مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
مَیں زندگی کے کسی موڑ پر بھی اُس یادگار لمحے کو فراموش نہیں کرسکتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ5 اگست 2023ء کی صبح حسبِ معمول مَیں اپنے کلینک جانےکی تیاری کر رہا تھا۔ اپنے کمرے سے نکل کر آنگن میں آیا، تو وہاں امّی جان اپنے مخصوص تخت پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ اُس وقت صبح کے 8بج رہے تھے، ہر چیز اپنے معمول کے مطابق تھی، مَیں کسی کام سے دوسرے کمرے کی طرف جانے لگا، تو مجھے دیکھ کر انھوں نے اپنے پاس بلالیا اور پوچھا ’’بیٹا! ابھی تک کلینک کیوں نہیں گئے؟‘‘ مَیں نے بڑے پیار سے اُن کی طرف دیکھا اورکہا’’امّی! ابھی بہت وقت ہے، چلا جاؤں گا۔‘‘ تو امّی نے کہا ’’بیٹا! کل بھی تم لیٹ ہوگئے تھے، مریض تمہارا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ شاید کوئی مریض تکلیف میں ہواور تمہارا منتظر ہو، لہٰذا جلدی تیار ہو کر کلینک جائو۔‘‘ یہ میرے اور امّی کے درمیان آخری مکالمہ تھا، جو آج بھی میرے کانوں میں گونجتا ہے۔
امّی کی ہدایت پرمَیں وقت سے کچھ پہلے ہی کلینک پہنچ گیا، تو واقعی دو تین مریض میرے منتظر تھے، اُن کے بعد بھی کئی مریض آئے، جنہیں دیکھنے کے دوران وقت کاپتا ہی نہیں چلا۔ دن ساڑھے بارہ بجے میرے کزن، اشفاق نے مجھے فون کیا۔ ’’امجد یار! آج جلدی گھر نہیں آسکتے؟‘‘ مَیں نے وجہ پوچھی، تو بتایا کہ ’’خالہ کی طبیعت خراب ہے۔ اُنہیں اسپتال لے کرجانا ہے، تم فوری گھر آجائو۔‘‘ یہ سن کر میرے اوسان خطا ہوگئے۔ مَیں نے فوری طور پر کلینک بند کیا اور گھر کی طرف دوڑا۔ گھر پہنچا، تو صحن میں لوگوں کا جمِ غفیر تھا اور چارپائی پر میری متاعِ گراں مایہ، پیاری امّی جان ابدی نیند سورہی تھیں۔ وہ اس اُداس دنیا میں نہیں رہی تھیں۔
دراصل، میری والدہ انتہائی صابرو شاکر، آس پڑوس سے محبت رکھنے والی، بہت ہر دل عزیز اور مہمان نواز خاتون تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ اُن کے انتقال کی خبر سنتے ہی پڑوسی، محلّے والے سب دھاڑیں مار مار کررو رہے تھے۔یوں بھی میری ماں انتہائی نرم دل اور درگزر کرنے والی خاتون تھیں۔ سخاوت و سچائی اُن میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ مجھے یاد نہیں، کبھی کسی رشتے دار سے اُن کی معمولی تکرار تک بھی ہوئی ہو،کیوں کہ وہ ایک دردِ دل رکھنے والی منصف مزاج خاتون تھیں۔
آج، جب مَیں کلینک سے سرِشام گھر واپس آتا ہوں، تو گھر کے آنگن میں ہر طرف سناٹا ہوتا ہے۔ بلاشبہ، موت ایک اٹل حقیقت ہے، جس سے کسی کو مفر نہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماں کی جدائی اور اُن کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے سے بڑا کوئی اور غم، صدمہ بھی نہیں ہوسکتا۔ اللہ پاک سے دُعا ہے کہ وہ میری ماں کو جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (آمین) (ڈاکٹر راجا امجد حسین، کوٹ ترھالہ، آزاد کشمیر)