• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ تقریباً نو برس پرانی بات ہے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات انتہائی کشیدہ تھے۔ افغان صدر اشرف غنی پاکستان پر طالبان کی پشت پناہی کا الزام لگا رہے تھے۔ پاکستان کی طرف سے افغانستان کے راستے بھارتی مداخلت کا الزام لگایا جا رہا تھا۔ پاک افغان بارڈر پر سرحدی جھڑپوں کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔ پاکستان کی طرف سے طورخم بارڈر پر ایک گیٹ بنایا جا رہا تھا۔ افغان حکومت اس گیٹ کی تعمیر پر اعتراض کر رہی تھی کیونکہ اس کے خیال میں گیٹ کی تعمیر سے قبل افغانستان سے اجازت نہیں لی گئی۔ پاکستان کا موقف تھا کہ یہ گیٹ پاکستانی حدود میں تعمیر کیا جا رہا ہے لہٰذا افغانستان سے اجازت لینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ جب معاملہ طے نہ ہوا تو افغان نیشنل آرمی نے گیٹ تعمیر کرنے والے عملے پر فائرنگ کردی۔ پاکستانی فورسز نے جوابی فائرنگ کی تو افغان فوج بھاگ گئی۔ اگلے دن پاکستانی فوج کے افسر میجر علی جواد چنگیزی اپنی نگرانی میں گیٹ تعمیر کروا رہے تھے۔ افغان فوج نے ان پر براہ راست فائرنگ کی جس کے باعث وہ شہید ہوگئے۔ان کی شہادت سے دونوں ممالک میں کشیدگی مزید بڑھ گئی اور افغان فوج کے جوان بھی مارے جانے لگے۔ پاکستان نے چند ہفتوں کے اندر طور خم بارڈر پر گیٹ کی تعمیر مکمل کرکے اسے باب پاکستان کا نام دیااور کراسنگ ٹرمینل کو میجر علی جواد چنگیزی ٹرمینل کا نام دے دیا۔ اشرف غنی باب پاکستان کی تعمیر پر زخمی سانپ کی طرح تڑپ رہے تھے اور ادھر پاکستانی حکام کو افغانستان پر فضائی حملوں کے مشورے دیئے جا رہے تھے۔ پاکستانی میڈیا پر افغانوں کو احسان فراموش قرار دیا جا رہا تھا۔ انہی دنوں میں نے ایک کالم لکھا ۔ 20 جون 2016ء کو شائع ہونے والے اس کالم کا عنوان تھا۔ ’’کیا افغان احسان فراموش ہیں؟‘‘ اس کالم میں یہ عرض کیا گیا کہ افغان حکومت کے ساتھ شکوہ شکایت ضرور کیا جائے لیکن پوری افغان قوم کو احسان فراموش قرار دے کر اس کی تحقیر نہ کی جائے کیونکہ حضرت علی ہجویریؒ سمیت کئی صوفیا افغانستان سے آکر ہمارے اجداد کو مسلمان کرتے رہے۔ میں نے لکھا کہ ہماری رعونت آمیز حب الوطنی دوست کم اور دشمن زیادہ پیدا کرتی ہے۔ اس کالم میں علامہ اقبالؒ کے ان اشعار پر غور کی درخواست کی گئی۔

آسیا یک پیکر آب و گل است

ملتِ افغاں درآں پیکر دل است

از فساد او فساد آسیا

درکشاد او کشاد آسیا

تادل آزاد است، آزاد است تن

ورنہ کاہے در رہ باد است تن

ان اشعار کا مطلب ہے کہ ایشیا آب و گل کا ایک پیکر ہے اور اس پیکر کے اندر ملت افغان کی حیثیت دل کی مانند ہے۔ اس دل میں فساد سے سارے ایشیا میں فساد پیدا ہوسکتا ہے اور دل میں سکون سے سارے ایشیا میں سکون پیدا ہو سکتا ہے۔ اس کالم پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ان کے کچھ متکبر ساتھی سخت ناراض ہوئے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر میرے خلاف ایک مہم شروع کردی حالانکہ مذکورہ کالم میں واضح طور پر میں نے یہ لکھا تھا کہ افغان حکمران یاد رکھیں اصل مسئلہ نہ کابل میں ہے نہ اسلام آباد میں ہے بلکہ اصل مسئلہ دہلی میں ہے جہاں پرتھوی راج چوہان کے پیروکاروں کو محمد غوری کے لئے خواجہ معین الدین چشتیؒ کی حمایت نہیں بھولتی اور شاہ ولی اللہ کی طرف سے احمد شاہ ابدالی کو لکھا جانے والا خط نہیں بھولتا جس میں برصغیر کے مسلمانوں کی طرف سے مدد کی اپیل کی گئی تھی۔افغان حکمرانوں کو یاد دلایا گیا کہ بھارت ماتا کے پجاری صرف پاکستان نہیںبلکہ افغانستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال اور برما کو بھی اکھنڈ بھارت میں ضم کرنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف جنرل راحیل شریف اور ان کے متکبر ساتھی مجھ سے ناراض ہوگئے دوسری طرف ایک یورپی ملک کے سفارتکار نے میرے کالم میں موجود تاریخی حقائق کے مطابق مزید تفصیلات حاصل کیں۔ اس نے میری تجویز کردہ کئی کتابیں پڑھیں۔ وہ علامہ اقبالؒ کی بلند نگاہ سے بڑا متاثر ہوا جنہوں نے قیام پاکستان سے کئی سال قبل افغانستان کو ایشیا کا دل قرار دیا تھا۔ جولائی 2021ء میں مجھ پر پاکستانی میڈیا میں پابندی تھی۔ میں نے واشنگٹن پوسٹ میں ایک کالم لکھا ۔ 28جولائی 2021ء کو شائع ہونے والے کالم کا عنوان تھا THE TALIBAN IS PLAYING A DOUBLE GAME۔امریکا اور طالبان میں دوحہ معاہدہ تو کرا دیا گیا لیکن طالبان نے کابل پر قبضے کی تیاری مکمل کرلی ہے اور افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد طالبان کابل پر قبضہ کرلیں گے۔ اس کالم پر پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں سیخ پا ہوگئیں۔ صدر اشرف غنی کے ترجمان نے میرے کالم پر واشنگٹن پوسٹ سے احتجاج کیا۔ میرے دوست یورپی سفارتکار نےبھی رابطہ کیا اور پوچھا کہ اگر افغانستان پر طالبان نے قبضہ کرلیا تو کیا پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری آ جائے گی؟ میرا یہ دوست اپنی حکومت کا نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر بن چکا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ طالبان کے آنے کے بعد بھی پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری کا امکان کم ہے کیونکہ ہمارے ارباب اختیار دوستوں کو دشمن بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ یورپی سفارتکار نے مجھے یاد دلایا کہ تمہارے پاس علامہ اقبال جیسے شاعر کے کلام کی دولت ہے جو پاکستان، افغانستان، وسط ایشیا، ایران، ترکی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک سے دوستی کا پیامبر ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ علامہ اقبال فلسطین کے بہت بڑے حامی تھے اس لئے پاکستان میں ایک طاقتور لابی انہیں اپنے مفادات کے لئے خطرہ سمجھتی ہے۔ اقبال عوام کا شاعر ہے۔ خواص ان کے دشمن ہیں۔ یہ سفارت کار آج کل اپنے ملک میں وزارت خارجہ کے ایک اہم عہدے پر فائز ہے۔ پرسوں اس نے طویل عرصے کے بعد مجھ سے رابطہ کیا۔ اس نے مجھے افغان وزیر خارجہ اور بھارتی سیکرٹری خارجہ کی ملاقات کی تصویر بھیجی اور 2016ء میں شائع ہونے والے کالم کا ترجمہ بھیجا جو ڈنمارک کے ایک اخبار نے شائع کیا تھا۔ اس نے سوال پوچھا کہ کیا تم اب بھی یہی سمجھتے ہو کہ افغان احسان فراموش نہیں ہوتے؟ میں نے اسے جواب میں کہا کہ میرا آج بھی وہی موقف ہے جو 2016ء میں تھا۔ اس وقت اشرف غنی افغان طالبان کی وجہ سے پاکستان پر الزامات لگاتا تھا آج پاکستان کالعدم ٹی ٹی پی کی وجہ سے افغان طالبان پر الزامات لگاتا ہے۔ یہ برسراقتدار گروہوں کی لڑائی ہے، دو قوموں کی لڑائی نہیں ہے۔ طالبان پر تنقید ضرور ہونی چاہیے افغان قوم کی تحقیر نہیں ہونی چاہیے۔ طالبان پر تنقید کرنے والے مت بھولیں کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ آج پاکستان کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے جو دوستوں کو دشمن بنانے کی ماہر ہے۔

تازہ ترین