• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اولاد کا والدین سے رشتہ بِلاشُبہ دُنیا کا سب سے کامل، مخلص اور قابلِ رشک رشتہ ہے۔ دُنیا میں آتے ہی سب سے پہلے والدین نومولود کا استقبال کرتے ہیں، جو صاحبِ اولاد ہوتے ہی ایک معتبر مقام پر فائز ہو جاتے ہیں اور پھر جیسے جیسے بچّہ عُمر کے مدارج طے کرتا جاتا ہے، والدین کی خدمت و فرماں برداری اس پر واجب ہوتی چلی جاتی ہے۔ 

اولاد کے لیے ماں باپ کی رضا کا حصول گویا بہشت کے دروازے کُھلنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اگر ماں کے قدموں تلے جنّت رکھی ہے، تو باپ اس جنّت کا دروازہ ہے اور والد کو راضی کیے بغیر ،اولاد کا جنّت میں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ 

نیز، باپ کی بد دُعا سے بچنے کی بھی تلقین کی گئی ہے۔ والدین اپنے بچّوں کی اچّھی تعلیم و تربیت، صحت و تن دُرستی، پرورش و نگہداشت اور اصلاح کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ بچّوں کو ناز و نعم سے پالنا آسان کام نہیں، لیکن والدین، بالخصوص باپ بڑی ہمّت و حوصلے سے اپنی اولاد کی خوشی اور کام یابی و کام رانی کے لیے شب وروز بِلا تکان محنت کرتا ہے۔

گزشتہ چند دہائیوں کے دوران اقدار، عادات، رجحانات اور مزاجوں سمیت سبھی کچھ تبدیل ہو گیا ہے، لیکن والدین کی اپنی عزیز از جان اولاد سے پُرخلوص محبّت کی رِیت جوں کی تُوں برقرار ہے، جب کہ والد کے لیےتو یہ کہنا ہرگز بے جا نہ ہو گا کہ وہ اپنا خون، پسینہ بہا کر اپنے بچّوں کو ہر قسم کی آسائشیں فراہم کرتا ہے، مگر اُن پر کوئی احسان جتاتا ہے اور نہ اُنہیں اپنی تکالیف کا احساس ہونے دیتا ہے، بلکہ اگر باپ کا بس چلے، تو اولاد پر اپنی جان ہی وار دے، جب کہ دوسری جانب بدقسمتی سے وہی اولاد، جو کبھی قدم اُٹھانے تک کے لیے بھی باپ کی محتاج ہوتی تھی، پیر جمتے ہی اپنی خوشیوں، آرزوؤں اور کام یابیوں کی خاطر باپ کی قربانیوں کو فراموش کر دیتی ہے۔

اُسے اپنے مخلص و بے ریا باپ کا وجود بوجھ محسوس ہونے لگتا ہے، اور جسے کندھے سے اُتارنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ وہی بچّہ، جو پہلے باپ کی ہر بات پر سَر جُھکا دیا کرتا تھا اور جس کے لیے باپ کا کہا حرفِ آخر ٹھہرتا تھا، اب اُس کی کوئی بات خاطر میں نہیں لاتا۔ ’’آپ کیا جانیں‘‘، ’’آپ کو نہیں معلوم‘‘، ’’براہِ مہربانی خاموش رہیں… ‘‘یہ اور اس سے ملتے جلتے جملوں کی بازگشت جب بڑھتی ہے، تو والدین، خصوصاً باپ کو وقت سے پہلے بوڑھا اور کم زور کر دیتی ہے اور وہ مَرد جو سماج کا ایک اہم پُرزہ تھا، اُسے اس کی اولاد ہی ناکارہ کرنے میں پیش پیش رہتی ہے۔

یاد رہے کہ اولاد کے لیے باپ کی رضا میں اللہ کی رضا پوشیدہ ہے، لیکن ظالم وقت نے اس روِش کو بھی بدل ڈالا اور اب اولاد کی خوشی و غمی میں والدین اپنا دُکھ سُکھ تلاش کرتے ہیں، کیوں کہ اب اگر بچّے معمولی سی بات پر ناراض ہو جائیں، تو گھر چھوڑنے سے لے کر دُنیا چھوڑ دینے تک کی دھمکی دینے سے گریز نہیں کرتے۔

وہ اپنی عزّتِ نفس کو والدین کی عزّت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ حالاں کہ باپ کی حیثیت تو دُھوپ میں گھنے درخت کی سی ہے ، جو اپنے بچّوں کو تپش سے محفوظ رکھتا ہے۔ سرد ہوائیں چلیں یا گرم لُو کے تھپیڑے، تیز آندھیاں آئیں یا طوفانِ باد و باراں، کڑے سے کڑے حالات میں باپ کے مضبوط کندھے ہی اولاد کو سہارا دیتے ہیں۔ اولاد کی خاطر باپ کا وجود معاشرے کی بے حسی کے زخم کھاتا ہے اور پھر برداشت و رواداری کے مرہم سے انہیں مندمل کر کے نئے زخم کھانے کے لیے تازہ دَم ہو جاتا ہے۔

یاد رہے کہ جس طرح ایک بیوی کے لیے اُس کے شوہر کا وجود تحفّظ کی ضمانت ہوتا ہے، بلکہ یہ تک کہا جاتا ہے کہ گھر کی دہلیز پر رکھی مَرد کی جُوتی بھی عورت کے گرد دفاعی حصار بنا دیتی ہے، اُسی طرح ایک بیٹی کے لیے بھی باپ کا مقام، اس کا کردار اور گفتار و عمل قابلِ تقلید اور قابلِ فخر ہوتے ہیں۔ اگر ماں کو اُس کی ممتا ممتاز کرتی ہے، تو باپ کی قربانیاں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ 

دُنیا میں اَن گنت ایسی مثالیں موجود ہیں کہ باپ نے خود کو مٹا ڈالا، لیکن اولاد کی تعلیم و تربیت پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ اور ایک حدیث شریف کے مطابق، ’’باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے، اُس میں سب سے بہتر عطیہ اچّھی تعلیم و تربیت ہے۔‘‘ 

یاد رہے کہ تعلیم سے بڑھ کر بچّے کی تربیت سے کسی خاندان اور گھرانے کی پہچان ہوتی ہے اور بچّے کی عادات و خصائل، اطوار و رویّے اُس کی تربیت اور پرورش کی عکّاسی کرتے ہیں۔

باپ وہ گھنا درخت ہے، جس کی اَن گنت شاخیں ہیں اور ان پر کئی پرندے بسیرا کرتے ہیں۔ باپ، شفقت اور ایثار و قربانی کا دوسرا نام ہے۔ اس یومِ والد پر ہمارا قارئین کے لیے پیغام ہے کہ اگر آپ کے والدحیات ہیں، تو اپنی مصروفیات میں سے اُن کے لیے وقت نکالیں اور اُنہیں راضی رکھنے کی کوشش کریں، تاکہ آپ کے لیے بہشت کے دروازے وا ہو جائیں۔