گزشتہ دنوں کسی نے مجھے واٹس ایپ پر ایک تصویر فارورڈ کی جسکو دیکھنے کے بعد میں شدید رنجیدہ ہوگیا، تصویر میں آگ سے جلے درخت کے نیچے زمین پر ایک پرندے کا گھونسلہ گِرا ہوا دکھائی دے رہاہے جس میں آتشزدگی کاشکار مادہ پرندہ اپنے انڈےبچوں سمیت مردہ حالت میںپڑی ہے، سوشل میڈیا کی اس پوسٹ کے نیچے کیپشن درج ہے کہ یہ بھاگ سکتی تھی ، اس کے پاس اڑ جانے کی صلاحیت بھی تھی مگر وہ نہیں بھاگی کیونکہ ان انڈوں میں زندگیاں تھیں مگر ہم آگ لگا دیتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس ماچس ہے احساس نہیں۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مارگلہ کی ہری بھری سرسبز پہاڑیوں میںکئی روز تک جاری رہنے والی شدیدآتشزدگی نے ہزاروں درختوں کو خاکستر کردیا ہے، وہاں پر بسنے والی جنگلی حیات اور پرندوں کے قدرتی ٹھکانے جل کر خاکستر ہوگئے ہیں،کئی ایکڑ پر محیط جنگل چٹیل میدان اور راکھ کا ڈھیر بن گئے ہیں، اس حوالے سے کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( سی ڈی اے ) کا کہنا ہے کہ مارگلہ ہلز پر لگنے والی آگ پر مکمل طور پر قابو پالیا گیا ہے، آگ بجھانے کے عمل میں دوسو سے زائد فائرفائٹرز نے حصہ لیا جبکہ ایوی ایشن اسکواڈرن اور پاک فوج کے ہیلی کاپٹرز نے بھی معاونت کی۔ مارگلہ پہاڑیوں پرپھیلتی بے قابوآگ کی وجہ ریسکیوآپریشن میں سست روی بھی قراردی جارہی ہے جبکہ اس حوالے سے ایف آئی آر درج کرکے کچھ افرادکی گرفتاریوں کی بھی اطلاعات ہیں، تاہم اس امر کا حتمی تعین فی الحال نہیں کیا جاسکا کہ آتشزدگی کی اصل وجہ شدید گرم موسم میں قدرتی ہے یا پھر اس میںکچھ اور عناصر ملوث ہیں۔ملک بھر میں شدید گرمی کی لہر کے دوران جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات صرف اسلام آباد کی مارگلہ پہاڑیوں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ پنجاب کے ضلع خوشاب کی وادی سون، آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا کے جنگلات میں بھی آگ بھڑکنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ماہرین کے مطابق ہر سال مئی سے جولائی تک فائر زون کہلاتا ہے جس میں عموماً جنگلات میں آگ لگنے کے شدید خدشات ہوتے ہیں۔اسی طرح دنیا کے مختلف مقامات بشمول امریکی ریاست کیلیفورنیا، آسٹریلیا، ایمازون، انڈونیشیا وغیرہ میں واقع جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات رونماہوتے ہیں۔ مختلف ریسرچ رپورٹس کے مطابق زیادہ تر واقعات میں آگ قدرتی طور پرگرم موسم میں سورج کی تیز تپش یا پھر آسمانی بجلی گرنے سے لگ جاتی ہے جبکہ ایک بڑی وجہ انسانوں کی جانب سے بے احتیاطی بھی ہے، گرمیوں میں جب درجہ حرارت بہت زیادہ ہوتا ہے اور خشک سالی جیسے حالات ہوتے ہیں تو ایک چھوٹی سی چنگاری شدید آگ بھڑکاسکتی ہے،جب جنگل میں ایک بار آگ لگنا شروع ہوتی ہے تو وہ ہوا، اترائی، چڑھائی، خشک پتوں اورٹہنیوں، شاخوں کی صورت میں قدرتی ایندھن حاصل کرکے تیزی سے آناََ فاناََبڑے رقبے پر پھیل جاتی ہے، فائر فائٹرز کے مطابق ایندھن، آکسیجن اور تپش میں سے کسی ایک سے نمٹ لیا جائے تو آگ کےپھیلنے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔دنیا بھر میں جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات پر روک تھام کیلئے بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں اور اس حوالے سے سب سے اہم کردار فضا سےمتاثرہ جگہ پر پانی پھینک کر آگ بجھانے والے پروفیشنل واٹر بمبار طیاروں کا سمجھا جاتا ہے، تکنیکی طور پر ان ہوائی جہازوں یا ہیلی کاپٹرمیں بڑی مقدار میں پانی اسٹور کرکے متاثرہ جگہ پر معلق رہتے ہوئےپانی پھینکنے کی صلاحیت ہوتی ہے، میڈیا اطلاعات کے مطابق دنیا کا سب سے بڑا واٹر بمبار روس کے پاس ہے جولگ بھگ انچاس ہزار لیٹر پانی لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے،امریکہ میںآگ لگنے کے خدشات کے پیش نظر ہر سال موسم گرما میں ایک ہزار سے زائد واٹر بمبار کرائے پر حاصل کئے جاتے ہیں تاکہ کسی بھی ایمرجنسی صورتحال سےموثر انداز میں بروقت نمٹا جاسکے۔ میری معلومات کے مطابق مارگلہ پہاڑیوں میںبڑے پیمانے پر لگنے والی حالیہ آگ پر قابو پانے کیلئے ملٹری ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹربھی حرکت میں آگئے تھے لیکن ہولناک آتشزدگی پر قابو پانا آسان ثابت نہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے فضا سے پانی پھینک کر آگے بجھانے والے پروفیشنل واٹر بمبار طیارے خریدنے کا فیصلہ کیا ہے، جہاز کی خریداری کیلئے جاری ٹینڈر کے مطابق کم از کم 10ہزار لیٹر پانی لے جانے کی صلاحیت کا حامل جہاز درکار ہے جس میںملکی اور غیر ملکی کمپنیاں حصہ لے سکتی ہیں۔آج سے دو سال قبل بلوچستان کے جنگلوں میںبھڑکنے والی آگ پر قابو پانے کیلئے ایران نے اپنا واٹر بمبار طیارہ پاکستان بھیجا تھا۔آج دنیا بھر میں آتشزدگی کے ہولناک واقعات پر قابو پانے کیلئے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں، اس حوالے سے بہت سی ریسرچ رپورٹس منظرعام پر آرہی ہیں، تاہم اس حوالے سے وسیع پیمانے پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ دنیا بھر کے مختلف مقامات پر جنگلات میں لگنے والی آگ کی بڑی وجہ انسان ہیں ، جنگلات میں لگنے والی آگ کی روک تھام اور جنگلی حیات کے تحفظ میں بھی انسان ہی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج جب مارگلہ پہاڑیوں پر آگ پر قابو پالیا گیا ہے تو ہمیں اب ذمہ داران کا بھی تعین کرنے کی ضرورت ہے،ہر دفعہ اچانک ہرے بھرے جنگلات میں آگ لگنا اور پھر اگلی آگ لگنے تک خاموش بیٹھ جانا کوئی دانشمندی نہیں، اس حوالے سے ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو بھی ریسرچ کے میدان میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ، ہمارے میڈیا کو یہ آگاہی فراہم کرنی چاہیے کہ جنگلات کی آگ کو روکنے میں لوگوں پر کیا ذمہ داریاںعائد ہوتی ہیں اور احتیاطی تدابیر کی بدولت آگ کے خطرے کو کم کرنے کیلئے کونسے اقدامات بروئے کار لائے جاسکتے ہیں۔ میری مالک سے دعا ہے کہ دوبارہ خدا کی بے زبان مخلوق کو انسانوں کی وجہ سے آگ میں جل کر زندگی سے محروم نہ ہونا پڑے۔کاش، ہمارے پاس ماچس کے ساتھ احساس بھی آجائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)