راضیہ اور اُس کا میاں، ناصر کئی روز سے کرائے کا مکان تلاش کر رہے تھے، مگر اُنہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا تھا۔ کہیں کرایہ زیادہ تھا، تو کہیں لوگ اچّھے نہیں تھے۔ راضیہ مشترکہ خاندانی نظام کے عذاب سہتے سہتے اب تھک گئی تھی۔ سخت گیر ساس اور تیز طرّار جیٹھانیاں اُسے سُکھ کا سانس ہی نہیں لینے دیتی تھیں اور اب تو اس کی صحت بھی روز بہ روز گرتی جا رہی تھی۔ وہ ڈیپریشن کی مریضہ بن گئی تھی اور اُس کی اس کیفیت کے اثرات تینوں بچّوں کی تربیت پر بھی مرتّب ہو رہے تھے۔ گرچہ ناصر خاصا تابع فرمان بیٹا تھا اور اُس نے کبھی الگ رہنے کا سوچا بھی نہ تھا، لیکن بیوی اور بچّوں کی قابلِ رحم حالت نے اُسے یہ قدم اُٹھانے پر مجبور کر دیا۔ اُس نے اپنے گھریلو حالات اپنے انتہائی قریبی دوست سے شیئر کیے، تو اُس نے بھی الگ ہونے کا مشورہ دیا۔
بالآخر خدا خدا کر کے راضیہ کی ایک سہیلی کے توسّط سے انہیں ایک معقول سا پورشن مل ہی گیا۔ کرایہ بھی مناسب تھا اور گھر کی بالائی منزل پر رہنے والے لوگ بھی اچّھے تھے۔ اوپر والے پورشن میں ایک فیملی رہائش پذیر تھی، جس کا سربراہ بیرونِ مُلک مقیم تھا۔ فیملی میں بیرونِ مُلک مقیم شخص کی بوڑھی ماں، بیوی اور چار بچّے شامل تھے، جب کہ گھر کی مالکن بھی وہی معمّر خاتون تھیں۔ راضیہ کو اُن میں بڑی اپنائیت محسوس ہوئی۔ بوڑھی خاتون نے اُسے بتایا کہ وہ گھر کرائے پر نہیں دینا چاہتی تھی، کیوں کہ یہ اُن کے مرحوم شوہر کی نشانی ہے اور اس سے اُن کی بہت سی خوش گوار یادیں وابستہ ہیں، مگر حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر انہوں نے ایک پورشن کرائے پر دینے کا فیصلہ کیا۔ بڑی بی کا کہنا تھا کہ اُن کا بیرونِ مُلک مقیم بیٹا اِن دنوں مالی مشکلات کا شکار ہے اور پھر یہاں منہگائی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔
بوڑھی خاتون اپنے بیٹے، بہو، پوتے اور پوتیوں سے بے حد محبّت کرتی تھیں اور ہر وقت اُن کی فکر میں گُھلتی رہتی تھیں۔ اگر کسی روز اُن کے اکلوتے پوتے کو گھر آنے میں ذرا سی تاخیر ہو جاتی، تو وہ اُس کی تلاش میں نکل کھڑی جاتیں۔ پوتیوں کی اسکول سے واپسی کا وقت ہوتا، تو وَین کے انتظار میں گلی میں کھڑی رہتیں، جب کہ اُن کی بہو یعنی بچّوں کی ماں ایک لاپروا سی عورت تھی۔ راضیہ کا ایک دو مرتبہ اوپر جانا ہوا، تو جا بہ جا گندگی اور سامان بکھرا دیکھ کے اُس پر بہو کا ’’سگھڑپن‘‘ بھی عیاں ہو گیا۔ یوں بھی وہ اکثر گھر کی بہ جائے محلّے کی یاترا پر رہتی تھی۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد راضیہ کو پتا چلا کہ بڑی بی کی بہو غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور زیادہ پڑھی لکھی بھی نہیں ہے۔ میاں کی کمائی اللّے تللّوں پر اُڑانے کے سوا اُسے کسی بات سے کوئی خاص دِل چسپی نہیں اور ساس کو تو پوچھتی تک نہیں۔
دُکھ، درد کی ماری اور محبّت کے لیے ترستی راضیہ اب بڑی بی کو ’’ماں جی‘‘ کہنے لگی تھی۔ اُسے ماں جی کی صورت ایک شفیق ہستی جو مل گئی تھی، جب کہ وہ ان کی بہو اور پوتیوں پہ حیران ہوتی، جنہیں اُن کی ذرا بھی قدر نہیں تھی۔ اکثر دوپہر کو جب راضیہ گھر کے کاموں سے قدرے فارغ ہوتی، تو ماں جی اُس کے پاس آ کر بیٹھ جاتیں اور اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے جی بہلاتیں۔ اس دوران راضیہ انہیں کھانے پینے کی کوئی چیز پیش کرتی، تو وہ اکثر خوش دِلی سے انکار کر دیتیں، تاہم کبھی کبھار کچھ چکھ ضرور لیتیں۔
البتہ اچّھی چائے پینے کی بے حد شوقین تھیں۔ گھر کو صاف سُتھرا رکھنے پر اکثر راضیہ کو سراہتیں اور اُس کے تینوں بچّوں کے ساتھ بڑی شفقت کا مظاہرہ کرتیں۔ ماں جی ہر جمعے باقاعدگی کے ساتھ نہا دھو کے، صاف سُتھرے کپڑے پہن کر آنکھوں میں سرما لگاتیں اور راضیہ کو ’’جمعہ مبارک‘‘ کہنے ضرور آتیں۔ اس دن بچّوں کو ٹافیاں یا مٹھائی وغیرہ بھی دیتیں۔ ایک روز شام کے وقت راضیہ کے پاس آئیں، تو خاصی اُداس لگ رہی تھیں۔ اُن کی آنکھوں میں نمی سی جھلملا رہی تھی۔ راضیہ نے کریدنا مناسب نہ سمجھا، تو خود ہی گویا ہوئیں، ’’پچھلے ہفتے بیٹی آئی، تو جاتے ہوئے تھوڑا سا چھوٹا گوشت دے گئی۔ کہہ رہی تھی کہ امی آپ کی صحت اچّھی نہیں ہے۔
اپنے لیے بنا کر کھا لیجیے گا۔ آج مَیں نے وہ گوشت چُولھے پر گلنے کے لیے رکھا اور بہو سے ہانڈی کا خیال رکھنے کا کہہ کر خود نماز پڑھنے چلی گئی۔ واپس آئی، تو گوشت جل کر راکھ ہو چُکا تھا۔ اب بھلا مَیں اس وقت کیا کھاؤں گی؟‘‘ ’’ ماں جی! تو کیا آپ اپنے لیے الگ کھانا بناتی ہیں؟‘‘ راضیہ نے حیران ہو کر پوچھا۔ ’’نہیں بیٹا! بچّوں کے ساتھ بھی کھانا کھا لیتی ہوں۔ دراصل مُجھے ڈاکٹر نے مرچ مسالے والے سالن کھانے سے منع کیا ہوا ہے اور بہو چٹ پٹے کھانوں کی بڑی شوقین ہے۔‘‘ راضیہ کواندازہ ہوگیا تھا کہ ماں جی اُس سے کچھ چُھپا رہی ہیں۔
اُسے بہت دُکھ ہوا اور پھر اُس نے پہلی بار ماں جی کو اپنے ہاتھ کا بنا کھانا زبردستی کھلایا، جس پر انہوں نے اُسے ڈھیر ساری دُعائیں دیں اور پھر اس کا ماتھا چُوم کر بولیں، ’’بھلے ماں باپ کی اولاد لگتی ہو بیٹی۔ بڑی اچّھی تربیت کی ہے اُنہوں نے تمہاری۔ اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔‘‘ ماں جی کو دُعائیں دیتا دیکھ کر راضیہ کی انکھیں نم اور دِل مسرّت سے لب ریز ہو گیا۔ اُس کی ماں کو دُنیا سے گزرے کئی برس بیت چُکے تھے اور ساس نے کبھی قبول ہی نہیں کیا تھا۔ پیار تو درکنار، وہ تو کبھی اُس سے نرمی سے بات بھی نہیں کرتی تھیں۔
راضیہ، ماں جی کے کافی قریب ہو گئی تھی۔ ماں جی نے اُسے بتایا کہ انہیں معدے کا السر ہے اور اس کی وجہ سے اکثر اُن کے معدے میں شدید تکلیف بھی رہتی ہے۔ اب وہ راضیہ کے پاس پیسے بھی رکھوانے لگی تھیں۔ یہ اُن کے شوہر کی پینشن کی رقم ہوتی تھی، جب کہ گھر کا کرایہ اور بیٹے کی بھیجی ہوئی رقم بہو دنوں میں اُڑا دیتی تھی، کیوں کہ آئے دن اُس کے میکے سے کوئی نہ کوئی آجاتا، تو اُس کی خُوب خاطر مدارت کی جاتی۔ ایک رات ماں جی کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی، توناصر اُنہیں اسپتال لے گئے، تب پتا چلا کہ اُن کا السر کافی خراب ہو چُکا ہے۔ ڈاکٹر نے ایڈمٹ ہونے کا مشورہ دیا، لیکن ماں جی آمادہ نہ ہوئیں۔ وہ بضد تھیں کہ جب اُن کا بیٹا چُھٹی پر گھر آئے گا، تب ہی وہ اپنا علاج کروائیں گی۔ اب آئے روز اُن کی صحت خراب رہنے لگی تھی۔
ایک روز راضیہ نے اُنہیں کافی سمجھایا کہ وہ اسپتال داخل ہو جائیں اور لگ کر اپنا علاج کروائیں، تو وہ اُداس ہو کر بولیں کہ ’’راضیہ بیٹی! اگر مَیں اسپتال چلی گئی، تو پیچھے بچّوں کا خیال کون رکھے گا۔ میری بہو بہت لاپروا ہے اور مُجھے بچّوں کی بڑی فکر رہتی ہے۔‘‘ پھر کہنے لگیں کہ ’’آج مَیں نے آٹے کے ڈرم میں جھانکا، تو وہ بالکل خالی تھا۔ دوپہر کو روٹی بازار سے منگوا کر کھائی۔ تمہارا میاں جب گھر آئے، تو اس سے کہنا کہ آٹے کا تھیلا بھی لا دے، تاکہ شام کو بازار سے روٹی نہ منگوانی پڑے۔ بڑی پوتی کی اسکول کی تین مہینے کی فیس جمع نہیں ہوئی۔
آج وہ ماں کو بتا رہی تھی کہ اگر کل تک فیس ادا نہ کی، تو اُس کا نام اسکول سے کاٹ دیا جائے گا۔ تمہارے پاس میرے جو پیسے رکھے ہیں، وہ ذرا آج مُجھے نکال دینا۔ مَیں کوئی جوڑ توڑ کر کے بچّی کی فیس تو دے دوں۔‘‘ یہ کہہ کر ماں جی تو چلی گئیں ،لیکن راضیہ کافی دیر اُداس ہی بیٹھی رہی۔ اُس نے سوچا کہ ایک یہ ساس ہیں، جنہوں نے اپنی بہو، بیٹے اور پوتے پوتیوں کو حرزِ جاں بنایا رکھا ہے اور اس کُہنہ سالی میں بیمار ہونے کے باوجود بھی انہیں ذہنی و جسمانی سکون میسّر نہیں، جب کہ دوسری طرف اس کی ساس ہیں۔ الگ ہونے کے اتنے عرصے بعد بھی انہوں نے راضیہ اور اُس کے بچّوں کا پوچھا کبھی نہیں پوچھا کہ وہ اُن کے گھر سے جانے پر ناراض تھیں۔
ایک روز راضیہ دوپہر کے وقت گھر کے کاموں سے فارغ ہو کرسستانے کے لیے بیٹھی ہی تھی کہ ماں جی کا پوتا آیا اور کہنے لگا کہ ’’جلدی اوپر آئیں… دادی امّاں کی طبیعت خراب ہے۔‘‘ راضیہ فوراً بھاگی بھاگی اُوپر پہنچی، تو ماں جی کو درد سے تڑپتے دیکھا۔ اُن کے معدے میں شدید تکلیف ہو رہی تھی، جب کہ اُن کی بہو اور پوتیاں بازار گئی ہوئی تھیں۔ راضیہ نے ماں جی کو پین کِلرز دیے، تو انہیں کچھ سکون ملا۔ پھر اگلے کئی روز تک وہ ہشاش بشاش رہیں۔ راضیہ کے پوچھنے پر بتاتیں کہ اب ان کی طبیعت کافی بہتر ہے۔
سردی میں شدّت آ چُکی تھی ۔ سارا دن یخ بستہ ہوائیں چلتی رہتیں۔ دن بھی کافی مختصر ہو گئے تھے۔ راضیہ کی کئی دن سے ماں جی سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ایک روز وہ صبح سویرے صحن میں گئی، تو دیکھا کہ ماں جی صحن میں نصب نلکے کے نیچے سر نیہوڑائے بال دھو رہی ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر راضیہ نے تقریباً چِلاّتے ہوئے کہا کہ ’’کیا ہوا ماں جی! اس قدر یخ بستہ موسم میں آپ یہاں بال کیوں دھو رہی ہیں؟ مُجھے بتا دیتیں، مَیں آپ کو پانی گرم کر دیتی…‘‘’’ ارے بیٹی! کچھ نہیں ہوتا۔ اس نلکے کا پانی گرم ہوتا ہے۔ براہِ راست موٹر سے آتا ہے ناں۔ پھر آج جمعہ ہے اور نہانا بھی ضروری ہے۔‘‘ وہ اطمینان سے بولیں۔
مگر راضیہ کو تسلّی نہ ہوئی اور اُس نے جسم پر بہانے کے لیے ماں جی کو زبردستی پانی گرم کر کے دے دیا اور ساتھ ہی کپڑے بھی استری کر دیے اور ہیٹر کے پاس بٹھا کر چائے بھی پلائی۔ اور وہ حسبِ معمول ڈھیروں دُعائیں دیتی ہوئی رخصت ہوگئیں۔ چند روز بعد پتا چلا کہ ماں جی شدید بیمار ہیں۔ یخ بستہ موسم نے اُن کی صحت پر خاصا بُرا اثر ڈالا تھا اور اس بار اُنہیں السر کی تکلیف کے ساتھ نمونیا بھی ہو گیا تھا۔ اُن کی حالت تشویش ناک تھی۔ راضیہ اُن سے مل کر آئی، تو کافی پریشان تھی۔
کتنی ہی دیر تک وہ ماں جی کی صحت یابی کی دُعائیں مانگتی رہی۔ پھر پتا چلا کہ اُن کی بیٹی اُنہیں اپنے اپنے گھر لے گئی ہے۔ اب راضیہ کو یہ سوچ کر کچھ اطمینان ہوا کہ بیٹی اُن کا زیادہ اچّھے طریقے سے خیال رکھے گی، مگر یہ اطمینان دیرپا ثابت نہ ہوا اور دو دن بعد ہی ماں جی کے انتقال کی خبر آگئی۔ راضیہ یہ سُن کر تڑپ ہی تو اُٹھی۔ طویل عرصے بعد ایک شفیق ہستی اُس کی زندگی میں آئی تھی اور وہ بھی راہیٔ عدم ہوگئی۔
ماں جی کو دُنیا سے گزرے تیسرادن تھا۔ راضیہ بچّوں کو اسکول وین میں بٹھانے کے لیے باہر آئی، تو اُس کی نگاہ دروازے کے پاس موجود ماں جی کے کپڑوں کے ڈھیر پر پڑی۔ وہ حیران و پریشان کھڑی تھی کہ اتنے میں ماں جی کی پوتی بھی اسکول جانے کے لیے باہر آگئی۔ راضیہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی اُس سے پوچھا کہ ’’یہ کپڑے آپ لوگوں نے اس طرح باہر کیوں پھینک دیے؟‘‘ ’’آپ کو نہیں پتا کہ وہ کتنی بیمار تھیں۔
ان جراثیم سے آلودہ کپڑوں کا ہم کیا کرتے بھلا۔ پھینکنے ہی تھے ناں۔‘‘ لڑکی نے تڑخ کے جواب دیا۔ ’’مگر بیٹا! ان کو آپ کسی پلاسٹک کے تھیلے میں تو…‘‘ راضیہ کی بات ادھوری رہ گئی اور لڑکی سُنی اَن سُنی کرکے چلی گئی۔ راضیہ کی آنکھیوں بھیگ گئیں۔ وہ اندر سے ایک بڑا سا شاپنگ بیگ لائی اور نم ناک آنکھوں کے ساتھ ماں جی کے کپڑے سمیٹتے ہوئے سوچنے لگی کہ ’’ہمارے اپنے، ہمارے دل کے قریب لوگ کتنی آسانی اور بے رحمی سے ہمیں یخ بستہ موسموں اور رویّوں کے سُپرد کر کے دشتِ برفاب میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں اور مُڑ کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔‘‘
ناقابلِ اشاعت کلام اور اُن کے تخلیق کار
غزل، نظم، ’’جلتے ہوئے غزہ کو دیکھ رہا ہوں‘‘ (والدہ عمّار احسن ایڈووکیٹ) ٭غزل (امداد جسکانی)٭شکریہ حمّاس(بنتِ محمّد) ٭اے ساجن(بابر سلیم خان، لاہور)٭نیا سال، وہ ہی مثال، نظم، ’’ہائے منہگائی (الطاف آرزو، ٹنڈو جام، حیدرآباد ) ٭القدس میرا گھر(زونیب کلیر، لاہور) ٭فلسطینی بچّوں کے نام (ڈاکٹر تبسّم سلیم، خیرپور میرس) ٭یادِ ماضی عذاب ہے یاربّ، قطعہ،مَیں فلسطین ہوں (شگفتہ بانو، لالہ زار،واہ کینٹ) ٭غزل(عرفان علی عابدی، ملیر، کراچی) ٭خونِ انسانیت (سیّدآفتاب حسین) ٭مرحومہ بیٹی فرحین کی یاد میں (والدہ فرحین، لالہ زار ، واہ کینٹ)۔
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کے تخلیق کار برائے ’’صفحہ ڈائجسٹ‘‘
سقوطِ ڈھاکا (نیلم حمید، کراچی) ٭تلاشِ حق(ماہم عتیق الرحمٰن، کراچی) ٭یومِ دفاع (مریم شہزاد، کراچی) ٭سیپ کا موتی(ثمینہ نعمان) ٭انوکھا پیغام (آسیہ پری وش، حیدرآباد)٭گھر کی چاردیواری، بے بسی کے آنسو (افروز عنایت) ٭جھوٹ کی سزا(تحریم فاطمہ) ٭افسانہ (جویریہ شاہ رخ) ٭بدنصیب، گھروالا، ہاتھ کی چائے(مبشّرہ خالد) ٭مداوا، روشن ہوئے چراغ (شہلاخضر) ٭ظاہر کی آنکھ (اسماصدیقہ) ٭پچھتاوا(جاوید اقبال، لاہور)٭کوشش، شوخیاں (پرنس افضل شاہین، بہاول نگر) ٭جب ہم نے میاں مٹّھوپالا (اسما شاہ، کراچی) ٭گلودادا(ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو)۔