اگر بحرِ ہند کے نقشے پر نظر ڈالی جائے، تو ایرانی بندر گاہ چا بہار اور پاکستانی پورٹ، گوادر بالکل آمنے سامنے ہیں۔یہ دونوں بندرگاہیں ان پڑوسی ممالک کے لیے تاریخی، معاشی اور فوجی لحاظ سے نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ ظاہر ہے، جب بھی اِس خطّے میں کوئی نئی صُورتِ حال سامنے آئے گی، تو نئی توقّعات اور خدشات بھی جنم لیں گے۔ بھارت اور ایران کے درمیان چابہار سے متعلق ایک طویل مدّتی معاہدہ ہوا ہے۔ اِس معاہدے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ بھارت دس سال تک چا بہار بندرگاہ چلائے گا اور یہ بھی کہ وہ یہاں کروڑوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے گا۔
ہر مُلک کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے مفادات کے لیے اپنے مُلک کی سرزمین استعمال کرے، چاہے وہ خشکی پر مشتمل ہو یا پانی پر۔ اِس لیے اگر ایران نے بھارت سے چابہار پورٹ چلانے کا معاہدہ کیا ہے، تو اوّل یہ اُس کا اختیار ہے، دوم، اِس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں، کیوں کہ چابہار پورٹ کی تعمیر، سرمائے کی فراہمی اور ترقّی میں بھارت کا کردار کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں۔ البتہ، پاکستان کے لیے اِس معاہدے پر غور کرنا کئی زاویوں سے اہم ہے۔
چابہار بندرگاہ، گوادر کے بالکل سامنے، دوسرے کنارے پر واقع ہے اور گوادر، پاکستان کا ڈیپ سی پورٹ ہے، جسے چین نے تیار کیا اور وہی اِسے چلا رہا ہے۔ چین اور بھارت کے بحرِ ہند میں مقابلے سے بین الاقوامی امور کا ہر طالبِ علم واقف ہے۔ گوادر پورٹ، سی پیک منصوبے کا سب سے اہم پراجیکٹ ہے اور یہاں اُن شاہ راہوں کا اختتام بھی ہوگا، جن کے ذریعے چین اور وسط ایشیائی ممالک کے ٹریڈ رُوٹس کا مال دنیا بَھر میں جائے گا۔
گزشتہ سال بحرِ ہند میں ایک اور ڈیویلپمنٹ ہوئی، جب سی پیک کے مقابلے میں امریکا، مغربی ممالک اور بھارت نے دہلی جی-20 کانفرنس کے موقعے پر ایک نئے ٹریڈ رُوٹ کا اعلان کیا، جو ممبئی سے دبئی، سعودی عرب، حیفہ اور یورپ کی یونانی پورٹس کو باہم ملائے گا، جس سے مال امریکا اور کینیڈا تک جائے گا۔اس رُوٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ایران شامل نہیں، جب کہ عرب ممالک اس کا اہم ترین حصّہ ہیں۔ اس ٹریڈ رُوٹ پر چین کا شدید ردّ ِعمل سامنے آیا۔چا بہار پورٹ کے نئے طویل المدّتی معاہدے کے بعد اب بھارت نہ صرف مغربی سی رُوٹ کا حصّہ ہے، بلکہ ایران کا بھی پارٹنر بن چُکا ہے۔
اِس سے کچھ اُسی قسم کی سیاست کے سیاسی بُو آتی ہے، جیسا غیر جانب دار ممالک کی تنظیم میں ہوا تھا کہ جس کے ذریعے نہرو نے بیک وقت مغرب اور روس سے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔جب کہ ہمارا یہ حال تھا کہ1965 ء کی جنگ میں امریکا نے دوطرفہ فوجی معاہدوں کے باوجود ہمیں ہتھیار فراہم کرنے پر پابندی عاید کردی تھی۔ بے چارے فیلڈ مارشل، ایّوب خان ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ لکھوانے کے علاوہ کچھ نہ کرسکے۔ اُن کے دَور میں امریکا نے پاکستان کو خُوب استعمال کیا اور بدلے میں کچھ ڈالرز دے دئیے، جنہیں ایّوب خان، اُن کے رشتے دار اور دوست احباب کھا گئے۔
اُس دَور کی ترقّی کے جُھوٹے، سچّے قصّے اب بھی بے خبر لوگ دُہراتے رہتے ہیں، حالاں کہ وہ’’ بابائے مارشل لا ‘‘ تھے، جن کے کیے کی سزا آج تک پاکستانی قوم بُھگت رہی ہے۔اِس امر پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ ایرانی صدر کے دورۂ پاکستان کو ابھی ایک مہینہ بھی نہیں ہوا اور بھارت سے معاہدہ کرلیا گیا۔ یہ وہی دورہ ہے، جس سے متعلق کچھ ماہرین کا فرمان تھا کہ’’ اس نے پاکستان کی اہمیت دو چند کردی اور مشرقِ وسطیٰ کی ہیئت ہی بدل ڈالی۔
ایران اور پاکستان کے ملاپ سے ایک نئی صف بندی ہونے جارہی ہے۔‘‘حالاں کہ یہ ایک معمول کا دورہ تھا، جس سے غیرمعمولی نتائج اخذ کرنا محض سمجھ بُوجھ کا فقدان ہے۔ بہرحال، ایران اور بھارت کے مابین چا بہار معاہدہ ہوچُکا ہے، تو اب دیکھنا یہ ہے کہ اِس معاہدے کے تناظر میں پاکستان کے مفادات کا کس طرح تحفّظ کیا جاسکتا ہے اور اس کے منفی اثرات سے کس طرح نبرد آزما ہوا جائے۔
سب سے پہلے تو یہ ذہن میں رہے کہ گوادر اور چابہار دونوں بحرِ ہند کی پورٹس ہیں۔یہ لینڈ لاکڈ ممالک کو گرم پانیوں تک پہنچانے کی اہم ترین راہ داریاں ہیں، جیسے افغانستان اور وسط ایشیا کے لینڈ لاکڈ ممالک۔یاد رہے، جب رُوس نے پہلی افغان وار کا آغاز کیا، تو یہی کہا جارہا تھا کہ وہ اس کے ذریعے گرم پانیوں تک رسائی کی کوشش کر رہا ہے۔
پاکستان اور روس کے درمیان صرف ایک بارہ میل کی پٹّی حائل تھی۔گرم پانیوں کی اہمیت اِس لیے ہے کہ اس پر موجود پورٹس سال کے بارہ مہینے کُھلی رہتی ہیں اور تجارت بغیر رُکے جاری رہتی ہے، جب کہ برف سے ڈھکی بندرگاہیں چھے ماہ بند رہتی ہیں، جیسے روس کی شمالی پورٹس اور یورپ کی کئی بندرگاہیں۔
کراچی اور گوادر پاکستان کے لیے اللہ کی بے بہا نعمتیں ہیں، مگر اندرونی سیاست نے ہمیں اِس قدر اندھا کر رکھا ہے کہ ہم ان کی اہمیت پہچاننے کے قابل نہیں۔ قائدِ اعظم نے کچھ سوچ کر ہی کراچی کو مُلک کا دارالحکومت بنایا تھا، مگر ایّوب خان جیسا ڈکٹیٹر اسے اسلام آباد لے گیا اور خیالی سیکیوریٹی کے نام پر اربوں روپے خرچ کردئیے۔
بحرِ ہند دنیا کا دوسرا بڑا سمندر ہے، اِس سے متعلق ایک بحری ماہر نے کہا تھا کہ’’ جس نے بحرِ ہند پر قبضہ کر لیا، اُس نے دنیا پر راج کیا۔‘‘اس کے کچھ ایسے آبی راستے ہیں، جو دنیا میں فوجی اور تجارتی لحاظ سے نہایت اہم ہیں۔آبنائے ملاکا، سنگاپور، آبنائے ہرمز، خلیجِ عدن اور پرانے زمانے میں نہرِ سوئیز وغیرہ۔
اگر انہیں بند کردیا جائے، تو دنیا ٹھپ ہوکر رہ جائے گی۔ برطانیہ نے اسٹریٹیجک اہمیت کی حامل ان گزرگاہوں پر قبضہ کر کے تین سو سال تک مشرقِ وسطیٰ سے انڈونیشیا تک حُکم رانی کی، جس سے متعلق تاریخ میں کہا گیا کہ’’برطانوی راج پر سورج غروب نہیں ہوتا۔‘‘برطانیہ کی کُل آبادی چھے کروڑ تھی، مگر اس کی ایک تجارتی کمپنی، ایسٹ انڈیا کمپنی نے مغل راج کا سنگھاسن ڈگمگا دیا، جب کہ ہم سازش، سازش اور غدّاری، غدّاری ہی پکارتے رہ گئے۔ اگر سازش ہوئی تھی، تو اس میں اپنے ہی شامل تھے۔ چابہار پورٹ کی تعمیر کے لیے بھارت اور ایران کے درمیان 2014 ء میں معاہدہ ہوا۔
اس پر وزیرِ اعظم نریندر مودی اور اُس وقت کے ایرانی صدر حسن روحانی نے دست خط کیے تھے۔ اسی کے ساتھ، ایک سات سو میل لمبی شاہ راہ کی تعمیر کا بھی معاہدہ ہوا، جس پر تہران میں صدر کرزئی، صدر حسن روحانی اور وزیرِ اعظم مودی نے دست خط کیے۔یہ شاہ راہ ایرانی پورٹ چابہار کو افغانستان کے دارالحکومت سے ملاتی ہے اور اس کی تعمیر بھی بھارت ہی کی مرہونِ منّت ہے۔
ہم افغان طالبان کی سہولت کاری اور میزبانی کرکے انہیں امریکا سے ملاتے رہے، جب کہ بھارت، اربوں ڈالرز کے معاہدوں کے ذریعے برادر مسلم ممالک سے ڈالرز سمیٹتا رہا۔ طالبان نے مسلم برادری کا پاس کیا اور نہ ہی ایرانی حکومت نے۔ ایسا لگتا ہے، جیسے ہم صرف اسمگلنگ کا مال خریدنے ہی کے لائق ہیں اور بس، ہماری یہی اوقات رہ گئی ہے۔
بھارت اور ایران کے درمیان ہونے والے چابہار معاہدے کو دونوں ممالک نے ایک تاریخی لمحہ قرار دیا ہے۔ایران کے شہری ترقّی کے وزیر اور بھارت کے جہاز رانی کے وزیر نے اس معاہدے پر دست خط کیے۔ یہ منصوبہ گزشتہ سال پیش کیا گیا تھا، جس کے تحت بھارت بحری، سڑک اور ریل نیٹ ورک کے ذریعے چا بہار سے افغانستان اور وسط ایشیا تک رسائی حاصل کر سکے گا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت اور ایران کے درمیان مشترکہ شپنگ کمپنی کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ، بھارت کے لیے بحرِ ہرمز اور مشرقِ وسطیٰ میں میری ٹائم سیکیوریٹی کے ضمن میں قدم جمانے کے ضمن میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت اِس منصوبے کے لیے ایران کو 120ملین ڈالرز کے آلات بھی فراہم کرے گا، جو فنی مہارت کے علاوہ ہوں گے، جب کہ ٹرانسپورٹیشن اور انفرا اسٹرکچر کے لیے بھی 250ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے گا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مشرقِ وسطیٰ میں کسی بھی نوعیت کی جنگ ہوتی ہے، تو چا بہار ایک متبادل پورٹ کے طور پر بھارت اور ایران کے کام آسکے گی۔
ایرانی وزیر کا کہنا تھا کہ’’یہ منصوبہ ایرانی ترقّی میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ امریکا نے وارننگ دی ہے کہ یہ معاہدہ اُس کی پابندیوں کی زَد میں آسکتا ہے۔ایران پر تو پہلے ہی پانچ سو سے زاید پابندیاں عاید ہیں، لیکن امریکا، بھارت سے ڈرتا ہے اور اسے کسی نہ کسی طرح استثنا دے ہی دیتا ہے، کیوں کہ اس کے اسٹریٹیجک مفادات بھارت کو ناراض کرنے کے متحمّل نہیں ہوسکتے۔
ہمارے لیے تو اُس نے ڈونلڈ لُو کی کانگریس میں کی گئی تقاریر رکھی ہوئی ہیں، جس پر بہت سے پاکستانی سیاست دان اور بین الاقوامی امور کے نام نہاد ماہرین بغلیں بجاتے رہتے ہیں کہ’’ پاکستان مزید رگیدا جار ہا ہے۔‘‘امریکیوں کو ایسی بے وقوف قوم چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔امریکا، بھارت پر کبھی پابندی نہیں لگاتا، چاہے وہ چابہار معاہدہ ہو یا سِکھ شہریوں کے قتل کا معاملہ۔ نومبر2018 ء میں چابہار بندرگاہ سے ایکسپورٹ ہونے والی کئی اشیاء کو امریکی پابندیوں سے استثنا دے دیا گیا، جس میں ایران سے افغانستان جانے والی پیٹرولیم مصنوعات بھی شامل تھیں۔
اِس ضمن میں کہا گیا کہ’’ یہ اشیاء افغانستان کی ترقّی اور انسانی امداد کے لیے ضروری ہیں۔‘‘ مگر غزہ کے لیے تو ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔فروری2019 ء سے ایران کے راستے تجارتی ٹرک افغانستان جا رہے ہیں۔ حال ہی میں افغان حکومت کے ایک وفد نے تہران کا دورہ کیا اور چابہار پورٹ کے لیے35 ملین ڈالرز دینے کا معاہدہ کیا۔
یاد رہے، طالبان حکومت ایک پائی کی تجارت نہیں کرتی۔یومیہ پچاس لاکھ ڈالزر پاکستان سے اسمگل ہوکر وہاں جا رہے ہیں اور اس میں ہمارے ہم وطن ہی حصّے دار ہیں۔ ہم صرف بے بسی سے منہ تکتے ہیں، جب کہ ہمارے کچھ سیاست دان اُن کے شان میں قومی اسمبلی اور جلسوں میں تقاریر بھی کرتے ہیں۔
امریکی پابندیاں لگتی ہیں یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا، تاہم، ہمارے لیے قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب امریکا سے نیوکلیئر ڈیل کرنی ہو، اُس سے التجا کرکے چھے ارب ڈالر مانگنے ہوں یا قیدیوں کے تبادلے کا معاملہ ہو، ایران نے کب ہمیں اعتماد میں لیا۔ پاکستان کو یہ دیکھنا ہے کہ ہماری کراچی اور گوادر پورٹس کا کیا بنے گا۔
کراچی کے بانی، سر چارلس نیپئر نے کہا تھا’’ Karachi you Jewel of the East۔‘‘ذرا کراچی کی گلیوں میں پِھریں، سڑکوں پر آئیں، آبادیوں میں جائیں، بندرگاہ پر جائیں، تو اس کی حقیقت کُھل جائے گی۔لیکن بہر طور، چابہار پورٹ کے اثرات سال بہ سال تجارت اور فوجی نقطۂ نظر سے سامنے آتے رہیں گے۔
کراچی میں بہت سے تحقیقی ادارے اور یونی ورسٹیز قائم ہیں، بلکہ کچھ تو خود بحریہ کے سرکردہ ریٹائرڈ افسران کی ماہرانہ نگرانی میں چلتی ہیں، اِسی طرح نیشنل ڈیفینس یونی ورسٹی جیسے ادارے بھی موجود ہیں، تو اُنہیں اِس سلسلے میں ٹھوس تحقیق کرکے کوئی ایسا قابلِ عمل پلان حکومت کو پیش کرنا چاہیے، جس کی روشنی میں پاکستان، چابہار پورٹ کے منفی اثرات سے محفوظ رہنے کے ساتھ، بھارت کے پاکستان دشمن اقدامات کا بھی سدّ ِباب کر سکے۔