• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حال ہی میں سعودی عرب کے ایک اعلیٰ سطح کے تجارتی وفد نے پاکستان کا دَورہ کیا اور تاجروں سے براہِ راست مذاکرات کیے۔براہِ راست مذاکرات کی وجہ یہ رہی کہ تاجر، بیورو کریسی سے متعلق شکایت کرتے رہے ہیں کہ وہ سرخ فیتے کے ذریعے اُن کے تجارتی منصوبے ناکام بنا دیتی ہے اور قوانین کی آڑ میں ایسی ایسی رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں کہ ساری محنت پر پانی پِھر جاتا ہے۔یہ شکایات صرف پاکستانی تاجروں ہی کو نہیں ہیں، بلکہ بیرونِ مُلک کے تاجر بھی یہی رائے رکھتے ہیں اور اِسی لیے وہ پاکستان میں تجارت کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔

نیز، کمیشن طلبی اور معمولی معمولی باتوں پر دستاویز پہ اعتراض عاید کرکے التوا کا شکار کرنا، وطنِ عزیز میں عام ہے۔ جب تک افسران کو اُن کا حصّہ نہ مل جائے، بات آگے نہیں بڑھ پاتی۔ پھر یہ کہ اعلیٰ عدلیہ کی معاشی معاملات میں غیر معمولی فعالیت اور اِسٹے آرڈرز جاری کرنے کی روایت بھی سرمایہ کاروں کے لیے بہت سے مسائل کا سبب ہے۔ اِس طرح کے عدالتی فیصلے میڈیا کی شہ سرخیوں میں تو جگہ پالیتے ہیں، لیکن مُلک، ترقّی کا انتظار کرتے کرتے تھک جاتا ہے۔ہمارے اکثر حُکم ران اِن رکاوٹوں کا بڑھ چڑھ کر ذکر کرتے ہیں، ان کے خاتمے کے وعدے بھی کیے جاتے ہیں، لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے، تو نتیجہ صفر بٹا صفر ہوتا ہے۔ 

تجارتی نقطۂ نظر سے مطلوب قانون سازی میں کبھی ججز کی دخل اندازی، تو کبھی اتحادی حکومتوں کا دبائو آڑے آجاتا ہے۔ریکوڈک معاہدے کی مثال سامنے ہے، جس میں پاکستان پر چھے ارب ڈالر جرمانہ عاید ہوا اور یہ مقدمہ لڑنے پر بھی کروڑوں ڈالرز خرچ ہوئے، مگر آج تک کسی نے حساب لینے کی زحمت نہیں کی، کیوں کہ وہاں تک پرواز میں سب کے پَر جلتے ہیں۔ وکلاء بات بات پر آئینی شقوں کا حوالہ دیتے ہیں اور معمولی معمولی امور پر عدالت جا پہنچتے ہیں، لیکن قومی معاشی صُورتِ حال سے اُنہیں کوئی غرض نہیں۔ وہ تو بس میڈیا میڈیا کھیلتے رہتے ہیں کہ اس کام میں بہت شہرت ہے۔

پہلے دفاعی ماہرین کی فوج ظفر موج ٹاک شوز کی جان ہوا کرتی تھی اور اب ان پر وکلاء چھائے ہوئے ہیں۔ خیر، ہم بات کر رہے تھے، پاکستان میں سعودی عرب کے تجارتی وفد کی آمد اور تاجروں سے مذاکرات کی، تو یہ قرض لینے کا معاملہ نہیں تھا، بلکہ اس دوران بزنس ٹو بزنس معاہدوں کی بات ہوئی۔یعنی آپ کیا دے سکتے ہیں اور ہم کیا لے سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ قوم کے پاس بے بہا وسائل ہیں، غیر معمولی ٹیلنٹ ہے، بس صرف مواقع ملنے کی دیر ہے، حکومت کی سرپرستی چاہیے اور پھر دیکھیں کہ پاکستانی قوم کیسے سُپر پاور بنتی ہے، تو اب یہ موقع مل گیا ہے۔ 

اب یہ ہمارا امتحان ہے کہ ہم دوست مُلک کی پیش کش سے کس قدر فوائد سمیٹ سکتے ہیں۔اب گیند ہمارے کورٹ میں ہے اور ماہرین کو محض مشورے دینے کی بجائے میدانِ کار زار میں اُترنا ہوگا۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس راہ میں کوئی بین الاقوامی رکاوٹ بھی نہیں ہے۔ سعودی عرب، شہباز شریف کی حکومت کو تسلیم کرتا ہے اور دوسری طرف، آئی ایم ایف پروگرام کی، جو اِس طرح کے معاہدوں کا ضامن ہوتا ہے، تیسری قسط قومی خزانے میں جمع ہو چُکی ہے۔

ہم سال ہا سال سے خارجہ پالیسی اور معیشت کی ہم آہنگی پر زور دیتے آ رہے ہیں۔بار ہا مثالوں سے واضح کیا کہ کیسے ہمارے اردگرد کے ممالک چین، بھارت اور بنگلا دیش اِس میدان میں کام یابی حاصل کرچُکے ہیں۔یہ تینوں ممالک ہم جیسے لوگوں ہی پر مشتمل ہیں اور تقریباً ہم جیسے ہی وسائل رکھتے ہیں، مگر ان کا شمار تیز ترین ترقّی کرنے والی معیشتوں میں ہوتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ان ممالک میں سیاسی حالات آئیڈیل رہے اور جمہوریت مثالی رہی، تو یقیناً ایسا شخص ان ممالک کی سیاسی صُورتِ حال سے ناواقف ہے۔

چین یک جماعتی نظام کے تحت چلتا ہے، فیصلے کمیونسٹ پارٹی یا صدر کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت بنا۔بھارت میں اِن دنوں عام انتخابات ہو رہے ہیں اور زیادہ تر اپوزیشن لیڈرز جیل میں ہیں یا کیسز بُھگت رہے ہیں۔ اپوزیشن چیخ رہی ہے کہ اُسے لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی۔ اقلیتیں جس عذاب اور اذیّت سے گزر رہی ہیں، وہ بھی سب کے سامنے ہے، اس پر دنیا بَھر میں تنقید بھی ہوتی ہے۔ بنگلا دیش میں دو ماہ قبل الیکشن ہوئے، تو ساری اپوزیشن جیل میں تھی۔ دنیا چیختی رہی، مگر کیا ہوا؟ ایک بات یاد رہے، اِن ممالک میں تمام تر خرابیوں کے باوجود کسی نے ایک لمحے کے لیے بھی قومی ترقّی پر انگلی نہیں اُٹھائی، کوئی تقسیم نہیں ہوئی، کسی نے اپنی قومی اسمبلی یا حکومت کو جعلی نہیں کہا۔ 

غور کریں، جب کوئی پاکستانی باہر جاتا ہے یا باہر رہنے والا ہے، تو وہ اِس بات کا کیا جواب دے گا کہ اس کے جمہوری ایوان، الیکشن کے باوجود جعلی ہیں، جب کہ ایوانوں میں اپوزیشن بھی موجود ہے۔پاکستان میں اپوزیشن نے خارجہ معاملات پر بھی انتہائی نامناسب رویّہ اپنا رکھا ہے۔ اُس کی جانب سے آئی ایم ایف کو خطوط لکھے گئے کہ پاکستان کو اُس وقت تک قرضہ نہ دو، جب تک ہمارے لیڈر جیل میں ہیں، حالاں کہ سب جانتے ہیں کہ اس عالمی ادارے کا کسی مُلک کی اندرونی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ایک طرف باہر سے ڈکٹیشن نہ لینے کی باتیں کی جاتی ہیں، مگر دوسری طرف، غیر مُلکی اداروں کو اپنی اندرونی مُلکی سیاست میں مداخلت کی دعوت دی جا رہی ہے۔امریکا اور برطانیہ وغیرہ میں آئے دن جلسے کیے جا رہے ہیں تاکہ پاکستانی، دوسری اقوام کے سامنے ذلیل و رسوا ہوتے رہیں۔

ہمارے ہاں منہگائی کا بھی بہت ذکر ہوتا ہے اور اِس ضمن میں دوست ممالک کی ترقّی کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے،دُعا ہے کہ وہ مزید ترقّی کریں، مگر ہمیں زمینی حقائق بھی نظرانداز نہیں کرنے چاہئیں۔اسرائیل پر حملے کے بعد ایران کا ریال دس فی صد گرا اور ایک ڈالر 50ہزار ریال کے برابر ہوگیا۔

وہاں افراطِ زر ریکارڈ چالیس فی صد پر ہے، جب کہ برادر مُلک تُرکی میں، جو ایک زمانے میں معاشی رول ماڈل تھا، منہگائی کی شرح 68.5 فی صد ہے اور پاکستان میں یہ شرح26 فی صدکے قریب ہے۔تُرکی میں زیادہ تر افراد کریڈٹ کارڈز پر گزارہ کر رہے ہیں اور اس طرح شاید ہی کوئی شخص مقروض ہونے سے محفوظ ہو۔ کم ازکم اُجرت 17000لیرا ہے، جب کہ غربت کی سطح 25000 لیرا ہے۔ 

یہ بتاتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے کہ وہاں عام آدمی کے لیے گھر کا بجٹ بنانا ممکن نہیں رہا۔سینٹرل بینک نے سُود کی شرح50 فی صد کردی ہے، جب کہ پاکستان میں یہ شرح22 فی صد ہے۔ہمیں کئی ایسے پاکستانی ملے، جو تُرکی میں عارضی رہائش اختیار کر چُکے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ یہ یورپ جانے کی راہ داری ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ خود تُرک شہری یورپ نہیں جاپا رہے، تو وہ پاکستانیوں کو یہ سہولت کیسے دے سکتے ہیں۔ پھر وہ پہلے ہی شام کے29 لاکھ مہاجرین کے بوجھ تلے پِسے ہوئے ہیں۔اردوان کو تُرکی کی معیشت کا معمار سمجھا جاتا ہے اور وہ وہاں سب سے طویل عرصے تک حُکم رانی کا ریکارڈ بھی رکھتے ہیں، تاہم، حالیہ بلدیاتی انتخابات میں انقرہ اور کئی دیگر بڑے شہروں سے شکست کھا گئے کہ عوام معاشی حالات پر مطمئن نہیں ہیں۔

اِن مثالوں سے اندازہ ہوجانا چاہیے کہ خارجہ پالیسی کو معیشت سے الگ کرنے کے نتائج کس قدر بھیانک ہو سکتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے، ہر وقت ’’انقلاب، نقلاب‘‘ کے نعرے لگانے سے کیا تباہی آسکتی ہے۔ ایسے حالات میں پورے معاشرے پر ایک ہیجانی کیفیت طاری رہتی ہے۔ ہمارے اہلِ دانش، میڈیا اور اوورسیز پاکستانیوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ اپنی ذاتی سیاست یا خواہشات کی بنیاد پر دنیا بھر میں مُلک کی جگ ہنسائی کا سبب کیوں بن رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کرنا چاہیے کہ امسال گندم اور کپاس سمیت کئی بمپر فصلیں ہوئی ہیں، جن سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔

دنیا مفادات کی ہے اور اس میں جذبات یا نعروں کی کوئی جگہ نہیں۔جمہوریت اور انسانی حقوق جیسے معاملات بین الاقوامی فورمز پر ڈیبیٹ کے شغل ہیں، ورنہ آج تک سلامتی کاؤنسل، او آئی سی یا بڑی طاقتیں غزہ میں کیا کر پائیں۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ دنیا میں ہر کام کے قواعد و ضوابط ہیں، جیسے کہ جنیوا کنونشن میں طے کردہ اصول۔ اِسی طرح بین الاقوامی بارڈر کراس کرنے سے متعلق بھی کڑے قوانین ہیں، جو کسی کے جذبات کو خاطر میں نہیں لاتے، وگرنہ غریب ممالک کی پوری پوری آبادیاں یورپ، امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا میں بسی ہوتیں۔ امریکی یونی ورسٹیز میں غزہ پر اسرائیلی حملوں کے خلاف مظاہرے بہت اہمیت کے حامل ہیں، تاہم یہ بھی یاد رہے کہ ان مظاہروں کے دَوران امریکا میں اسرائیل کے لیے91 بلین ڈالرز کا امدادی بِل منظور ہوا، جس سے جنگ میں اسرائیل کو پہنچنے والے تمام نقصانات کا ازالہ ہوجائے گا۔

یہ ہے اتحاد اور یہ ہے خارجہ پالیسی۔ ہم کبھی اُدھر لڑھکتے ہیں، تو کبھی اِدھر، مگر ملتا ملاتا پھر بھی کچھ نہیں۔اب تو قومی غیرت کا یہ حال ہو چُکا ہے کہ ہمارے شہری اسلام کے مقدّس ترین شہروں میں بھی جاکر بھیک مانگتے ہیں اور گداگری کو انڈسٹری بنا دیا ہے۔ہم اِس عمل کا یہی جواز دیتے ہیں کہ جب حُکم ران قرض لیتے پِھرتے ہیں، تو عوام نے بھیک مانگ کر کون سا جرم کردیا؟پاکستان کے غیر قانونی تارکینِ وطن کی کشتیاں ڈوبنے کی خبریں اب بھی سُننے کو ملتی رہتی ہیں، گویا انسانی اسمگلنگ کی مصیبت بھی گلے آن پڑی ہے۔ پڑھے لکھے پاکستانی جب ملازمت کے لیے کسی غیر مُلکی ادارے میں جاتے ہیں، تو قوم کے یہ اعمال نامے اُن کے سامنے رکھ دیئے جاتے ہیں۔

قومی یک جہتی کی باتیں اور مشورے تو میڈیا پر دن بھر ہی سُننے کو ملتے ہیں اور وی لاگرز الگ اپنی دانش وَری جھاڑ رہے ہیں، لیکن جب کوئی مُلکی معاشی سمت کی درستی کا ذکر کرتا ہے، تو فوراً ماضی کے قصّے اور جمہوریت کی کہانیاں چھیڑ دی جاتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ معاشی ماہرین یا سیاست دان قوم کو بتائیں کہ معاشی خود کفالت کے علاوہ کون سا نظام ہے، جو ایک دن بھی عام لوگوں کو سہارا دے سکے۔

یوں لگتا ہے کہ ایسے لوگ نہیں چاہتے کہ مُلکی معاشی حالات ٹھیک ہوں اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع نکلیں۔بس، جذباتی معاملات پر ریلیاں، جلسے ہوتے رہیں اور قوم تقسیم رہے تاکہ اُن کے مشوروں اور ماہرانہ آراء کا بول بالا رہے۔بعض افراد بھارت کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں بھی اُس کی طرح اپنے نوجوانوں کو آن لائن بزنس کی جانب متوجّہ کرنا چاہیے، جس سے مُلک میں اربوں ڈالرز آئیں گے۔ 

یہ تجویز اچھی تو ہے، مگر کیا کسی نے سوچا کہ یوٹیوب، فیس بُک، ٹِک ٹاک جیسی کمپنیز کے بڑے سرمایہ کاراور ان کے سی ای اوز بھارتی ہیں، تو جس دن اُن کی مرضی کے خلاف کوئی کام کیا، وہ اِن سائٹس کے ذریعے آمدنی کے ذرایع بند کردیں گے۔ جو یوٹیوبرز اپنی کام یابیوں کی داستانیں سُناتے ہیں، وہ ذرا بھارت کے خلاف بول کر تو دیکھیں، پھر پتا چلے گا کہ دانش وَری اور سوشل میڈیا مہارت کیا ہوتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بڑے بڑے دعوے کرنے والے اہم سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے اعلیٰ عُہدوں تک پہنچیں یا پھر خود ایسی کمپنیز بنا کر پاکستانی نوجوانوں کو محفوظ روزگار دیں، تو پتا چلے کہ وہ مُلک و قوم کے کس قدر خیر خواہ ہیں۔ 

پھر یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ اگر ہم خود دن رات کرپشن، کرپشن کے نعرے بلند کرتے رہیں، سیاست دانوں کو جیلوں میں ڈالنے کی دھمکیاں دیں، تو دنیا میں ہماری خارجہ پالیسی کی کیا ساکھ ہوگی اور کون یہاں اپنا سرمایہ لگائے گا۔بھارت میں مودی پر کون سا الزام نہیں، لیکن شاید ہی دنیا کا کوئی مُلک ہو، جو اس کے ساتھ تجارت نہ کرنا چاہتا ہو۔ اس کے ماہرین اور تاجروں کو دنیا بھر میں خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ 

افسوس تو اِس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں ہر چیز کو کھیل، تماشا سمجھ لیا گیا ہے اور توقّع یہ لگائے بیٹھے ہیں کہ ایک دن زمین خود سونا اُگلنے لگے گی یا بیرونِ مُلک سے خزانوں کے منہ کُھل جائیں گے۔جب قوم پر ایسی سوچ مسلّط ہو، تو پھر کسی خارجہ یا معاشی پالیسی کی کیا ضرورت؟ نعروں ہی سے کام چل جائے گا کہ اس سے عوام بھی خوش ہوتے ہیں اور رہنماؤں کی بھی خُوب واہ واہ ہوتی ہے۔