• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: فنائے مسجد کے حصوں میں سے ایک حصے پر گودام بناکر کرائے پر دے رکھا تھا، جس کی آمدنی مسجد پر صرف ہوتی تھی۔ اب ضرورت کے سبب اس جگہ کو وضو خانے میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایک مذہبی تنظیم کے لوگ اس جگہ پر اپنا استحقاق ظاہر کرکے کسی ماہانہ کرائے کے بغیر اپنا تنظیمی دفتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں، کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ (محمد اسماعیل، کراچی)

جواب: مسجد اور اس کے مُتعلقات یعنی فنائے مسجد، وضوخانہ، مسجد کے عملے کی رہائش یہ تمام وقف ہوتے ہیں، وقف اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے، ’’وقف لِلّٰہ‘‘ کے شرعی معنیٰ ہیں: کسی چیز کو اپنی مِلک سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی مِلک کردینا، اس میں تصرُّ ف کا کسی کو اختیار نہیں۔ علامہ برہان الدین ابوالحسن علی بن ابو بکر الفرغانی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’اور صاحبین رحمہما اللہ تعالیٰ کے نزدیک وقف کے معنی ہیں :’’ نفسِ مال کو اللہ تعالیٰ کی مِلک پر روکنا‘‘، (ہدایہ،جلد4، ص: 391)‘‘۔

مساجد کمیٹیاں فنائے مسجد میں دکانیں، مکانات بناکر انھیں کرائے پر دے دیتی ہیں، ہمارا نظریہ تو یہ ہے کہ مسجد کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیاجائے، آگے چل کر یہی مفاسد کا سبب بنتا ہے۔ صدرالشریعہ علامہ امجدعلی اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’’ مسجدیں عبادت کے لیے ہیں، اپنے بسنے کے لیے نہیں بنائی جاتیں، نہ اس کام میں لائی جاسکتی ہیں ‘‘۔ مزید لکھتے ہیں: ’’مسجد کی کسی شے میں اپنا ذاتی تصرُّف نہیں کرسکتا ، (فتاویٰ امجدیہ ،جلد:سوم،ص:128)‘‘۔

مفتی وقارالدین قادری ؒ لکھتے ہیں: ’’شخصی ملکیت میں کوئی مسجد اور وقف کی جگہ نہیں آسکتی‘‘۔ مزید لکھتے ہیں: ’’ وقف پر کسی انسان کی ملکیت نہیں ہوتی، لہٰذا جو شخص اس کے کسی حصہ پر قابض ہے، اُسے خالی کرنا لازم ہے اور مکان کاوہ حصہ جو اس کے قبضے میں ہے، مُتولی مسجد کے سپرد کردے ، (وقار الفتاویٰ ،جلد:دوم، ص:310-313)‘‘۔

آپ نے سوال میں لکھا: ’’ ایک مذہبی تنظیم کے لوگ اس جگہ اپنا تنظیمی دفتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں ‘‘، اگر واقعی اُن کا تعلق مذہبی تنظیم سے ہے، تو اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ مسجد کے کسی بھی حصے پر اُن کا ایساتصرُّف کرنا ناجائز ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)