کراچی میں سڑکوں پر لوٹ مار کی وارداتیں مختلف ادوار میں پہلے بھی بڑی تعداد میں ہوتی رہی ہیں لیکن پچھلے چند برسوں کے دوران سڑکوں پر ڈکیتی کے خلاف مزاحمت کی کوشش کرنے والے متاثرہ شہریوں کو لٹیرے جس بے خوفی سے پستول کی گولی کا نشانہ بناتے ہیں، ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ مستند ذرائع کے مطابق سال رواں کے ابتدائی تین مہینوں میں 55 افراد ڈکیتی پر مزاحمت کے نتیجے میں قتل ہوئے جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد126 اورا س سے پچھلے سال 111 تھی۔ حالات پر قابو پانے کے حکومتی دعووں کے برعکس جرائم میں کمی نہیں اضافہ ہورہا ہے ۔ آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے گزشتہ روز میڈیا سے بات چیت میں اعتراف کیا ہے کہ مزاحمت پر قتل اور زخمی کرنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ ان کے بقول کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی یومیہ 400 اور سالانہ 80 ہزار وارداتیں رپورٹ ہوتی ہیں۔ اسٹریٹ کرائم کو پولیس کیلئے بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ مجرموں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن جاری ہے، متعدد ملزمان کو پکڑا گیا ہے، ڈکیتی کے دوران شہریوں کو قتل کرنے والے 64فیصدکیسزکا سراغ لگایا جاچکاہے اور تفتیش کیلئے 67 افسران مختص کیے گئے ہیں۔ صوبائی پولیس کے سربراہ نے گاڑیوں کی چوری اور منشیات کے کاروبار میں اضافے کا اعتراف کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ پولیس کی کارکردگی بہتر بنانے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ تاہم صوبائی حکومت اور پولیس کے سربراہ ایسے دعوے پہلے بھی کرتے رہے ہیں لیکن حالات میں بہتری کے بجائے ابتری بڑھتی چلی رہی ہے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ پولیس کے نظام میں رچی بسی رشوت، سفارش اور اقربا پروری جیسی بنیادی خرابیوں کو دور کیا جائے جن کی وجہ سے ریکارڈ پر موجود حقائق کے مطابق جرائم کے سرپرست بااثر افراد کے کارندے بڑی تعداد میں خود پولیس میں شامل ہوگئے ہیں‘ جب تک یہ کام نہیں ہوگا بہتری کی کوئی کوشش مؤثر نہیں ہوگی۔