برطانیہ میں عام انتخابات4جولائی کو ہوں گے۔یہ اعلان وزیرِ اعظم، رشی سوناک نے 10ڈائوننگ اسٹریٹ سے کیا، جو برطانوی وزیرِ اعظم کی سرکاری رہائش گاہ ہے۔واضح رہے، یہ انتخابات قبل از وقت ہو رہے ہیں، کیوں کہ ابھی وزیرِ اعظم سوناک کے پاس الیکشن کروانے کے لیے 8ماہ کا وقت تھا۔ یعنی قانون کے مطابق وہ28جنوری 2025ء تک نئے انتخابات کروانے کے پابند تھے۔
برطانوی حالات سے واقف تجزیہ کاروں کو اِس اعلان پر حیرت ہوئی، کیوں کہ ابھی تک رائے عامّہ کے جو نتائج سامنے آئے ہیں، وہ رشی سوناک کی کنزرویٹو پارٹی کے لیے مایوس کُن، جب کہ اپوزیشن لیبر پارٹی کے لیے بہت حوصلہ افزا ہیں۔تو کیا اِس کا یہ مطلب لیا جائے کہ وزیرِ اعظم نے ایک انتخابی یا سیاسی جوا کھیلا ہے یا اُن کے ذہن میں ووٹرز کو اپنے حق میں لانے کا کوئی اور منصوبہ موجود ہے۔
کچھ کا یہ بھی خیال ہے کہ اُن کے پاس نئے انتخابات کے علاوہ کوئی اور آپشن تھا بھی نہیں، کیوں کہ آنے والے دنوں میں اپوزیشن جماعت اور عوام کی طرف سے حکومت پر تنقید بڑھنے کا امکان تھا۔ایک رائے یہ ہے کہ رشی سوناک کو نئے انتخابات کا اعلان نہیں کرنا چاہیے تھا کہ ابھی اُن کے پاس معیشت بہتر بنانے کا موقع تھا اور اِس ضمن میں مثبت اشارے بھی آنے شروع ہوگئے تھے۔بہرحال، وزیرِ اعظم نے بادشاہ سلامت کی مشاورت سے جو اعلان کیا، اُس کے مطابق 30مئی سے پارلیمان ختم ہوگئی۔
قبل از وقت انتخابات برطانیہ کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔وہاں گزشتہ چھے برسوں میں دو مرتبہ اس طرح انتخابات ہوچُکے ہیں۔اصل مسئلہ برطانیہ کی معیشت کا ہے۔ عالمی منہگائی اور یوکرین جنگ نے برطانیہ پر خاصے منفی اثرات مرتّب کیے اور باوجود اس کے کہ وزیرِ اعظم معاشی تنزّلی روکنے میں بہت حد تک کام یاب رہے، لیکن برطانوی عوام کچھ خاص مطمئن نہیں ہوئے کہ وہ بہرحال اس سے بہتر کارکردگی کی اُمید رکھتے تھے۔ رائے عامّہ کے پولز ظاہر کرتے ہیں کہ عوام اب دوسرا آپشن بھی آزمانا چاہتے ہیں۔
ایک ماہ پر مشتمل الیکشن مہم کا بنیادی موضوع معیشت اور اس سے وابستہ ایشوز ہی رہیں گے، جب کہ غیر قانونی تارکینِ وطن کا مسئلہ بھی اہم ہے، جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اِسی لیے رشی حکومت نے پناہ لینے والوں کے لیے برطانیہ کی بجائے افریقا کے پس ماندہ ترین مُلک، رونڈا میں ایک مقام منتخب کیا ہے،جہاں ایسے افراد کو منتقل کیا جائے گا۔ گو، اِس پلان پر ابھی تک عمل شروع نہیں ہوا، تاہم تیاریاں مکمل بتائی جاتی ہیں۔
اس کا یہ بھی مطلب ہوا کہ تارکینِ وطن کے لیے خوش گوار زندگی بذریعہ اسائیلم(پناہ گاہ کے طور پر) ممکن نہیں ہوگی۔برطانیہ میں بارہ لاکھ پاکستانی ہیں اور ان کا برطانوی سیاست میں حصّہ بھی ہے۔ حال ہی میں صادق محمّد تیسری مرتبہ لندن کے میئر منتخب ہوئے ہیں، جس سے اُن کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور اُن کا تعلق بھی کنزرویٹو پارٹی سے ہے۔
مزید گفتگو سے پہلے ذرا ایک نظر برطانیہ پر ڈال لیں۔برطانیہ یا یونائیٹڈ کنگ ڈم، برطانیہ، اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئر لینڈ پر مشتمل ہے۔ یعنی ان سب علاقوں کے لوگ ووٹنگ میں حصّہ لے سکتے ہیں اور ان کی آبادی ساڑھے چھے کروڑ ہے۔ برطانیہ شمال مغربی یورپ میں واقع ہے، تین سال قبل یورپی یونین کا حصّہ تھا، تاہم بریگزٹ کے ذریعے اس نے 29 ممالک کی یونین چھوڑ کر اکیلے ہی پرواز کا فیصلہ کیا اور اس ضمن میں یورپ سے آنے والے غریب افراد کا بوجھ بننا اہم تھا۔
یہ ایک قسم کی قوم پرستی ہے، اِسی لیے ہم بار بار پاکستانی تارکینِ وطن کو اِس طرف متوجّہ کرتے ہیں کہ جب اس نے یورپی باشندوں کو نکال باہر کیا، تو دوسروں کو کیوں اور کب تک خوش آمدید کہا جائے گا۔ برطانیہ میں سیاسی طور پر آئینی پارلیمانی بادشاہت کا نظام ہے، اس کا کوئی تحریری آئین نہیں۔ تاہم، پارلیمانی جمہوریت اس کا سپریم لاء ہے، جس کے تحت ہر قانون پر عمل درآمد ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ فیصلہ دیتے وقت اسی روایت کو مانتی ہے۔ یہ دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں میں شمار ہوتی ہے، جب کہ اس کے پاس’’ ویٹو پاور‘‘ بھی ہے۔
برطانیہ دوسری جنگِ عظیم سے پہلے ایک مسلمہ سُپر پاور رہا اور تقریباً ہر برّ ِاعظم میں اس کی حُکم رانی تھی۔ ان علاقوں کو’’ برطانوی کالونیز‘‘ کہا جاتا ہے۔ اب بھی دو، چار ایسی نوآبادیاں موجود ہیں۔ دوسری عالمی جنگ میں مغربی اتحادی طاقتوں کی فتح میں برطانیہ کا مرکزی کردار تھا اور ہٹلر کو شکست دینے میں وزیرِ اعظم چرچل کا نمایاں حصّہ رہا۔ غیر منقسم ہندوستان پر بھی برطانیہ نے تین سو سال تک راج کیا، بلکہ اسے’’ جیول اِن سی کراؤن‘‘ کہا جاتا تھا، یعنی شاہی تاج کا سب سے قیمتی ہیرا۔
مشرقِ وسطیٰ کا جو نقشہ ہم آج دیکھتے ہیں، وہ بھی برطانیہ ہی کے تحت بنایا گیا، کیوں کہ اس کے بیش تر علاقوں پر اسی کی حُکم رانی تھی، جو اس نے تُرک عثمانی سلطنت کو شکست دے کر حاصل کی تھی۔ آج جو مسئلۂ فلسطین ایک سُلگتا ایشو ہے، اس میں’’ معاہدہ بالفور‘‘ کا اہم ترین کردار ہے، جو برطانیہ اور یہودیوں کے درمیان ہوا تھا، جب کہ کشمیر کا مسئلہ بھی اسی کی دَین ہے۔ مشرقِ وسطیٰ، وسط ایشیا، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں برطانیہ کا سیاسی کردار آج بھی بہت اہم ہے۔
بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ پہلے امریکا بھی برطانیہ کی کالونی تھا، جسے جنرل واشنگٹن نے برطانوی فوج کو شکست دے کر پونے تین سو سال پہلے آزاد کروایا۔ برطانیہ کا دارالحکومت آج بھی دنیا کا فنانشل حب مانا جاتا ہے اور جرمنی کی تمام تر کام یابیوں کے باوجود برسلز اس سے یہ مقام نہیں چھین سکا۔
تاریخ میں جسے’’ صنعتی دَور‘‘ کہا جاتا ہے، اُس کا آغاز بھی برطانیہ ہی سے ہوا اور اِسی نے موجودہ معاشی نظام کی بنیاد رکھی۔ گو کہ برطانیہ آج سُکڑ کر ایک جزیرے تک محدود ہوگیا ہے، لیکن اس کے سیاسی اثرات اب بھی عالمی ہیں۔ وہ امریکا کا سب سے قریبی پارٹنر ہے، یوکرین کی جنگ ہو یا غزہ کا بحران، دونوں کا موقف ایک ہی رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کے انتخابات میں پوری دنیا دل چسپی لیتی ہے۔
برطانیہ کی پارلیمان دو ایوانی ہے، ہاؤس آف لارڈز اور ہائوس آف کامنز۔ ہاؤس آف کامنز کے لیے ارکان کا انتخاب عوام اپنے ووٹس سے کرتے ہیں اور یہی ایوان وزیرِ اعظم منتخب کرتا ہے۔ اس کے 650ممبرز ہیں۔ برطانیہ میں گزشتہ کئی صدیوں سے دو جماعتیں ہی حُکم رانی کرتی رہی ہیں۔ کنزرویٹو پارٹی، جسے’’ ٹوری پارٹی‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور لیبر پارٹی۔کنزرویٹوز قدامت پسند، تارکینِ وطن کے مخالف اور اس معاملے میں قوم پرستوں سے ہم آہنگ ہیں۔
برطانیہ کی آبادی83 فی صد مقامی ہے، جب کہ17 فی صد غیر مقامی ہیں، جن میں بیش تر اس کی سابقہ نوآبادیات سے جاکر وہاں آباد ہوئے، اسی لیے شاید ان تارکینِ وطن کو برطانیہ کا شہری ہونا پریشان نہیں کرتا۔پاکستانی تارکینِ وطن60 کی دہائی میں کشمیر اور جہلم کے علاقوں سے وہاں گئے، جب سندھ طاس منصوبے کے تحت منگلا ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں اُنہیں برطانیہ میں آباد ہونے کی اجازت دی گئی۔
برطانیہ، منگلا ڈیم کی تعمیر کا ایک پارٹنر تھا۔ گزشتہ 24سال سے کنزرویٹوز، برطانیہ پر حُکم رانی کر رہے ہیں، جب کہ لیبر پارٹی کا آخری بڑا نام ٹونی بلیئر تھا، جنہیں عراق جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے پر نہ صرف وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ وہ سیاست سے بھی کنارہ کش ہوئے۔ کنزر ویٹو حکومت کو اپنے24سالہ دَور میں تین بڑے مسائل کا سامنا رہا۔
پہلا مسئلہ عالمی مالیاتی بحران تھا، جو امریکا کے لے مین برادرز سے شروع ہوا اور زیادہ تر مغربی ممالک کو اپنی گرفت میں لے لیا۔تاہم، ڈیوڈ کیمرون کی حکومت اس بحران پر قابو پانے میں کام یاب رہی۔ ڈیوڈ کیمرون خاصے مقبول ہوچُکے تھے،لیکن بریگزٹ کے سبب اقتدار سے الگ ہوگئے، تاہم حکومت ٹوریز ہی کے پاس رہی۔ اس کے بعد چار ٹوری وزرائے اعظم نے بریگزٹ کے اثرات بھگتے اور ان میں سے آخری رشی سوناک تھے۔
بریگزٹ نے برطانیہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا، لیکن لیبرز اور ٹوریز دونوں نے مل کر مُلک وقوم کو اِس سیاسی سونامی سے نکال لیا۔ یہی جمہوریت کا کمال، سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی بالغ نظری ہوتی ہے کہ وہ قوم کو ایسے طوفانی تھپیٹروں میں اکیلا نہیں چھوڑتے، بلکہ اپنی اَنا کو ایک طرف رکھ کر قوم کو سہارا دیتے ہیں، مگر اس کے لیے بڑا جگرا چاہیے، جو پاکستان جیسی ترقّی پذیر جمہوریتوں میں مشکل ہی سے ملے گا۔ٹوریز ہی کے دَور میں کورونا وبا نے برطانیہ کو بہت نقصان پہنچایا، لیکن یہی وہ مُلک تھا، جس نے سب سے پہلے کورونا ویکسین، جسے’’ آکسفورڈ ویکسین‘‘ کہا جاتا ہے، دنیا کو دی۔
مطلب، آکسفورڈ یونی ورسٹی نے اپنا حقِ تحقیق ادا کردیا۔ جو بحران اب آیا ہے، اس سے برطانیہ کا براہِ راست تو کچھ لینا دینا نہیں، مگر وہ اس کی لپیٹ میں ہے، یعنی یوکرین جنگ۔ روس کی شروع کردہ یہ جنگ دو سال سے زاید عرصے سے جاری ہے اور یہی جنگ، کنزرویٹو پارٹی کی غیر مقبولیت کی بڑی وجہ بنی ہے۔یوکرین جنگ نے توانائی اور خوراک کا جو بحران پیدا کیا، اس پر قابو پاتے پاتے برطانیہ جیسے مُلک کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا، لیکن اس بحران سے پیدا ہونے والے معاشی دبائو نے عوام کو دوسری پارٹی کی طرف دیکھنے پر مجبور کردیا اور اِسی لیے آج لیبر پارٹی مقبول ہے۔
جنگ کوئی بھی جیتے، لیکن مُلک مشکل میں آجاتے ہیں اور لوگ تنگ ہونے لگتے ہیں اور جمہوری ممالک میں عموماً عوام، ووٹ کے ذریعے حکومت کو اس کی سزا دیتے ہیں۔ عراق اور افغان جنگ، امریکا میں ری پبلکن حکومت کو لے ڈوبی تھی۔اِس سے پہلے عراق جنگ نے برطانیہ میں بلیئر حکومت کا بوریا بستر گول کیا۔ برطانیہ میں دوسری عالمی جنگ کے ہیرو، وزیرِ اعظم چرچل جنگ کے فوراً بعد ہونے والے انتخابات میں ہار گئے تھے۔سبق یہ ہے کہ لوگ امن و سکون اور بہتر زندگی چاہتے ہیں۔
اب انقلاب اور تحریکیں قصّۂ پارینہ بنتے جارہے ہیں۔ چین اس کی پہلی اور ویت نام دوسری مثال ہے۔یہ21 ویں صدی ہے، معیشت کی صدی، جو بھی اس کے خلاف جائے گا، شکست کھائے گا۔ عوام سے بھی بھول چُوک ہوئی، تو وہ بھی خمیازہ بھگتیں گے کہ تاریخ کے فیصلے اٹل ہیں۔خیر، جارج اسٹارمر لیبر پارٹی کے لیڈر ہیں اور یہ نہیں کہ وہ یوکرین جنگ کے معاملے میں کوئی دوسرا موقف رکھتے ہیں، تاہم برطانوی عوام کا خیال ہے کہ اُنہیں معاشی معاملات، خاص طور پر مزدوروں اور کم مراعات یافتہ طبقے کے مسائل کا بہتر ادراک ہے۔
ویسے بھی ایک چوتھائی صدی تک ایک ہی پارٹی کو برداشت کرنا عوام کے لیے بہت مشکل ہوجاتا ہے اور وہ متبادل تلاش کرنے لگتے ہیں۔ہم نے بتایا کہ قبل از وقت انتخابات، برطانیہ کے لیے کوئی غیر معمولی بات نہیں کہ یہ وہاں کی سیاست اور جمہوریت کا حصّہ ہے اور عوام اسے بڑی خوش دلی سے قبول کرتے ہیں۔یاد رہے، پاکستان میں بھی عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آنے سے پہلے ہم سمیت بہت سے تجزیہ کاروں نے قبل از وقت انتخابات کا آپشن استعمال کرنے کی بات کی تھی، جسے یہاں اِس طرح سمجھا گیا، جیسے کوئی جرم سرزد ہو رہا ہو۔
پانچ سال حکومت کرنے کی آئینی شق کو یہاں پتھر کی لکیر مانا جاتا ہے اور قبل از وقت انتخابات کے آپشن کو کوئی بہت ہی بڑی سازش تصوّر کیا جاتا ہے، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ جمہوریت، روایات کا نام ہے، بار بار عوام کے سامنے جانے کا نام ہے اور مینڈیٹ کا مطلب، آمریت کا لائیسنس نہیں ہوتا۔ ہمیں برطانیہ، جاپان، فرانس، جرمنی اور دیگر جمہوریتوں سے اسی طرح کی روایات سیکھنے کی ضرورت ہے۔
سوال یہ ہے کہ رشی سوناک نے یہ کیوں ضروری سمجھا کہ جولائی، یعنی سات ماہ پہلے انتخابات میں جائیں، جب کہ اُن کی مقبولیت بھی خاصی دائو پر ہے؟وزیرِ اعظم سوناک اور اُن کی پارٹی کو شاید یہ اعتماد ہے کہ گزشہ چند ماہ میں وہ کئی مثبت اقدامات کرنے میں کام یاب رہے، جس سے مُلک کی معیشت بہتر ہوئی اور نتیجتاً افراطِ زر میں کمی آئی۔ یہ شرح اب2.3 فی صد پر ہے، جو تین سال میں سب سے کم ہے۔ یاد رہے،2022 ء میں یہ شرح11فی صد پر تھی اور یہ وہی زمانہ تھا، جب ہمارا مُلک بھی بُری طرح افراطِ زر کی لپیٹ میں تھا۔
معاشی ترقّی کی رفتار گو اب بھی سُست ہے، تاہم شروعات تو ہوئی۔جب کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ٹوریز کی بدترین کارکردگی کے بھی عام انتخابات پر سائے موجود ہیں، لیکن رشی سوناک اسے اپنی معاشی بہتری سے ڈھانپنا چاہتے ہیں۔ لیبر پارٹی کے موجودہ لیڈر، سر کیئر اسٹارمر ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں، جو اپنی پارٹی کی چار سال سے قیادت کر رہے ہیں۔ اسٹارمر ایک دھیمے مزاج کے سیاست دان ہیں اور اُن میں ایسی کوئی بات نہیں، جو کرشماتی ہو، تاہم اُن سے متعلق مشہور ہے کہ وہ کام کے دھنی ہیں، خود بھی کام کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی یہی اُمید رکھتے ہیں، نیز، بہت فرض شناس بھی ہیں۔
لیبر پارٹی کے منشور کو مختصر الفاظ میں قومی اور معاشی بحالی کا ایجنڈا کہا جاسکتا ہے۔ اسٹارمر کا کہنا ہے کہ وہ سالوں سے بحرانوں سے گزرنے والی قوم کو اس کا فخر واپس دینا چاہتے ہیں۔اسٹارمر اور اُن کی پارٹی اِن دنوں اپنی مقبولیت کے عروج پر ہے، جب کہ چار سال قبل وہ ایک بھولی بسری جماعت بن چُکی تھی۔لیبر پارٹی کو تارکینِ وطن پسند کرتے ہیں، کیوں کہ وہ مائیگریشن قوانین میں نرمی کرتی ہے، لیکن اِس مرتبہ وہ بھی مشکل سے دوچار ہے، کیوں کہ برطانیہ کے شہری تارکینِ وطن سے سخت نالاں ہیں، خاص طور پر وہاں پناہ کی تلاش میں آنے والے اُن افراد کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جو چینل کے ذریعے بوٹس سے آتے ہیں۔
ویسے بھی اب برطانیہ تارکینِ وطن یا طلبہ کا مُلک نہیں رہا۔بحرِ روم سے آنے والے تارکینِ وطن نے جو مسائل یورپ کے دوسرے ممالک کے لیے پیدا کیے، اس میں برطانیہ بھی اُن کا ہم خیال ہے۔وہ یورپی یونین چھوڑ چُکا ہے، تاہم حصّہ تو یورپ ہی کا ہے۔ طلبہ کے لیے وہاں تعلیم حاصل کرنے کی کشش نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کی فیس اِس قدر بڑھ گئی ہے کہ ادائی ممکن ہی نہیں رہی۔پھر یہ کہ کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ نیز، پارٹ ٹائم کام کی اجازت بھی ختم کر دی گئی ہے اور اسپائوئس کو بھی یہ سہولت میسر نہیں۔
یوں تارکینِ وطن یا طلبہ کے لیے سخت منہگائی میں گزارہ ناممکن ہوچُکا ہے۔پھر پاکستانی اور دوسرے ایشیائی ممالک کے لیے بوڑھے والدین کی رہائشی سہولت بھی ختم کردی گئی ہے۔ تو کیا لیبر پارٹی اِن قوانین پر ازسرِنو غور کرے گی؟ تارکینِ وطن کے لیے بس یہی امر کسی حد تک پُرکشش ہے، وگرنہ دونوں جماعتیں اُن کے لیے برابر ہیں۔ رشی سوناک اپنی معاشی کارکردگی کے ساتھ عوام کے سامنے جا رہے ہیں، لیکن بہرحال اُن کی کام یابی کی راہ میں بہت سے چیلنجز بھی درپیش ہیں۔