عبد الباسط علوی
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، جو بھارت کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے، اقلیتی برادریوں کے خلاف امتیازی یا مخاصمانہ سمجھے جانے والے واقعات میں ملوّث ہونے کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہے۔ ان واقعات نے پارٹی کے سیکولر ازم، مذہبی روا داری اور جامع طرزِ حُکم رانی سے متعلق شدید تحفّظات کو ہوا دی ہے۔ اس کے باوجود کہ بی جے پی تمام شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی نام نہاد غیر جانب دارانہ پالیسی کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے، مگر حقیقی واقعات اس کے متعدد دعووں کی کُلی نفی کرتے ہیں۔اِس کی ایک بڑی مثال2002 ء کے گجرات فسادات ہیں، جو وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی کے دَورِ حکومت میں ہوئے، جو بعد میں بھارت کے وزیرِ اعظم بنے۔
ان فسادات میں بنیادی طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور بڑے پیمانے پر تشدّد، جانوں کے زیاں اور نقل مکانی کے الم ناک واقعات دیکھے گئے۔ بی جے پی کی قیادت میں ریاستی حکومت نہ صرف یہ کہ تشدّد کی روک تھام میں ناکام رہی،بلکہ یہ خود اقلیتی برادریوں پر حملوں میں ملوّث نکلی۔ یہ فسادات نریندر مودی کی سیاسی میراث پر سایہ ڈالتے ہیں، تو اقلیتوں کے حقوق سے متعلق بی جے پی کے دعووؤں کی قلعی بھی کھولتے ہیں۔ ایک اور متنازع واقعہ اتر پردیش کے 2013ء کے مظفّر نگر فسادات ہیں، جہاں ہندو اور مسلم برادریوں کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں متعدّد ہلاکتیں ہوئیں اور ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے، جب کہ فسادات سے پہلے فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے میں بی جے پی کا کردار بھی سامنے آیا۔
ناقدین کے مطابق، یہ پارٹی انتخابی فوائد کے لیے مذہبی خطوط پر بیان بازی کرکے ووٹرز کو تقسیم کرتی ہے اور مذہبی شناخت کو سیاست کے لیے مسلسل استعمال کرتی چلی آ رہی ہے۔اسی لیے بی جے پی کے سیاسی مخالفین فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی بقائے باہمی کے فروغ کے ضمن میں اس کی نام نہاد بڑھکوں پر مستقل سوالات اُٹھاتے ہیں۔ نیز، حالیہ برسوں میں’’ گاؤ ماتا‘‘ بھارت میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے ایک مرکزی نقطے کے طور پر اُبھری ہے۔ بنیاد پرست ہندو، گائے کی بے حرمتی کے الزامات لگا کر اقلیتی افراد پر متعدد حملے کرچکے ہیں اور اِس طرح کے حملوں میں زیادہ تر مسلمانوں یا دلتوں ہی کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جن پر گائے کو ذبح کرنے یا اس کا گوشت کھانے کا شبہ ہوتا ہے۔
بظاہر بی جے پی کی جانب سے ان حملوں کی زبانی کلامی مذمّت تو کی جاتی ہے، لیکن اِس کی’’ گائے کے تحفّظ‘‘ کی نام نہاد پالیسی سے سب اچھی طرح واقف بھی ہیں، جس کی بنیاد پر یہ نظریاتی صف بندی کرکے اپنے حامی گروہوں کی پُشت پناہی کرتی اور تشدّد کے ماحول کو فروغ دیتی ہے۔پھر یہ کہ گاؤ ماتا سے متعلقہ معاملات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی نے بھی اقلیتی برادریوں کے تحفّظ اور اُن کے حقوق سے متعلق خدشات کو بڑھاوا دیا ہے۔
مزید یہ کہ2019 ء میں شہریت ترمیمی قانون (CAA) کے نفاذ نے اس کی امتیازی نوعیت کی وجہ سے مُلک گیر احتجاج اور تنازعے کو جنم دیا۔ مودی حکومت نے اِس قانون کے ذریعے بھی مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے اُن کی بھارتی شہریت کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔ یہ قانون سازی بھارتی آئین میں درج سیکولر اصولوں کی واضح خلاف ورزی تھی، جس کے ذریعے مسلمان تارکینِ وطن کے ساتھ امتیازی سلوک اختیار کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق اس متنازع قانون کے نفاذ سے مسلم کمیونٹی کے مزید پس ماندہ ہونے کے خدشات بڑھ گئے۔
ایودھیا میں متنازع’’ رام مندر‘‘ کا افتتاح بھی بھارت کے سماجی و سیاسی منظر نامے میں ایک سیاہ داغ کے طور پر موجودہے۔ تاریخی بابری مسجد کو شہید کر کے بنائے جانے والے اِس مندر کا انتخابی مہم کے دوران افتتاح، دراصل نریندر مودی کا ایک اور سیاسی ہتھکنڈا اور ڈراما تھا، جو ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے رچایا گیا۔ بی جے پی، ہندو اکثریتی ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے اِس نوعیت کے بہت سے منصوبوں پر مستقلاً کام کر رہی ہے، جب کہ رام مندر تو طویل عرصے سے ہندو قوم پرستوں کی خواہشات کا مرکز رہا ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے نظریاتی اتحادی ہندو ہمیشہ اپنی مذہبی شناخت کی علامت کے طور پر اس کی تعمیر کی وکالت کرتے رہے ہیں۔
نومبر 2019 ء میں سپریم کورٹ کے تاریخی متنازع فیصلے کو، جس میں ہندو مدعیان کے حق میں ایک متنازع جگہ پر مندر کی تعمیر کی اجازت دی گئی، بی جے پی سمیت، مندر تحریک کے حامیوں نے’’ یومِ فتح‘‘ کے طور پر منایا، جب کہ ناقدین انتخابی مہم کے دَوران رام مندر کے افتتاح کو جے پی کے ایک بھونڈے سیاسی اقدام کے طور پر دیکھتے ہیں، جس کا مقصد اپنی ہندو قوم پرست بنیاد کو متحرّک اور انتخابات سے قبل عوامی حمایت کو مستحکم کرنا تھا۔ درحقیقت، بی جے پی اپنے قیام کے پہلے ہی دن سے ووٹرز کے مذہبی جذبات سے کھیلتی چلی آ رہی ہے۔
یہی پالیسی اختیار کرتے ہوئے اقتدار تک پہنچی اور اب اپنے اقتدار کی مزید مضبوطی، طوالت کے لیے ایسے مذہبی جذبات کو فروغ دے رہی ہے، جو اقلیتوں سے تعصّب و دشمنی پر مبنی ہیں۔اِسی طرح کے کئی اور اقدامات بھی بی جے پی کی اُس سوچ کو تقویت بخشتے ہیں، جو وہ مُلک کی اقلیتی برادریوں، بالخصوص مسلمانوں سے متعلق رکھتی ہے اور اس کے یہی اقلیت مخالف اقدامات اُس کے کٹّر حامیوں کو مزید توانائی فراہم کرتے ہیں۔س، اِن انتہا پسندانہ اقدامات کو بی جے پی کے وسیع تر سیاسی ایجنڈے کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے، جس میں ہندو قوم پرستی کی ایک مضبوط شکل کا فروغ اور بھارت کے سیاسی میدان میں اس سوچ کے غلبے پر زور دینا شامل ہے۔
رام مندر کا افتتاح بی جے پی کے نظریاتی ایجنڈے کی ایک طاقت وَر علامت ہے، جو اقلیتی برادریوں اور اختلافی آوازوں کو دباتے ہوئے ہندو شناخت اور ثقافتی قوم پرستی کو ترجیح دیتی ہے۔مزید براں، مودی حکومت کی جانب سے بھارت کے تعلیمی نصاب میں ترمیم کے منصوبے بھی اقلیتوں کے لیے باعثِ تشویش ہیں۔ یاد رہے، نریندر مودی کی قیادت میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے متاثر نصابی کتابیں بھارتی تاریخ اور سائنس کو نئی شکل دے رہی ہیں۔ بی جے پی کے نظریات سے وابستہ اسکول، حکومت کی ہدایت پر نصاب میں ردّوبدل کر رہے ہیں۔ مُلک کے نام وَر مؤرخین، سائنس دانوں اور ناقدین نے مودی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ اپنے ہندوتوا ایجنڈے کے تحت تعلیمی نصاب میں مَن پسند ترامیم کر رہی ہے۔
دراصل، بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے لاکھوں حامی نوجوانوں کے ذریعے شعبۂ تعلیم کو استعمال کرتے ہوئے اپنے نظریات کی بنیاد پر نئی نسل کی ذہن سازی کا ارادہ رکھتی ہے اور اِن نوجوانوں میں ایک بڑی تعداد اُن کی بھی ہے، جو حالیہ انتخابات میں پہلی بار ووٹ ڈال رہے ہیں۔ مودی حکومت کے زیرِ اثر ان اسکولز میں بچّوں کو ہندوتوا کے نظریئے پر مبنی نصاب پڑھایا جا رہا ہے، جس میں اُن تاریخی ہیروز کی منفی تصویر پیش کی جا رہی ہے، جن کا ہندو مذہب سے تعلق نہیں۔
آر ایس ایس کی، مُلک بَھر میں اِس طرح کے اسکولز کے وسیع نیٹ ورک کے قیام کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے کہ نوجوان نسل کی ہندوتوا کے نظرئیے کے تحت تربیت کی جائے تاکہ وہ مستقبل میں اُس کے لیے سیاسی اثاثہ ثابت ہو سکے۔ یہ اسکول مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت انگیز خیالات کا پرچار کرتے ہیں اور وہاں طلبہ کو ہندو بالادستی کی ایسی داستانیں سُنائی جاتی ہیں،جن سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات پروان چڑھ سکیں۔
بی جے پی راج میں بھارت کا سیکولر چہرہ کس طرح مسخ ہوا، اِس کا اندازہ سمجھوتا ایکسپریس سانحے سے بھی لگایا جاسکتا ہے،جسے17 برس بیت گئے ہیں، لیکن اس کے باوجود متاثرین اب تک انصاف کے منتظر ہیں۔ واضح رہے،18 فروری2007 ء کو شرپسندوں نے پانی پت کے مقام پر سمجھوتا ایکسپریس کو آگ لگا دی تھی، جو دہلی اور لاہور کے درمیان سفر کر رہی تھی۔ اس سانحے کے نتیجے میں43 پاکستانی،10 بھارتی شہری اور 15 نامعلوم افراد سمیت 68 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ 10پاکستانی اور2دیگر افراد زخمی ہوئے۔
اِس حملے کے بعد راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ایک کارکن، کمل چوہان کی گرفتاری عمل میں آئی، جس سے اِس واقعے کی پسِ پُشت قوّتوں کی نشان دہی ہوتی ہے۔ تحقیقات کے بعد آر ایس ایس رہنما، سوامی اسیم آنند اور اُس کے ساتھیوں کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں سمجھوتا ایکسپریس سانحے کے ملزمان کے طور پر پیش کیا گیا۔ نیز، انڈین انٹیلی جینس کور کے ایک حاضر سروس فوجی افسر، لیفٹیننٹ کرنل پروہت کو بھی اِس حملے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، کرنل پروہت نے مسلّح تصادم کو ہوا دینے کا اعتراف کیا۔ اس واقعے کے پیچھے ایک تنظیم،’’ابھینو بھارت‘‘ تھی، جس کی بنیاد2006ء میں بھارتی فوج کے ایک ریٹائرڈ میجر، رمیش اپادھیائے اور لیفٹیننٹ کرنل پرساد شری کانت پروہت نے رکھی تھی، اِن دونوں ہی کو ٹرین پر حملے کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر شناخت کیا گیا۔ تاہم، بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجینسی (این آئی اے) کی خصوصی عدالت نے سمجھوتا ایکسپریس کیس کے ماسٹر مائنڈ، سوامی اسیم آنند سمیت چار ملزمان کو بری کر دیا۔اِس فیصلے نے بھی بھارتی عدالتی نظام کی ساکھ پر کئی سوالات اُٹھائے کہ آخر وہاں مسلمانوں کو انصاف کیوں فراہم نہیں کیا جاتا؟
بھارت میں حالیہ عام انتخابات سے قبل ہونے والے بعض سرویز میں اپوزیشن جماعتوں کی عوامی مقبولیت میں اضافہ دیکھنے میں آیا، جو یقیناً مودی حکومت کے لیے کوئی خوش کُن خبر نہیں تھی۔ شاید یہی وجہ رہی کہ مودی سرکار نے اپوزیشن کی سب سے بڑی اور مُلک کی بانی جماعت، کانگریس کے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیئے۔ کانگریس پارٹی نے دعویٰ کیا کہ حکومتی پابندیوں سے اُس کے چار بینک اکاؤنٹس متاثر ہوئے۔
کانگریس کے ترجمان، اجے ماکن نے کہا کہ’’ حکومتی اقدامات کا مقصد انتخابات سے قبل پارٹی کو کم زور کرنا ہے۔ قومی انتخابات سے قبل اکاؤنٹس منجمد کرنا درحقیقت جمہوریت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔‘‘ ماکن نے ان خدشات کا بھی اظہار کیا کہ مودی حکومت یک جماعتی نظام کی طرف بڑھنا چاہتی ہے۔ اُنہوں نے واضح کیا کہ کھاتوں کو منجمد کرنے سے پارٹی کی سرگرمیوں میں خلل پڑا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف انتہا پسندی کی ایک حالیہ مثال سعودی ہوائی جہاز کی ہنگامی لینڈنگ کا واقعہ بھی ہے۔
بھارتی حکّام نے ایک بنگلا دیشی مسلمان مسافر کی فوری طبّی ضروریات کے باوجود ممبئی کے ہوائی اڈّے پر پرواز کو اُتارنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ ایوی ایشن ذرائع کے مطابق، سعودی ایئر لائن کی پرواز SV- 805 کو ڈھاکا سے ریاض جاتے ہوئے بھارتی فضائی حدود میں ایک بنگلا دیشی شہری کی طرف سے طبّی ایمرجینسی کی شکایت کا سامنا کرنا پڑا۔ نتیجتاً، پائلٹ نے ممبئی ہوائی اڈّے پر انسانی بنیادوں پر لینڈنگ کے لیے طیارے کا رُخ موڑنے کی کوشش کی اور ممبئی ایئر ٹریفک کنٹرول (ATC) سے اجازت طلب کی۔طیارہ ممبئی کے انتہائی قریب تھا۔ اے ٹی سی نے متاثرہ مسافر کی قومیت اور دیگر تفصیلات طلب کیں اور پھر حکّام نے بنگلا دیشی مسلمان مسافر کو اُتارنے سے انکار کر دیا، جس پر پائلٹ نے لینڈنگ منسوخ کر دی اور کراچی اے ٹی سی سے اجازت کی درخواست کی۔
کراچی اے ٹی سی نے انسانی بنیادوں پر لینڈنگ کی اجازت دے دی اور سعودی طیارہ صبح 7 بج کر 28 منٹ پر کراچی پہنچا، جہاں سِول ایوی ایشن کی میڈیکل ٹیم کی طرف سے مسافر کو طبّی امداد دی گئی۔ ہائی بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا 44 سالہ مسافر، ابو طاہر کی حالت تشویش ناک بتائی گئی کہ خراب حالت کے باعث اُسے مسلسل الٹیاں ہو رہی تھیں۔ دراصل، اِس طرح کے واقعات کو اقلیتوں اور مخالفین کو دَبا کر ہندو اکثریت سے ہم دردی سمیٹنے اور ووٹ حاصل کرنے کی کوششوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
بھارت کو عالمی سطح پر اکثر’’ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کہا جاتا ہے، تاہم، حالیہ برسوں میں بھارت پر تنقید میں اضافہ ہوا ہے، جس کی بڑی وجہ مودی حکومت کی جانب سے اقلیتوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک ہے۔اگر یہ رجحان جاری رہتا ہے( اور لگتا یہی ہے کہ اِس رجحان میں دن بدن اضافہ ہی ہوگا) تو بھارت کے نام نہاد سیکولر ازم کے غبارے سے رہی سہی ہوا بھی نکل جائے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ اقلیتوں پر مظالم اور مخالفین کی آواز گھونٹنے جیسے انتخابی ہتھکنڈوں نے بھارت کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔