ان دنوں امریکا میں کرکٹ کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کیلئے مقابلے ہو رہے ہیں۔ اصولاً ہمیں ان میچز کو یہ کہتے ہوئے انجوائے کرنا چاہیے کہ جو جیتا وہی سکندر، لیکن ہم ایک ایسی قوم ہیں جو کھیل کو بھی معرکہ حق و باطل بلکہ زندگی اور موت کا ایشو بنالیتے ہیں، بالخصوص جب معاملہ صدیوں تک ہم وطن رہنے والے اپنے ہمسایہ ملک بھارت سے ہو تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مخصوص مقاصد کے تحت پھیلائی گئی پون صدی کی منافرت امڈ کرسامنے آگئی ہو۔ لاکھ کہیں بھائی کھیل کو کھیل ہی رہنے دو، ہر دو اطراف ہمارے اپنے ہی بچے اور اپنے ہی عوام و خواص ہیں مگر نہیں صاحب، میڈیا میں گھس بیٹھیے زیادہ سیانے مصر ہیں کہ ہم نے بھارت کو اگر ازلی دشمن نہ بولا یا لکھا تو ہمیں رات کا کھانا ہضم نہ ہوگا ۔ صدیوں پرانا پنجابی محاورہ ہے کہ ’’ہمسایہ ماں پیو جایا‘‘ ۔ اس لیے وہ روایتی دوست، یار ، بھائی یا اتحادی بھی کہے جاسکتے ہیں لیکن نہیں حضور ہم نے تو روایتی حریف ہی لکھنا اور بولنا ہے۔ دوستانہ میچز میں بھی ہار جیت تو ہوتی ہی ہے لیکن نہیں بھائیو ہم نے انڈیا سے کسی صورت نہیں ہارنا، اس سے ہماری تو ناک کٹ جائے گی عزت خاک میں مل جائے گی ہم دنیا میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے ۔بدقسمتی یا خوش قسمتی سے ہماری یہ ناک اکثر کٹتی رہتی ہے اور پھر ہم اپنا سارا غصہ کرکٹ کے ان کھلاڑیوں پر نکالتے ہیں جن کیلئے نارمل حالات میں تو ہم یہ گاتے ہیں کہ’’ تم ہارو یا جیتو ہمیں تم سے پیار ہے ‘‘مگر بھارت سے ہارنے کے بعد ہمارے یہ شاہین پوری قوم کے سامنے کوے قرار پاتے ہیں یا ایسے ہی سلوک کے سزاوار۔ درویش کرکٹ پر کچھ لکھنے سے اجتناب برتتا ہے اس لیے نہیں کہ اُسے اس کھیل سے دلچسپی نہیں یا وہ اسے اپنے قیمتی وقت کا ضیاع خیال کرتا ہے یا اسے امیر گوروں کا مشغلہ سمجھتا ہے بلکہ وہ تو کرکٹ کو سائنٹفک مغربی تہذیبی اقدار اور ان کے پھیلاؤ کا حصہ سمجھتا ہے اور یہ سوچ رکھتا ہے کہ ہماری روایتی مشرقی سوسائٹیوں کو مغربی تہذیب کی روایتی علامتوں سے بھی بہت کچھ سیکھنا چاہیے، مغربی تہذیب اور اس کی انسان نواز اقدار کا پھیلاؤ زیادہ سے زیادہ بڑھنا چاہیے۔ پاکستان میں اگرچہ ایک کرکٹر نے کرکٹ کے نام پر پاپولیریٹی سمیٹتے ہوئے بڑی بربادیاں ڈھائی ہیں، اس کے باوجود کرکٹ کو یہاں انسان دوستی اور بھائی چارے کے فروغ کا ذریعہ بنناچاہیے ،ہماری نوجوان نسل کو اس سے محظوظ ہونے کا پورا حق ملنا چاہیے لیکن ہم لوگ جس طرح ہر سیدھے سبھاؤ کی الٹی گنگا بہانے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں جیسے کہ یہ محاورہ ہمارے لیے ہی ایجاد ہوا ہے کہ الٹے بانس بریلی کو۔ اس تلخ نوائی کی بنیاد یہ ہے کہ پوری دنیا میں کرکٹ یا کسی بھی کھیل کو دوستی اور رواداری کے پھیلاؤ کی خاطر استعمال کیاجاتا ہے جبکہ ہمارے تضادستان میں اس خوبصورت کھیل کو بھی مذہبی جنون پھیلانے کیلئے یا اپنی مخصوص شدت پسندی کو نہ صرف پروموٹ کرنے بلکہ دوسروں پرحاوی کرنے کیلئے استعمال کیاجاتا ہے ۔
ہمارے ایک مولوی ہیں وہ جب کرکٹرز کو تبلیغ سے فارغ ہولیتے ہیں تو انکا اگلا ٹارگٹ نامی گرامی آرٹسٹ اداکار یا اداکارائیں ہوتی ہیں، اس مقدس ٹچ کا رزلٹ یہ برآمد ہوا ہے کہ کرکٹ جیسی ماڈریٹ گیم پاکستان میں ایک مخصوص جماعت کا دُم چھلا بن کر رہ گئی ہے۔ رہی سہی کسر ہمارا روایتی یا سوشل میڈیا منافرت پھیلا کر نکال دیتا ہے۔ ہمارے ایک اخبار کی ہیڈ لائن ملاحظہ ہو۔”پاکستان اور بھارت آج نیویارک میں ٹکرائیں گے، ہائی وولٹیج میچ “۔ اگر کسی میچ میں پاکستانی ٹیم انڈین ٹیم سے مقابلے میں جیت جائے تب تو ہمارے لوگوں کی پھوں پھاں اور اکڑ زمین پر نہیں رہتی آسمان تک پہنچ جاتی ہے۔’’ پاکستان نے انڈیا کو دھول چٹادی، ہمارے شاہینوں نے بھارتیوں کو منہ دکھانے کے قابل نہ چھوڑا، پاکستان نے انڈیا کو رسوا کرڈالا۔‘‘سوال یہ ہے کہ اس نوع کی بڑھک بازی، حقارت اور منافرت سے ہم لوگ ثابت کیا کرناچاہتے ہیں ہماری قوم تباہ حال معیشت کے باعث پوری دنیا میں بھکاری گردانی جارہی ہے، گھر دانے نہیں ہیں ماںپسانے شاید چاند پر گئی ہوئی ہے۔ ہمارا پرائم منسٹر کھلے بندوں کہتا پھرتا ہے ہم جب کسی بھی دوست ملک میں جاتے ہیں تو اس کے حکمران یہ کہتے ہیں دیکھو یہ مانگنے آگیا ہے، ہم کہتے ہیں بھائیو ہم بھکاری نہیں ہیں بس ذرا ہمارے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ جس ملک میں آئین کی کوئی حیثیت ہے نہ جمہوریت کی اور نہ ہی انسانی حقوق کی، طعنے ہم دوسروں کو دیتے ہیں۔ سوائے 70ء کے یہاں آج تک کبھی آزادانہ و منصفانہ الیکشن منعقد نہیں کروائے جاسکے آخر ہم کس منہ سے بڑی بڑی جمہوریتوں میں کیڑے نکالتے؟ انسانی حقوق کا یہ عالم ہے کہ یہاں کسی کی بھی جان مال اور عزت محفوظ نہیں کتنی ایسی مثالیں ہیں کہ جیسے ایک بے گناہ سری لنکن شہری کو بلاسفیمی کے نام پر بے دردی سے قتل کر ڈالا گیا اس کی لاش کو گھسیٹا گیا، ابھی سرگودھا میں ایک مسیحی کو جس وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا بعد ازاں اس غریب کی موت ہوگئی ہے۔ ایسے سماج میں شرم، دامن گیر ہوتی ہے کہ ان انسانی دکھوں کو چھوڑ کر کس منہ سے کرکٹ یا ایسی خوبصورت تفریحات پر قلم اٹھایا جائے۔