ایک سوال جو آج کل ہر کسی کے ذہن میں اٹھتا ہے وہ یہ کہ کیا معیشت مضبوط ہو رہی ہے؟ اچھی خبر یہ ہے کہ 2008 سے معیشت تیزی سے مضبوط ہو رہی ہے اور بری خبر یہ ہے کہ افراط ِ زر کا خطرہ اپنی جگہ موجود ہے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا معیشت بہتر ہو رہی ہے؟ توکچھ ایسی معاشی علامتیں ہیں جن میں تمام معیشت کی تبدیلی سے پہلے ردوبدل شروع ہو جاتا ہے۔ یہ اشارے یا علامتیں پیش گوئی کرتے ہیں کہ معیشت میں مثبت تبدیلی آنے والی ہے اور ان کو نمایاں معاشی علامتیں کہا جاتا ہے۔
اب ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا نجی اداروں نے قرض لینا شروع کردیا ہے؟ اور یہ بات یقینی ہے کہ معیشت ترقی ہی تب کرتی ہے جب نجی ادارے قرض لینا شروع کردیں۔ جب وہ قرض لینا شروع کرتے ہیں تو تب ہی وہ سرمایہ کاری شروع کرتے ہیں اور یہ سرمایہ کاری ملکی معیشت میں بہتری کا عندیہ دیتی ہے۔
جولائی 2013 میں نئی حکومت کے اقتدار میں آنے کے ایک ماہ کے اندر ہی بیرون ممالک کے سرمایہ کاروں کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری OICCI کی رپورٹ کے مطابق کاروباری حلقوں میں ایک بہت زبردست تبدیلی سامنے آئی وہ یہ کہ کاروباری رجحان حیران کن طور پر منفی 34 فیصد سے مثبت 2فیصد کے اضافے تک پہنچ گیا۔ 2013-14 کے پہلے چھ ماہ میں نجی اداروں کے قرض کی شرح 53ارب سے 231ارب تک پہنچ گئی جو کہ 4.35گنا زیادہ ہے۔
نئی کمپنیوں کے قیام سے بھی معیشت میں بہتری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کیونکہ ایک بات تو طے ہے کہ معیشت تب ہی پھلے پھولے گی جب نجی اداروں کا اعتماد بحال ہوگا۔ سکیورٹی اورایکسچینج کمیشن کے مطابق جب نجی اداروں کا اعتماد بحال ہوتا ہے ایسی صورت میں نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن میں اضافہ سامنے آتا ہے۔ نئی کمپنیوں کی سہولت پچھلے سال کی نسبت یکم جولائی 2013سے 30نومبر 2013تک 17فیصد کے تناسب سے بڑھی ہے۔
مشینری کی درآمدات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور نجی ادارے اسی صورت میں مشینری درآمد کرتے ہیں جب ملک کی حکمرانی معیشت دوست قائدین کے ہاتھ میں ہو۔اس وقت مشینری کی درآمد 26 فیصد ہے۔
ایک اور علامت کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے لئے یہ بھی تصور کی جاتی ہے کہ جب اس ملک میں تعمیراتی کام بڑھ جائیں۔ فروری 2014 سے اب تک ملکی سیمنٹ کی کھپت 9فیصد تک بڑھ گئی ہے۔
معاشی ترقی کے اشاریوں کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ وہ معیشت کی ترقی کرنے سے پہلے مثبت ہوجاتے ہیں۔ بنیادی سوال یہ کہ کیا واقعی مثبت تبدیلی ہو رہی ہے؟ جواب یہ ہے کہ بنیادی معاشی اشارے ایک مثبت تصویر کشی کررہے ہیں۔ معیشت کے لئے سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی ہے جس سے نمٹنے کے لئے حکومت حکمت عملی اپنانے کی بجائے جمود کا شکار ہے۔ اسٹیٹ بنک کی آزادی اور خودمختاری پر سمجھوتہ کرلیا گیا ہے جو کہ ملکی معیشت کے حق میں بہتر نہیں ہے۔ معیشت کو لاحق دیگر خطرات میں ایک اور خطرہ بیرونی ادائیگیوں کا ہے جس نے معیشت کو دبائو میں رکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت سے خطرات ہیں جن میں بجٹ خسارہ، بنکو ںکے حکومت کو دیئے گئے قرضے، زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی ہوئی کمی، تیزی سے کم ہوتا ہوا ریونیو اور ریونیو کے مقابلے میں بڑھتے ہوئے اخراجات۔
زمینی حقائق کے مطابق معاشی نمو کی تین اولین شرائط ہیں۔ سیاسی استحکام، معاشی استحکام اور پالیسی سازی۔ ورلڈ بنک کے مطابق ’’حکومتی طرز ِ عمل اور کاروبار کے لئے سازگار ماحول تب ہی مہیا ہوسکتا ہے جب پاکستان میں گڈگورننس ریاست کا اہم ستون ہو۔‘‘ ’’ماہر معاشیات کے لئے برسرروزگار ہونے کا بہترین ہتھیار بذات ِ خود معیشت ہے‘‘۔(گلبریتھ)