نریندر مودی ایک مرتبہ پھر جیت گئے، لیکن اِس مرتبہ کی جیت اُنہیں مضبوط کرنے کی بجائے کم زور کرگئی۔ اُن کے انتخابی دعوے’’ اب کی بار،400 پار‘‘ کو عوام نے مکمل طور پر مسترد کردیا۔ وہ نہرو کے بعد تیسری ٹرم کے لیے بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم تو ہوں گے، لیکن ایک کم زور اتحادی حکومت کے ساتھ۔ اُن کا اتحاد292 نشستیں حاصل کرسکا، یعنی 300سے بھی کم۔ جب کہ اپوزیشن اتحاد’’ انڈیا‘‘ نے، جسے نہرو خاندان کے وارث، راہول گاندھی لیڈ کر رہے تھے، غیر متوقّع پرفارمینس دِکھاتے ہوئے234 سیٹس پر کام یابی حاصل کی۔
خود کانگریس پارٹی، جو2019 ء میں صرف50 نشستیں لے پائی تھی اِس بار99 نشستیں لے اُڑی۔ سیاسی زبان میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ اُس کا کم بیک ہے۔ یعنی وہ اپوزیشن کو مُلکی سیاست میں واپس لے آئی ہے۔اِس پس منظر میں یہ سوال بھی سامنے آیا کہ کیا بھارتی عوام ایک بار پھر موروثی سیاست، یعنی نہرو خاندان کی طرف جانا چاہتے ہیں۔ لوک سبھا کی543 نشستوں پر ڈیڑھ ماہ تک انتخابی عمل جاری رہا اور 99کروڑ ووٹرز بڑے صبر وتحمّل سے اِن مراحل سے گزرے۔ اِن انتخابات میں تقریباً60 فی صد ووٹرز نے حصّہ لیا۔
یہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ نریندر مودی اپنی مقبولیت کھو کر اب زوال کی طرف گام زن ہیں، اُن کی کلٹ کی سیاست، انتہا پسندی، متنازع اور تقسیم کرنے کے نعرے دَھرے کے دَھرے رہ گئے۔ ایک اہم بات یہ بھی سامنے آئی کہ عوام نے اُن تمام پولز کو، جن میں مودی اور بی جے پی اتحاد کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے دعوے اور غیرمعمولی کام یابی کا ذکر تھا، مکمل طور پر مسترد کر دیا۔
اُنہوں نے میڈیا کے تجزیوں اور اشاروں کو سند دینے کی بجائے اپنے مسائل کے مطابق فیصلہ دیا، جو ایک طرف ایگزٹ پولز کے مخالف، تو دوسری طرف، حُکم ران جماعت کے لیے ناقابلِ یقین تھا۔ نریندر مودی کے تیسری مرتبہ وزیرِ اعظم بننے کے اثرات تین جہتوں میں ظاہر ہوں گے، جن پر کُھل کر بات کرنا ضروری ہے۔
اوّل تو ان کی اندرونی پالیسیز اور سیاست ہے، جس میں اہم سوال یہ ہوگا کہ کیا وہ اپنا ایجنڈا جاری رکھنے میں کام یاب رہیں گے۔ بھارتی ووٹر اب تک مودی کو اُن کی معاشی کام یابیوں کی وجہ سے ووٹ دیتا رہا کہ اُن کے دَور میں معاشی بہتری کی طرف خاطر خواہ پیش قدمی ہوئی۔
دوسرا معاملہ اُن کی علاقائی پالیسی سے متعلق ہے، جس میں اردگرد کے ممالک شامل ہیں، دیکھنا ہوگا کہ وہ اُن سے کیسے تعلقات رکھتے ہیں۔ پاکستان اِس پالیسی کا اہم ترین حصّہ ہے، کیوں کہ آزادی سے لے کر اب تک دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان دشمنی کی حالت چلی آرہی ہے۔ تیسرا ایشو، عالمی پالیسی کا ہے، جس کے ذریعے وہ بڑی طاقتوں اور ممالک سے تعلقات استوار کرتے ہیں۔
بی جے پی کی ماضی اور حال کی کارکردگی پر ایک نظر ڈال لی جائے، تو اندازہ ہوجائے گا کہ مودی کن مشکل حالات میں گِھر چُکے ہیں۔الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق، بی جے پی 240 نشستیں حاصل کرسکی، جب کہ2019 ء میں اس نے300 حلقوں سے کام یابی حاصل کی تھی۔ یعنی اِس بار60 نشستیں کم ملیں۔
اُس وقت وہ اکیلے ہی حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھی اور اب اسے چھوٹی جماعتوں کی مدد کی ضرورت ہے۔ایسی کم زور حکومت میں فیصلہ سازی بھی مشکل ہوجاتی ہے کہ سب اتحادیوں کی بات سُننی، ماننی پڑتی ہے۔ دو بار کی زبردست جیت اور کلٹ کی سیاست نے نریندر مودی کو کچھ زیادہ ہی متکبّر کردیا تھا۔
وہ اور اُن کے معتمدِ خاص ،امیت شاہ اپنی مرضی کے فیصلے کرتے اور اُنہیں زبردستی عوام پر مسلّط کر دیتے۔اب ایسا ممکن نہیں ہوسکے گا کہ معاملات مشاورت سے آگے بڑھانے ہوں گے، ورنہ اقتدار کا سنگھاسن کسی طرف بھی ڈول سکتا ہے۔ مودی اور بی جے پی معتدل سیاست کی طرف کیسے آتے ہیں، یہ دیکھنا کافی دل چسپ رہے گا۔
حالیہ انتخابات میں نریندر مودی کوجو بھی کام یابی ملی، وہ اُن کی معاشی پالیسی کی مرہونِ منّت ہے۔ جب وہ گجرات کے وزیرِ اعلیٰ تھے، اُس وقت اُنہوں نے صوبے کی ترقّی پر خصوصی توجّہ دی اور اس کی کچھ اس انداز میں دھوم مچائی کہ مسلمانوں کے قتلِ عام جیسے سنگین جرم میں ملوّث ہونے کے باوجود، معاشی ویژن رکھنے والے لیڈر کے طور پر قومی سیاست میں اُبھرے۔
یہ مودی اور بی جے پی کی خوش قسمتی تھی کہ بھارتی معیشت کی سمت کا تعیّن اُن سے پہلے کانگریس کے وزیرِ اعظم، مَن موہن سنگھ کرچُکے تھے، جو ایک بڑے معاشی ماہر اور مُلک کے وزیرِ خزانہ بھی رہ چُکے تھے۔ مودی نے اس معاشی وراثت پر اپنی معاشی پالیسیز کا محل تعمیر کیا اور اُنہیں آگے بڑھاتے رہے۔ یہ سب اُنہوں نے اس چالاکی سے کیا کہ عوام مَن موہن سنگھ اور کانگریس کو بھول گئے اور اُنہیں بھارتی ترقّی میں صرف مودی کا عکس نظر آیا۔
اکثر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی ایک کرشماتی سیاست دان ہیں اور وہ ماضی میں عوام کو بڑے بڑے خواب دِکھانے میں کام یاب رہے، لیکن اِس مرتبہ ایسا نہیں ہوسکا۔ عوام منہگائی اور بے روز گاری سے بہت پریشان ہیں اور اُنہوں نے اپنے عدم اطمینان کا اظہار اپنے ووٹ سے کردیا۔ اگر مودی صرف فرقہ وارانہ نعرے لگاتے ہیں اور معاشی مشکلات کا حل نہیں دے سکتے، تو اُنہیں الیکشن سے یہ پیغام مل گیا کہ عوام کے پاس دوسرا آپشن بھی موجود ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اپنے دَس سالہ دَور میں مودی نے بھارت کو کام یابی سے ترقّی کی راہ پر ڈالا اور آج وہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔گو اب بھی وہاں بہت غربت ہے، تاہم مودی نے جدید ٹیکنالوجی بھرپور طریقے سے استعمال کر کے ایک مضبوط مڈل کلاس پیدا کردی، جس پر بھارتی ترقّی کی بنیاد ہے اور یہی کلاس اُن کی ووٹر بنی۔ علاوہ ازیں، بھارت کے دولت مند خاندانوں نے بھی، جو دنیا بَھر میں دوسرے، تیسرے نمبرز پر آچُکے ہیں، اُن کے دَور میں خُوب فائدہ اُٹھایا۔
تاہم، اُنہوں نے مُلکی ترقّی میں بھی اپنا حصّہ ڈالا۔ اُنہوں نے مودی کی انتخابی مہم میں اربوں روپے لگائے، اِسی لیے انتخابی نتائج کے ساتھ ہی بھارتی اسٹاک ایکس چینج کریش کرگیا۔ مودی نے اپنی طرف سے اپوزیشن، خاص طور پر کانگریس کو کُھڈّے لائن لگا کر غیر مؤثر کردیا تھا اور اِس مقصد کے لیے اُنہوں نے ہر حربہ استعمال کیا۔ جیسے اپوزیشن رہنماؤں کے ٹیکس معاملات کی خوامخواہ چھان بین، مقدمات میں اُلجھائے رکھنا اور جیل تک پہنچا دینا۔
اپوزیشن رہنما، راہول گاندھی الیکشن سے چند ماہ پہلے تک جیل میں تھے۔ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور دارالحکومت دہلی کے وزیرِ اعلیٰ، کجریوال بھی جیل میں تھے، تاہم عدالت نے اُنھیں ایک ماہ کا ریلیف دیا اور وہ الیکشن کے اگلے روز دوبارہ جیل چلے گئے۔ مودی مذہب اور ہندو توا کے فلسفے کا مُلک اور بیرونِ مُلک پرچار کرتے ہیں۔
وہ ایک ایسا رُوپ اپنائے ہوئے ہیں، جیسے کوئی مذہبی شخصیت ہوں۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وہ خود کو ایک اوتار اور نجات دہندہ کے رُوپ میں پیش کرتے ہیں اور اُن کی جماعت اس کی بڑھ چڑھ کر تشہیر بھی کرتی ہے۔ جیسا کہ الیکشن مہم ختم ہونے کے بعد، وہ دو دن، دو رات کے لیے ایک پہاڑی مقام پر مراقبے کے لیے چلے گئے تاکہ اپنے اس مذہبی امیج کو تقویت دے سکیں۔ مودی دَور میں مخالفین اور عوام کو پراپیگنڈے کے ذریعے دباؤ میں رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اپوزیشن نے الزام لگایا کہ تمام ایگزٹ پولز، مودی کی میڈیا ٹیم کے گھڑے ہوئے ہیں اور یہ بات درست بھی ثابت ہوئی۔
انتخابی نتائج یہ بھی بتاتے ہیں کہ عوام کو مودی کی حد سے بڑھی خود ستائی پسند نہیں آئی، وہ اُن کی معاشی کام یابی کے باوجود میانہ روی کے قائل رہے اور اِسی پر ووٹ دیا۔ مودی کی سیاست کلٹ پر مبنی رہی، جس میں کسی اور کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ نیز، اُن کی پارٹی میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں، جو اُن ہی کی طرح انتہا پسند نظریات رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مودی اب اِس بات پر غور کے لیے تیار ہوں گے کہ اقلیتوں، خاص طور پر 25 کروڑ مسلمانوں کو اُن کا جائز مقام دیا جائے تاکہ بھارتی سیاست میں ٹھہرائو آسکے اور خوف کی فضا دُور ہو۔
اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ مودی کو یہ مقام دِلوانے میں بھارتی میڈیا نے بنیادی کردار ادا کیا کہ وہ پوری طرح اُن کے سحر میں گرفتار ہے۔ اِس کی ایک بڑی وجہ اُن کی معاشی پالیسیز پر میڈیا کا اعتماد اور پھر اُن کا مذہبی رُوپ ہے۔ میڈیا نے مودی اور بھارت کا امیج بلند کرنے میں اہم کردار ادا تو کیا، لیکن اِس سے یہ تاثر بھی مضبوط ہوتا گیا کہ یہ یک طرفہ سیاست ہے۔
بلاشبہ، جن ممالک میں میڈیا اپنے مُلک کی معاشی پالیسیز سمجھتا اور اُس کا ساتھ دیتا ہو، وہاں عوام کو ترقّی میں شامل کرنا آسان ہوتا ہے، لیکن بہرحال، دوسرا نقطۂ نظر بھی سامنے آنا چاہیے کہ بہتری کی گنجائش تو ہرجگہ رہتی ہے۔ مودی کے دَور میں انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔اُنہوں نے بھارت اور ہندو شناخت کو ایک کردیا۔
مسلمانوں کو، جو سب سے بڑی اقلیت ہیں، معاشرتی، انتظامی اور سیاسی نظام سے نکال باہر کیا گیا۔ ایک غیر قانونی آئینی ترمیم کے ذریعے کشمیر کے تین حصّے کردئیے گئے، جو اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی قراردادوں کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے۔ دوسرے الفاظ میں، اُنہوں نے بھارتی سیکیولرازم کو ختم اور جمہوریت کے نام پر بلاشرکت غیرے حُکم رانی قائم کر لی۔ تاہم، انتخابی نتائج کی صُورت عوامی فیصلہ آ گیا کہ عوام میانہ روی چاہتے ہیں۔
مودی نے وزیرِ اعظم کا عُہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد بین الاقوامی تعلقات پر خصوصی توجّہ دی۔ علاقے میں سب سے پہلے چین سے تجارتی تعلقات بڑھائے۔صدر شی جن پنگ سے ہوم ڈپلومیسی کا طریقہ اپنایا، اِسی لیے ہمالائی سرحد پر گرما گرمی کے باوجود دونوں مُلک اکثر معاملات میں تعاون کرتے ہیں۔امریکا سے بھارت کے تعلقات بہت اچھے کیے۔ غزہ جنگ کی مثال سامنے ہے، جس میں بھارت نے امریکا سے دوستی کی وجہ سے پہلی مرتبہ فلسطین کی بجائے اسرائیل کا ساتھ دیا۔ امریکا اسے چین کے خلاف جنوب مشرقی ایشیا میں اپنا اہم اتحادی مانتا ہے۔
وہ کواڈ فورم میں شامل ہے، جب کہ امریکا سے سِول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے معاہدے پر بھی عمل پیرا ہے۔ یو اے ای میں مندر کی تعمیر، ایران سے چا بہار پورٹ کا معاہدہ اور سعودی عرب سے آئل ریفائنری کی تعمیر میں بھاری سرمایہ کاری بھی اُن کی قابلِ ذکر سفارتی پیش رفت ہیں۔ مودی نے یوکرین جنگ میں روس سے سستا تیل خریدا اور امریکی پابندیوں سے بھی بچا رہا۔فرانس سے جدید رافیل طیارے خریدنے میں کام یاب رہا، اس کے باوجود کہ امریکا اس ڈیل کے خلاف تھا۔
یہ تو وہ اندرونی اور بیرونی پس منظر ہے، جس میں نریندر مودی نے تیسری مرتبہ وزیرِ اعظم کا عُہدہ سنبھالا ہے اور یہ تو طے ہے کہ وہ اپنی اقتصادی پالیسی کو نہ صرف جاری رکھیں گے، بلکہ اسے مزید تیز کریں گے۔ تاہم، اُن کے سامنے دو بڑے چیلنجز ہیں۔ ایک غربت کا خاتمہ کہ تمام تر ترقّی کے باوجود اب بھی کروڑوں بھارتی شہری انتہائی غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔دوسرا بڑا چیلنج نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی ہے، کیوں کہ اُن کا مخالف ووٹ، نوجوانوں ہی پر مشتمل ہے، جو اُن سے غیر مطمئن ہیں۔
کلٹ کی سیاست، خود کو اوتار بنا کر پیش کرنا اور قوم پرستی وغیرہ پر مبنی باتیں انتخابات تک کشش رکھتی ہیں۔ اوّل تو عوام نے یہ سب مسترد کردیا اور پھر یہ کہ جب معمول کے مطابق حکومتیں کام کرنے لگتی ہیں، تو عوام اپنے مسائل کے حل ہی سے مطمئن ہوتے ہیں۔ ترقّی اور مسائل کے حل کے لیے پُرامن ماحول ضروری ہے اور اس کے لیے مودی کو ہر طبقے کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا، خواہ اُن کی سوچ کچھ بھی ہو۔ مسلمان کوئی چھوٹی سی اقلیت نہیں، جسے نظر انداز کیا جاسکے۔
دنیا کے بہت سے ممالک سے زیادہ اُن کی آبادی ہے، اِس لیے مودی کو اپنے رویّوں میں اعتدال لانا پڑے گا۔ یہ ضرور ہے کہ جس قسم کے جذبات اُنہوں نے اُبھارے، اب اُن سے پیچھے ہٹنا اُن کے لیے بہت مشکل ہوگا، تاہم مُلکی ترقّی کے لیے یہ قدم اُٹھانا ناگزیر ہے۔ مودی حکومت نے پاکستان کی معاشی مشکلات اور سیاسی تقسیم سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سخت رویّہ اپنائے رکھا۔
نفرت انگیز بیانات عام رہے، جس میں خود مودی سب سے آگے تھے۔ اب وہ دوبارہ پانچ سال کے لیے حکومت میں آئے ہیں، تو اُنھیں دیکھنا ہوگا کہ کشمیر جیسا سُلگتا مسئلہ پوری شدّت سے اپنی جگہ موجود ہے اور اسے حل کیے بغیر خطّے میں امن کی بات کرنا مشکل ہے۔
ایک اچھی بات یہ ہے کہ دونوں ممالک میں نئی حکومتیں آئی ہیں اور دونوں کی لیڈر شپ کے مابین ماضی میں رابطے رہے ہیں۔ نیز، دونوں کا معاشی ایجنڈا بھی ایک ہی طرح کا ہے۔ بھارت کے تمام تر مخالفانہ رویّے کے باوجود میاں نواز شریف کا ہمیشہ یہی موقف رہا کہ پڑوسیوں سے معمول کے تعلقات رکھے بغیر ترقّی ممکن نہیں۔ باقی سیاسی جماعتیں بھی اِس رائے سے اختلاف نہیں کرتیں۔ خوش قسمتی سے گزشتہ تین سالوں سے ہماری مشرقی سرحد پر کوئی ایسی کارروائی نہیں ہوئی، جس سے فوجی تصادم کی طرف بڑھا جائے۔
اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ممالک کے بیچ اعتماد کی بہت کمی ہے، سفارتی تعلقات اچھے نہیں اور دونوں ہر معاملے میں ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن ایک مثبت بات یہ ہے کہ بڑی طاقتیں اور دونوں ممالک کے دوستوں کی خواہش ہے کہ کوئی ایسی پیش رفت ہو، جس سے تعلقات بہتری کی طرف جائیں۔ چین کئی بار ہماری قیادت کی توجّہ اس جانب مبذول کروا چُکا ہے۔
مسلم ممالک کے بھارت کے ساتھ تعلقات بہت اچھے ہیں۔ اِس لیے اگر اردگرد کی فضا دیکھی جائے، تو کسی مثبت پیش رفت کی راہ میں رکاوٹ نظر نہیں آتی۔دونوں ممالک میں انتخابی ماحول ختم ہوچُکا اور مخالفانہ بیانات بھی تھم چُکے ہیں۔ پُراعتماد سیاسی قیادت کسی نہ کسی طور مشکل حالات میں سے راہ نکال ہی لیتی ہے، تو کیا مودی حالات کی بہتری میں اپنا حصّہ ڈالیں گے، جب کہ اب یہ پہلے سے بھی زیادہ اُن کی ضرورت ہے۔