا ہے، ایسے ہی اس وقت کائنات کی ہر چیز میں نئی زندگی آتی ہے، سوئے ہوئے لوگ بیدار ہوتے ہیں، کلیاں چٹکتی ہیں، غنچے کھلتے ہیں، پھول مہکتے ہیں، پرندے جاگتے ہیں۔ سب اللہ کی تسبیح وتحمید کرتے ہیں۔ دوسری جگہ مومنین کی صفات کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’صبر کرنے والے، سچ بولنے والے، عبادت کرنے والے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے والے اور سحر کے وقت میں معافی مانگنے والے۔‘‘ (سورۂ آل عمران)

ان دونوں آیات کے مفہوم میں وقت سحر اپنے گناہوں کی معافی مانگنا بندۂ مومن کی صفت قرار دی گئی ہے، جیسا کہ اس وقت میں بیداری برکات کا سبب ہے، اسی طرح اس وقت سونا باعثِ محرومی ہے۔ ایک روایت کا مفہوم ہے: ’’صبح کا سونا عمر کی برکت کو ختم کردیتا ہے۔‘‘ اسی لیے یحییٰ بن کثیر لکھتے ہیں: ’’صبح کا وقت غنیمت اور انعام کی تقسیم کا وقت ہے۔

یہ بہت بابرکت وقت ہے، اس وقت میں سونا سخت محرومی ونامرادی اوربرکات سے محرومی کا سبب ہے۔جو چاہے اس وقت جاگ کر غنیمت وانعام وبرکات اور روزی و رضا کو حاصل کرلے اور جو چاہے اس قیمتی وقت کو سونے میں گزار کر خیر کثیر سے محروم ہوجائے۔‘‘

رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ہمارا رب ہر رات جب آخری تہائی حصہّ رہ جاتا ہے تو آسمانِ دنیا پر اُترتا ہے اور فرماتا ہے:  کون! مجھ سے دعا کرتا ہے، میں اس کی دعا کو قبول کروں ؟کون !مجھ سے کچھ مانگتا ہے کہ میں اس کو دوں؟ کون! مجھ سے گناہوں کی معافی چاہتا ہے کہ میں اس کے گناہ معاف کروں؟۔‘‘ (صحیح بخاری)

سحر خیزی کی ایک نعمت نمازِ تہجّد ہے جس کے بارے میں آپ ﷺ نے ارشا د فرمایا: ’’فرض نمازوں کے بعد افضل نماز تہجّد کی نماز ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)

حقوق العباد اور نمازِ تہجد کا اجر آپ ﷺ نے یوں بیان فرمایا: ’’اے لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، رات کو نماز پڑھو جب لوگ سورہے ہوں، تو جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔‘‘ (سنن ترمذی)

اس بابرکت وقت کاہر لمحہ نعمتوں کا ایک جہاں سموئے ہوئے ہے۔ سحر خیزی کا ایک انعام نمازِ فجر ہے، جس کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔‘‘

نمازِ فجر ادا کرنے کے بعد انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی ضمانت میں دے دیتا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے صبح کی نماز ادا کی وہ اللہ کی ضمانت میں ہے، اس لیے اے آدم کے بیٹے! اس بات کو دھیان میں رکھ کہ کہیں اللہ تعالیٰ تجھ سے اپنی امان کی بابت کسی قسم کی باز پُرس نہ کرے۔‘‘ (صحیح مسلم)

اس میں دن بھر کی آفات وبلیات سے حفاظت کے ساتھ اُلجھے معاملات کو سنوارنے کے لیے غیبی مدد ونصرت اور حصولِ برکات و ثواب کی جانب بھی اشارہ ہے۔ایک حدیث میں آپ ﷺ نے نمازِ فجر ادا کرنے والے کے لیے جنت کی بشارت ارشاد فرمائی ہے، یعنی:ـ ’’جس نے دو ٹھنڈی نمازیں (فجر وعصر) ادا کیں، وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘ (صحیح بخاری)

دوسری حدیث میں جہنم سے آزادی کا وعدہ کیا گیا: ’’جس نے سورج کے طلوع اورغروب ہونے سے قبل نماز پڑھی یعنی فجر اور عصر، وہ ہرگز آگ میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم) ایک حدیث میں نمازِ فجر کی ادائیگی پہ پوری رات کی عبادت کا ثواب بیان فرمایا ہے:’’جس نے عشاء کی نماز باجماعت ادا کی گویا اس نے آدھی رات عبادت میں گزاردی اورجس نے فجر کی نماز باجماعت اد اکی تو گویا اُس نے پوری رات عبادت میں گزاری۔‘‘ (صحیح مسلم)

حتیٰ کہ یہی وہ نماز ہے جس کی اذان میں سحر خیزی کا پیغام اور اعلان ہے اور مؤذّن پکارتا ہے: ’’ نماز نیند سے بہتر ہے۔‘‘ جو نیند سے بیدار ہوکر برکات کو سمیٹنے کی دعوت ہے۔ ان برکات کی عظمت کی عکاسی کے لیے حدیثِ مبارکہ کے یہ الفاظ کافی ہیں: ’’اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ عشاء اور فجر کی نماز کا ثواب کیا ہے تو لوگ اس ثواب کو حاصل کرنے کے لیے مسجدوں میں پہنچ جائیں ، چاہے گھسٹ گھسٹ کر آنا پڑے۔‘‘(صحیح بخاری)

آپ ﷺ نے ایک حدیث میں سحر خیزی پہ نمازِ فجر اداکرنے والے کو دیدار ربّ کریم کی نوید سنائی ہے۔ حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ’’ ہم چاند کی چودھویں رات کو رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، آپ ﷺ نے چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا: ’’تم اپنے رب کریم کو بغیر کسی رکاوٹ کے دیکھو گے جس طرح تم چاند کو دیکھتے ہو،اگر تم ایسا کرسکو تو ضرور ایسا کروکہ طلوعِ آفتاب سے قبل اور غروبِ آفتاب سے قبل کی نماز سے عاجز ومغلوب ہوکر نہ رہ جاؤ، (یعنی فجر اور عصر کی نماز کا ہر صورت اہتمام کرو)۔‘‘(صحیح بخاری )

نیز سحر خیزی کی برکات کی حامل یہی وہ نماز ہے جس کی سنتوں کو نبی اکرم ﷺ نے دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے ا س سب سے افضل قرار دیا ہے۔ ارشاد رسول اکرم ﷺ ہے: ’’مجھے فجر کی دو سنتیں دنیاومافیہا سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم)

دوسری روایت میں ہے: ’’فجر کی دو رکعتیں پوری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، اس سے بہتر ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم)

یہ تمام برکات وانعامات یقیناً سحر خیزی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو دیگر نمازوں میں سے کسی نماز کی اتنی برکات وفضائل احادیث میں مذکور نہیں، جس قدر نمازِ فجر کی فضیلت اوراس کی برکات مذکور ہیں، گویا کہ یہ تمام برکات وانوارات سحر خیزی سے وابستہ ہیں۔ 

اگر ان برکات کے ساتھ آپ ﷺ سے منقول بوقت صبح کے اوراد واشغال اور مسنون اذکار ودعاؤں اوران کے فضائل وبرکات کو ذکر کیا جائے تو سحر خیزی سے وابستہ انوارات کا اندازہ کریجیے۔ مختصراً سحرخیزی کی بدولت اس بابرکت وقت کا ثانی دن بھر کی کوئی گھڑی نہیں۔ دوسری جانب ہم اپنے مسلمان معاشرے میں پھیلتی بے راہ روی پہ نظر کریں تو ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ ان برکات سے محرومی کی جانب بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ 

رات کو بے خوابی اور دیر تک بلکہ صبحِ صادق تک جاگنے کی عادت شہری زندگی کا جزوِ لازم بنتی دکھائی دیتی ہے اورہم ہر لمحہ فطری زندگی سے دور جاتے نظر آتے ہیں۔ خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں دن کی روشنی میں کام کاج اور کاروباری مصروفیت کاسرانجام دینا، اور رات کے اوقات کو محض راحت وآرام میں صرف کرنا تو انائی کے ذرائع میں بے پناہ بچت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

چونکہ دین اسلام کی تعلیمات عین فطرت کا تقاضا ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سحر خیزی کے ساتھ تمام دنیاوی واُخروی برکات کومنسلک کیا ہے، لہٰذا سحر خیزی نہ صرف جسمانی، طبّی اور نفسیاتی اعتبار سے مفید ہے، بلکہ انعاماتِ اُخروی کے حصول کا بھی مؤثر ذریعہ ہے، اس لیے ہمیں اپنے معاشرے میں شب بیداری اور رات کو بے خوابی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی مؤثر پیرائے میں روک تھام کرنی چاہیے، تاکہ مسلم معاشرے میں فطری زندگی کا رنگ پروان چڑھے اور ہماری آئندہ نسلیں دین وفطرت کے خلاف بے راہ روی و بے اعتدالی کا شکار نہ ہوں اور برکاتِ سحر سے بھر پور مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ اعمالِ نبوی ؐپر کاربند رہ سکیں۔