مصنّفہ: دُعا عظیمی
صفحات: 168، قیمت: 999 روپے
ناشر: بُک کارنر، جہلم۔
فون نمبر: 5440882 - 0321
دُعا عظیمی ایک تازہ کار افسانہ نگار ہیں اور ہمارے پیشِ نظر اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے، جو کئی خُوبیوں سے آراستہ ہے۔ دُعا، اختصار نویسی کے فن سے واقف ہیں، اِس لیے اُن کا کوئی افسانہ طوالت کا شکار نہیں ہوا، جب کہ یہ افسانے، روایتی افسانوں سے بہت مختلف بھی ہیں۔
اچھوتے خیالات، نیا پن گویا اُن کا اختصاص ہے۔ مصنّفہ کا تعلق نئی نسل سے ہے، لیکن اُن کی کہانیوں میں پختہ کاری نمایاں ہے۔ اُنھوں نے جس موضوع پر بھی قلم اُٹھایا، حق ادا کردیا۔ افسانوں کی بُنت سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ اُنھوں نے افسانوی ادب کے مطالعے کو حرزِ جان بنا رکھا ہے۔
بعض افسانے تو اُن کی عُمر سے بہت آگے کے معلوم ہوتے ہیں کہ اُنھوں نے اکثر کہانیاں اور افسانے مکالماتی اسلوب میں لکھے ہیں۔ یہ افسانے بہت سی مشرقی عورتوں کی نفسیات کی عکّاسی کرتے ہیں، جب کہ نئے زمانے کی نفسیات کو بھی افسانوں کا موضوع بنایا گیا ہے۔ زیرِ نظر کتاب میں دُعا عظیمی کے27 افسانے اور دس نثرانے شامل ہیں۔ اِس’’ نثرانے‘‘ کی ترکیب سے بھی اُن کے اختراعی ذہن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ویسے اِن افسانوں میں زندگی کو ہر زاویے سے دیکھنے اور پرکھنے کا ہنر موجود ہے۔زیب اذکار حسین نے بالکل درست لکھا ہے کہ’’ دُعا عظیمی کے افسانے، روایتی تراکیبِ اظہار سے ماورا ہیں۔ گویا اُن کی بُنت، تیکنیک اور اظہاری ڈھنگ، روایتی نہیں ہیں۔‘‘مصنّفہ نے’’ کہانی سے پہلے کہانی‘‘ کے عنوان سے جو ابتدائیہ تحریر کیا ہے، اُس میں بھی افسانوی رنگ و آہنگ غالب ہے۔
بقول خالد سہیل’’ دُعا عظیمی کے افسانوں کے کرداروں میں ایک ازلی و ابدی تشنگی ہے۔‘‘ اور تشنگی ہی قاری کے تجسّس میں اضافہ کرتی ہے۔ مصنّفہ، کہنہ مشق لکھاری نہیں، لیکن اُن کی تحریر کی روانی، اُن کے روشن مستقبل کی ضمانت ضرور ہے۔ جب کہ کتاب میں سلمیٰ اعوان، خالد سہیل، بینا گوئیندی، فرحت پروین، نیلم بھٹی، رابعہ الرباء اور زیب اذکار حسین کے مضامین نے دُعا عظیمی کے افسانوں کو سندِ اعتبار عطا کردی ہے۔